زکوة نہ دینا

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 07/06/2022 1774

زکوٰة نہ دینا ایسا گناہ ہے کہ جس کے لئے قرآن مجید میں صریحاً عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ عبد العظیم کے صحیفہ میں امام محمد تقی, امام علی رضا, امام موسیٰ کاظم اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) نے اس کے کبیرہ ہونے کا اس آیت سے استدلال کیا ہے:

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِنَّ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلْأَحْبَارِ وَٱلرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَٰلَ ٱلنَّاسِ بِٱلْبَـٰطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ ۗ وَٱلَّذِينَ يَكْنِزُونَ ٱلذَّهَبَ وَٱلْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍۢ ٣٤ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِى نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا۟ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ (توبہ: 34-35)
اے ایمان والو! اکثر علما اور عابد، لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راه سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔ جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی, یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزه چکھو۔

روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ اس آیہ شریفہ میں کنز سے مراد ہر وہ مال ہے کہ جس سے زکوٰة اور دوسرے واجب حقوق ادا نہ کئے گئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَا يَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَآ ءَاتَىٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا۟ بِهِۦ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِيرَٰثُ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (آل عمران ۔ 180)
جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وه اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لئے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وه ان کے لئے نہایت بدتر ہے، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے، آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ تعالیٰ ہی کے لئے اور جو کچھ تم کر رہے ہو، اس سے اللہ تعالیٰ آگاه ہے .

یعنی لوگوں کے قبضے میں صرف چند روز کے لئے عاریتاً مال ہے اور وہ مر جائیں گے اور فقط خدائے عزوجل کی ذات باقی رہے گی۔ تو اس سے قبل کہ یہ اموال تم سے لے لئے جائیں اور تم ان سے محروم ہو جاؤ اسے راہ خدامیں خرچ کر کے استفادہ کرو۔ تفسیر منہج الصادقین میں لکھا ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ خداوند تعالیٰ نے جسے بھی مال عطا کیا ہو،اور اگر وہ شخص بخل کی بناء پر اسکی زکوٰة ادا نہ کرے تو اسکا وہ مال روز قیامت ایک بڑے سانپ کی صورت اختیار کر جائے گا۔ اور بے پناہ زہر اور خطرناک ہونے کے بناء پر اس (سانپ) کے سر پر بال نہ ہوگا اور اس کی آنکھوں کے نیچے دو سیاہ نشان ظاہر ہوں گے وہ سانپوں کی موذی ترین اقسام میں سے ہے۔ پس وہ سانپ طوق کی صورت میں اس کی گردن میں ڈال دیا جائے گا تو سانپ کے دونوں سرے اسکے چہرے کو اپنے گرفت میں لے لیں گے اور وہ ڈانٹتے ہوئے کہیں گے میں تمہارا وہی مال ہوں کہ جس پر تم دنیا میں دوسروں پر فخر کرتے تھے۔ امام محمد باقر ع نے ارشاد فرمایا:

جو کوئی اپنے کسی ایسے رشتہ دارکو جو اس کے پاس آئے, اور اس مال کثیر میں سے کہ جو خدائے کریم نے اسے عطا کیا ہے, اس میں سے کچھ طلب کرے, تو اگر وہ بخل کی بنا پر کچھ نہ دے, تو خداوندعالم دوزخ سے ایک اژدھا باہر نکالتا ہے جو اپنی زبان کو اپنے منہ کے گرد گھماتا ہے تاکہ وہ آئے اور وہ اژدھا اس کی گردن کا طوق بن جائے۔ (تفسیر منہج الصادقین)

آپؑ سے یہ بھی مروی ہے:

خداوندعالم نے زکوٰة کو نماز کے ساتھ قراردیا ہے اور فرمایا ہے کہ نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو۔ پس جو کوئی نماز پڑھے اور زکوٰة نہ دے، تو ایسا ہے کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی کیونکہ یہ دونوں ملے ہوئے ہیں۔
ایک روز رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مسجد میں تشریف فرما تھے آپؐ نے اس وقت پانچ افراد کو ان کا نام لے کر پکارا اور فرمایا اٹھو اور ہماری مسجد سے باہر نکل جاؤ اور یہاں نماز نہ پڑھو کیونکہ تم زکوٰة نہیں دیتے ہو۔  (وسائل الشیعہ کتاب زکات باب 3)

امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

سونے چاندی کا کوئی مالک اگر اس کی واجب زکوٰة (یا خمس واجب جیسا کہ تفسیر قمی میں ہے) ادا نہ کرے تو روز قیامت خداوند عالم اسے ایک ہموار و چٹیل میدان میں قید کردے گا اور اس پر ایک اژدھا مسلط کر دے گا کہ جس کے بال زہر کی زیادتی کی بنا پر گر گئے ہوں گے اور جب وہ (اژدھا) اسے پکڑنا چاہیے گا تو وہ فرار ہونے کی کوشش کریگا, لیکن جب مجبور ہوجائے گا اور سمجھ لے کہ فرار نہیں ہو سکتا تو اپنے ہاتھ کو اس (اژدھے) کے نزدیک لے جائے گا اوروہ اس کے ہاتھ کو فخل (نر اونٹ) کی طرح چبائے گا اور اس کی گردن میں طوق بن جائے گا چنانچہ خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر بھیڑ گائے اور اونٹ کا کوئی مالک اپنے مال کی زکوٰة ادا نہیں کرے گا توخدائے عزوجل روز قیامت اسے روشن بیابان میں قید کردے گا اور ہر کھروالا (جانور) اسے روندے گا اور ہر نوکیلے دانتوں والا جانور اسے چیرے پھاڑے گا اور جو کوئی بھی اپنے کھجور کے درخت، انگور یا اپنی زراعت کی زکوٰة ادا نہیں کرے گا تو ساتویں طبق تک زمین کا وہ ٹکڑا روز قیامت تک کے لئے اس کی گردن میں طوق بن کر پڑا رہے گا۔
جو کوئی اپنے مال کی زکوٰة ادا نہیں کرتا، تو وہ موت کے وقت چاہے گا کہ اسے دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ وہ زکوٰة ادا کرے جیسا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے اے پروردگار مجھے واپس لوٹا دے تاکہ جو عمل صالح میں نے ترک کیا ہے اسے انجام دوں (مومنون: 99-100) (وسائل الشیعہ کتاب زکات باب 3 ج 6)

اس کے علاوہ آپؑ اس آیت, اسی طرح خدا ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گا اور وہ دوزخ سے نکل نہیں سکیں گے (بقرة ۔ 167) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

کہ وہ شخص جو اپنے مال کو سنبھال کر رکھتا ہے اور راہ خدا میں انفاق کرنے سے بخل کرتا ہے اور جب مرتا ہے تو اسے لوگوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے کہ جو راہ خدا میں اس کی اطاعت میں صرف کرتے ہیں یا گناہ میں۔ اگر اس کا وہ (مال) راہ خدا میں خرچ ہو تو اس نیکی کو دوسروں کے نامہ عمل میں دیکھتا ہے اور افسوس کرتا ہے, کیوں درحقیقت یہ اس کا مال تھا۔ اگر معصیت خدا میں خرچ ہو تو گویا گناہگار کو اس کے مال سے تقویت ملی ہے تو یہ بھی اس کیلئے حسرت کا سامان ہے (وسائل الشیعہ, کتاب زکات, ج 6 باب 4 حدیث 5)

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:

صدقہ کے ذریعے اپنے مریضوں کا علاج کرو، اور مصیبت و بلا کے طوفان کو دعا کے ذریعے دور کرو اور زکوٰة کے ذریعے اپنے مال کی حفاطت کرو۔ (وسائل باب اول حدیث 13)
کوئی چیز بخل کی مانند اسلام کو ختم نہیں کرتی, اس کے بعد فرمایا بخل کا راستہ چیونٹیوں کے راستے کی طرح ہے بظاہر دکھائی نہیں دیتا ہے اور اس کی بھی شرک کی اقسام کی طرح بہت سے اقسام ہیں۔  (وسائل الشیعہ, کتاب زکات, ج 6 باب 5 حدیث 5)

حضرت امیرالمومنین ع فرماتے ہیں:

جس وقت لوگ زکوٰة ادانہیں کریں گے تو زمین سے ان کی زراعت ان کے میووں اوران کی معدنیات میں سے برکت اٹھالی جائے گی۔ (سفینہ البحار ج 1)

امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

خدا کے لئے زمین میں ایسے مکانات ہیں کہ جنہیں انتقام لینے والا کہتے ہیں۔ پس جب بھی خداوند عالم کسی بندے کو مال عطا کرے اور وہ اس حق کو جسے خدا نے واجب فرمایا ہے اس مال میں سے نہ دے تو (خدا) ان مکانات میں سے ایک مکان اس پر مسلط کر دیتا ہے (یعنی وہ چاہنے لگتا ہے کہ اسے آباد کرے) اور اس مال کو اسی جگہ تلف کرتا ہے اور اس کے بعد وہ مر جاتا ہے اور اسے دوسروں کے لئے چھوڑ جاتا ہے۔ (وسائل الشیعہ کتاب زکات باب 5 حدیث 10 ج 6)

زکات نہ دینے والا کافر ہے

اگر زکوٰة کا نہ دینا اس کے وجوب پر اعتقاد نہ رکھنے کی وجہ سے ہو تو پس وہ کافر اور نجس ہے, کیونکہ زکوٰة کا وجوب نماز کیطرح دین کے مسلمہ احکامات میں سے ہے۔ اورجو کوئی ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی منکر ہو تو وہ اسلام سے خارج ہے۔ اور جسطرح آخرت میں اسلام کی برکتوں سے جو کہ جہنم سے نجات کاذریعہ ہو گی محروم رہیں گے بالکل اسی طرح دنیا میں بھی اسلام کے ظاہری احکام سے مثلاً مسلمان کا پاک ہونا، اور ایک دوسرے سے ارث لینا اور عقد ونکاح کرنا وغیرہ سے محروم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر بخل کی بناء پر زکات نہ دیتا ہو تو یہ فسق کا موجب ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ ۶ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَهُم بِٱلْـَٔاخِرَةِ هُمْ كَـٰفِرُونَ (فصلت: 6, 7)
اور ان مشرکوں پر افسوس ہے جو زکوٰة نہیں دیتے اور آخرت سے انکار کرتے ہیں۔

امام جعفرصادق ع فرماتے ہیں:

بے شک خداوند عالم نے فقراء کے لئے ثروت مندوں کے مال میں (حصہ) واجب کیا ہے ایسا واجب کہ جس کی ادائیگی پر مالداروں کی تعریف کی جاتی ہے اوروہ زکوٰة ہے کہ جس کے دینے سے ان کا خون بہانا حرام ہو جاتا ہے اور اس کے ادا کرنے والے مسلمان کہلائے جاتے ہیں۔
اگر کوئی ایک قیراط (جو کے چار دانوں) کے برابر زکوٰة واجب میں سے نہ دے تو وہ نہ مومن ہے نہ مسلمان اور وہی ہے کہ جس کے مرنے کے وقت کی خداوند عالم نے خبر دی ہے کہ کہے اگر پروردگار مجھے لوٹا دے تا کہ اپنے چھوڑے ہوئے عمل صالح کو انجام دوں۔
ایسا شخص بے ایمان ہو کر یہودیوں یا نصرانیوں کے دین پر مرتا ہے۔
صحرا اور دریا میں فقط زکوٰة نہ دینے کے سبب مال ضائع ہوتا ہے۔ اسلام میں دو خون بہانا خداوند عالم کی طرف سے حلال کیا گیا ہے, اور کوئی بھی حکم خدا کو ان دو کے بارے میں جاری نہیں کرے گا یہاں تک قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ظہور فرمائیں گے تو آپ ان دو کے بارے میں حکم خداوندی کا اجراء کریں گے, اور ان دو میں سے ایک زنا کرنے والا ہے کہ جو اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے زنا کرے, پس اسے سنگسار کیا جائے گا, اور دوسرا زکوٰة نہ دینے والا ہے کہ جس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ (وسائل جلد 6)

زکوٰہ واجب ہونے کا سبب

اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر ص سے فرماتا ہےْ:

خُذْ مِنْ أَمْوَٰلِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا (برائت ۔ 103)
آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کی بدولت انہیں پاک صاف کردیں

امام جعفر صادق ع زکوٰة کے فواہد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

بلاشبہ زکوٰة سرمایہ داروں کی آزمائش اور غریبوں کی حاجت پوری کرنے کے لئے واجب کی گئی ہے۔ اگر لوگ اپنے مال کی زکوٰة ادا کرتے تو مسلمانوں میں کوئی بھی غریب اورفقیر نہ ہوتا اور نہ کوئی دوسرے کا محتاج ہوتا اور نہ ہی کوئی بھوکا ننگا رہتا, مگر غریبوں پر پریشانی سرمایہ داروں کے گناہ اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ پر واجب ہوتا ہے جو کوئی مالی حقوق ادا نہیں کرتا ہے وہ انہیں اپنی رحمت سے دور رکھے۔ اور میں ذات خداوندی کی قسم کھاتا ہوں کہ جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور ان کی روزی میں کشادگی عطا فرمائی, بے شک خشکی اور تری میں کسی قسم کا مال ضائع نہیں ہوتا مگر زکوٰة کے ادا نہ کرنے پر۔ (کافی وسائل باب اول حدیث 9)

زکوٰة اور صد قہ مال کو زیادہ کرتا ہے

زکوٰة کے دینوی نتائج مال کا زیادہ ہونا ہے اگر راہ خدا میں انفاق اس کی شرائط کے ساتھ واقع ہو تو خدائے عزوجل کا یقینی وعدہ ہے کہ اس میں برکت ہو گی اور شیطانی خیال کے برعکس چونکہ بخیل وکنجوس لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ راہ خدا میں انفاق کرنے سے ان کا مال کم ہوجائے گا اور وہ فقیر ہو جائیں گے, اور یہی شیطانی خیال انہیں انفاق سے روکے رکھتا ہے, جبکہ قرآن مجید میں صراحتاً فرمایا گیا ہے:

وَيُرْبِى ٱلصَّدَقَـٰتِ (بقرہ ۔ 276)
اور خیرات کو بڑھاتا ہے

یعنی خدا دنیا میں اس میں برکت دے گا اور آخرت میں بھی اجر جزیل عنایت فرمائے گا۔ اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے:

وَمَآ أَنفَقْتُم مِّن شَىْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُۥ ۖ وَهُوَ خَيْرُ ٱلرَّٰزِقِينَ (سبا ۔ 39)
اور تم جو چیز خرچ کرو گے وہ اس کا عوض دے گا۔ اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے

امام جعفر صادق ع اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں:

کیا تم نے یہ گمان کیا کہ خداوعدہ خلافی کرتا ہے راوی نے عرض کیا نہیں, امام ع نے فرمایا پھر تم اپنے انفاق کا عوض کیوں نہیں پاتے؟ اس نے عرض کیا میں نہیں جانتا۔ امام ع نے فرمایا, اگر تم میں سے کوئی رزق حلال حاصل کر کے, اس میں سے ایک درہم بھی راہ حلال میں خرچ کرے, تو اسے اس کا عوض ضرور ملتا ہے۔ (کافی کتاب دعاء ج 2)

یعنی رزق حلال اور راہ حلال بنیادی شرط ہے۔ اور فرماتا ہے:

وَمَآ ءَاتَيْتُم مِّن زَكَوٰةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ ٱللَّهِ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُضْعِفُونَ (روم ۔ 39)
اور تم لوگ جو خدا کی خوشنودی کے ارادے سے زکوٰة دیتے ہو تو ایسے ہی لوگ خدا کی بارگاہ سے دونا دون لینے والے ہیں۔

امیرالمومنین امام علی ع سے مروی ہے:

صدقہ کے ذریعہ اپنی روزی طلب کرو۔ (وسائل, ج 6 باب الصدقہ حدیث 19 )
جب بھی فقیر و محتاج ہو جاؤ تو خداوند عالم کے ساتھ صدقہ دے کر تجارت کرو۔ (نہج البلاغہ)
جو کوئی نیکی کی راہ میں خرچ کرے تو خداوند عالم اس کا عوض دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے اجر میں اضافہ کرے گا۔ (کافی)

حضرت فاطمہ زہراء ع کے خطبہ فدک میں ہے:

خداوند عالم نے بخل و کنجوسی کے مرض سے نجات کے لئے زکوٰة کو واجب کیا ہے, اور یہ تمہارے رزق کی زیادتی کا سبب بھی ہے۔ (بحار الانور ج 8)

امام جعفر صادق ع نے اپنے فرزند سے فرمایا گھر کے اخراجات کے لئے کتنی رقم موجود ہے؟ انہوں نے کہا چالیس دینار ہیں۔ امام ع نے فرمایا ان سب کو راہ خدا میں صدقہ کر دو۔ بیٹے نے کہا, اسکے علاوہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ امام ع نے فرمایا تم سب کو صدقہ کر دو خداوند عالم ہی اسکا عوض دے گا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ ہر چیز کی ایک کنجی ہوتی ہے اور رزق کی کنجی خیرات ہے۔ پس ان کے بیٹے محمد نے سب دینار صدقہ کر دیئے۔ ابھی دس دن سے زیادہ نہیں گزرے تھے کہ کہیں سے امام ع کے پاس چار ہزار دینار پہنچے, تو آپ نے فرمایا بیٹا ہم نے چالیس دینار دیئے تو خداوند عالم نے اس کے عوض ہمیں چار ہزار دینار دے دیئے۔ (عدة الداعی)

حضرت امام علی رضا ع نے اپنے غلام سے فرمایا کہ کیا آج کوئی چیز راہ خدا میں دی ہے؟ غلام نے عرض کیا, بخدا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا, پس خدائے عزوجل ہمیں عوض کہاں سے دے گا۔

زکوٰة کی قسمیں ان کے موارد اور مقدار

زکوٰة کی دو قسمیں ہیں واجب اور مستحب۔ اور زکوٰة واجب کی بھی دو قسمیں ہیں مال کی زکوٰة اور زکوٰة فطرہ۔ مال کی زکوٰة 9 چیزوں سے متعلق ہے,

  • چار قسم کے غلے (گندم، جو، کھجور، کشمش)
  • تین طرح کے مویشی (بھیڑ، گائے، اونٹ)
  • اور دو طرح کی نقدی (سونا اور چاندی)

زکوٰة تب واجب ہوتی ہے کہ جب ان کی مقدار خاص نصاب تک پہنچ جائے۔ غلوں کا نصاب 847 کلوگرام ہوتا ہے۔ اگر سینچائی بارش کے پانی یا نہر سے ہوئی ہو, یا زمین کی رطوبت سے ہوئی ہو تو ان کی زکوٰة دسواں (1/10) حصہ ہوگی اور اگر کنوئیں کے پانی وغیرہ سے ہوئی ہو تو بیسواں (1/20) حصہ زکوٰة ہوگی۔

گوسفند کے پانچ نصاب ہیں:

نصاب نمبر

بھیڑ کی تعداد

زکوة

0

40 سے کم

زکوٰة نہیں ہے

1

40

1 بھیڑ

2

121

2 بھیڑ

3

201

3 بھیڑ

4

301

4 بھیڑ

5

400 یا اس سے زیادہ

ہر 100 بھیڑ پر 1 بھیڑ

گائے کے دو نصاب ہیں:

نصاب نمبر

گائے کی تعداد

زکوة

0

30 سے کم

زکوٰة نہیں ہے

1

30 گائے

2 سالہ 1 بچھڑا

2

40 گائے

3 سالہ 1 بچھیا

مزید

40 سے زیادہ

ہر 30 گائے پر 2 سالہ 1 بچھڑا, اور ہر 40 گائے پر 3 سالہ 1 بچھیا

اونٹ کے 12 نصاب ہیں:

نصاب نمبر

اونٹ کی تعداد

زکوة

0

5 سے کم

زکوٰة نہیں ہے

1

5 اونٹ

1 بھیڑ

2

10 اونٹ

2 بھیڑ

3

15 اونٹ

3 بھیڑ

4

20 اونٹ

4 بھیڑ

5

25 اونٹ

5 بھیڑ

6

26 اونٹ

2 سالہ 1 اونٹ

7

36 اونٹ

3 سالہ 1 اونٹ

8

46 اونٹ

4 سالہ 1 اونٹ

9

61 اونٹ

5 سالہ 1 اونٹ

10

76 اونٹ

3 سالہ 2 اونٹ

11

91 اونٹ

4 سالہ 2 اونٹ

12

121 اور زیادہ

ہر چالیس اونٹوں پر ایک 3 سالہ اونٹ, یا ہر پچاس اونٹوں پر ایک 4 سالہ اونٹ

چاندی کانصاب

نصاب نمبر

سکے دار چاندی کی مقدار

زکوة

0

105 مثقال سے کم

زکوة نہیں ہے

1

105 مثقال

1/40 حصہ

2

126 مثقال

1/40 حصہ

سونے کا نصاب

نصاب نمبر

سکے دار سونے کی مقدار

زکوة

0

20 مثقال سے کم

زکوة نہیں ہے

1

20 مثقال

1/40 حصہ

2

20 کے بعد ہر اضافی 4 مثقال

کل وزن کا 1/40 حصہ

ان شرائط کے ساتھ کہ سونا اور چاندی سکہ کی شکل میں ہو, اور خواتین کے زیورات کی شکل میں ہو تو اس پر زکات نہیں ہے۔ اور ایک سال تک رکھا رہے اور اس کا کوئی معاملہ طے نہ ہو۔ اور اگر سونا اور چاندی چند سال رکھے رہیں تو ہر سال واجب ہے کہ 1/40 حصے کو بطور زکوٰة ادا کرے یہاں تک کہ نصاب نمبر 1 سے کم ہوجائے۔ مذکورہ مثقال کا وزن مثقال شرعی ہے, اور 4 مثقال شرعی 3 مثقال عمومی کے برابر ہوتا ہے۔

زکوٰة کا مصرف

زکوٰة کے مال کو آٹھ جگہوں پرخرچ کیا جاسکتا ہے, جیسا کہ اس آیت شریفہ میں ذکر ہے:

إِنَّمَا ٱلصَّدَقَـٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْعَـٰمِلِينَ عَلَيْهَا وَٱلْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَٱلْغَـٰرِمِينَ وَفِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (توبہ ۔ 60)
صدقے صرف فقیروں  کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راه میں اور راہرو مسافروں کے لئے، فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم وحکمت واﻻ ہے۔
  1. فقیر: ہر وہ شخص جس کے پاس اپنے اہل و عیال کے لئے سال بھر کا خرچ یا اس کا انتظام نہ ہو
  2. مسکین: جو فقیر سے زیادہ تنگ دست ہو۔
  3. عاملین زکوة: امام یا نائب امام کی طرف سے منصوب زکات کے وصول کرنے والے
  4. مولفة القلوب: کمزور ایمان لوگ کہ زکات جن کی تقویت اور اسلام کی طرف مائل کرنے کا سبب ہو
  5. گردن چھڑانے میں: اس غلام کے لئے جو اپنی آزادی کی رقم ادا نہیں کر سکتا
  6. غارمین: جو اپنا قرض ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں
  7. راہ خدا میں زکوٰة خرچ کی جاسکتی ہے, اور اس سے مراد ہر وہ کام ہے کہ جس میں عمومی دینی فائدہ ہو مثلاًمساجد یا ایسا مدرسہ قائم کرنا جہاں پر دینی تعلیم دی جاتی ہو یا پل بنانا یا دو گروہوں یا دو افراد کے درمیان صلح کرانا یا عبادات میں مدد دینا وغیرہ۔
  8. ابن سبیل: ایسے مسافر پر خرچ کی جاسکتی ہے جو سفر میں مجبور ہو چکا ہو اور قرض لے کر یا اپنی کوئی چیز بیچ کر اپنی منزل تک نہ پہنچ سکتا ہو اگر چہ وہ اپنے شہر میں فقیر نہ ہو۔

مستحب زکوٰة

سات چیزوں میں زکوٰة مستحب ہے:

  1. سرمایہ یعنی ایسا مال جسے انسان تجارتی معاملات میں خرچ کرنا چاہتا ہو۔
  2. دالوں کی قسمیں مثلاً چاول، چنے،  دال ماش مسور وغیرہ
  3. گھوڑی یعنی گھوڑے کی مادہ
  4. لباس اور زیور, اور ان کا ادھار دینا ہی ان کی زکات ہے
  5. چھپا ہوا یا دفن کیا ہوامال جسے مالک خرچ نہیں کر سکتا۔ تصرف حاصل ہونے کی صورت میں مستحب ہے کہ اس کی ایک سال کی زکوٰة ادا کرے۔
  6. جب بھی زکوٰة سے چھٹکارا پانے کے لئے نصاب میں تصرف کرے (مثلاً ایک سال ہونے سے پہلے اس کے ایک حصے کو بیچ دے) تو مستحب ہے کہ سال شروع ہونے پر اس مال کی زکوٰة دے۔
  7. مال اجارہ یعنی گھر، دوکان، باغ، حمام وغیرہ کے کرایہ و ٹھیکہ پر۔

خمس

زکوٰة کے بعد اہم ترین واجب الہٰی خمس ہے جسے خداوند عالم نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور ان کی آل کے لئے زکوٰة کے بدلے میں کہ جو ان پر حرام ہے، مقرر فرمایا ہے۔ اور اگر کوئی اسے اپنے لئے حلال سمجھے اور اس کے وجوب کا منکر ہو تو ہو کافرین میں سے ہے۔ اس کا وجوب اجماع مسلمین کی نگاہ میں اور قرآن مجید میں واضح ہے بلکہ قرآن پاک میں اسے خدا پر ایمان کی شرط بتایا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَىْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُۥ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ إِن كُنتُمْ ءَامَنتُم بِٱللَّهِ وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ ٱلْفُرْقَانِ يَوْمَ ٱلْتَقَى ٱلْجَمْعَانِ ۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ (انفال ۔ 41)
جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو  اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں اور مسکینوں کا اور مسافروں کا، اگر تم اللہ پر ایمان ﻻئے ہو اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا ہے، جو دن حق وباطل کی جدائی کا تھا  جس دن دو فوجیں بھڑ گئی تھیں۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

حضرت امام محمد باقر ع فرماتے ہیں:

کسی کے لئے اس مال میں سے کوئی چیز خریدنا جائز نہیں جسکا خمس ادا نہ کیا ہواور جب تک کہ ہمارے حقدار کو اس کا حق ادا نہ کرے۔
روز قیامت لوگوں کے لئے سخت ترین وقت وہ ہوگا جب خمس کے مستحقین اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان لوگوں سے جہنوں نے (خمس) ادا نہ کیا ہوگا اپنے حق کا مطالبہ کریں گے۔ (اصول کافی ج 1)

امام جعفرصادق ع فرماتے ہیں:

جب خداوند عالم نے ہم اہل بیت پر زکوٰة حرام قرار دے دی تو ہمارے لئے خمس بھیج دیا۔ چنانچہ صدقہ ہم پر حرام ہے, خمس ہمارے لئے واجب ہے اور ہدیہ ہمارے لئے جائز ہے۔ (کافی)

حضرت امام علی رضا ع سے منقول ہے:

ہمیں خمس دینے سے اجتناب نہ کرو, اور جس حد تک ہو سکے اپنے آپ کو ہماری دعاؤں سے محروم نہ کرو, یقینا خمس دینا تمہاری روزی کے وسیع ہونے اور گناہوں سے پاک ہونے کاسبب ہے, اور اس پریشانی و بیچارگی کے دن (روز قیامت) کا ذخیرہ ہے, اور مسلمان وہی ہے کہ جو کچھ اطاعت و بندگی میں اس نے خداوند عالم سے عہد کیا ہے اسے پورا کرے, اورجو کوئی زبان سے قبول کرے اور دل سے مخالفت تو وہ مسلمان نہیں ہے۔ (وافی، کافی, تہذیب)

وجوب خمس کے موارد اور ان کا مصرف

خمس سات چیزوں پر واجب ہے,

  1. جنگ کا مال غنیمت
  2. جواہرات جو غوطہ خوری کے ذریعے حاصل ہوں
  3. معدنیات
  4. خزانہ
  5. سال بھر کی کمائی میں سے خرچ کرنے کے بعد جو کچھ بچ رہے
  6. وہ حلال مال جو حرام میں مخلوط ہو گیا ہو اور جس کی مقدار معلوم نہ ہو
  7. وہ زمین جسے کافر ذمی مسلمان سے خریدے۔

خمس کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ سادات کا ہے جو کسی ایسے سید کو دیں جو فقیر ہو، یتیم ہو یا جس کا زاد راہ سفر میں ختم ہو چکا ہو۔ خمس کا دوسرا حصہ امام زمانہ ع کا ہے جو ان کی غیبت میں ان کے نائب مجتہد جامع الشرائط کو دیا جائے یا اس کام میں لگایا جائے جس کی مجتہد جامع الشرائط نے اجازت دی ہو۔

وہ عیال کہ جن کا نفقہ واجب ہے

واجب نفقوں میں سے زوجہ دائمی جو کہ اطاعت گزار ہو کا نفقہ اور اس کی اولاد اور اسکی اولاد جس قدر نیچے جاتے جائیں ضرورت مند ہونے کی صورت میں واجب ہے اور ماں باپ اور باپ کا باپ ماں کی ماں جس قدر اوپر جاتے جائیں۔ ان کی ضرورت کے وقت اور اپنی طاقت کے مطابق, مناسب اور واجب مقدار میں اگر نہ دے تو قطع رحم کا مرتکب ہوتا ہے۔

مستحب انفاق

مستحب انفاق کی کئی قسمیں ہیں۔

1. مستحب صدقہ

مثلاًجمعہ کے دن، روز عرفہ اور ماہ رمضان میں یا خاص افراد کے لئے مثلاً پڑوسی، رشتہ دار وغیرہ صدقہ کرنا۔ آیات وروایات متواترہ میں اس بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے اور اس کے فوائد اسطرح سے بیان کئے گئے ہیں,

  • مرض کی دوا،
  • رزق کو نازل کرنے والا،
  • مال کو زیادہ کرنے والا,
  • ناگہانی آفات مثلاً بری موت، جلنا، غرق ہونا اور جنون کو موخر کرتا ہے,
  • ستر بلاوں کو دور کرتا ہے
  • جس قدر زیادہ دیا جائے اتنا ہی نتیجہ اچھا ہوگا اور اس کے کم ہونے کی بھی کوئی حد نہیں ہے خواہ کھجور کے ایک دانے کے برابر ہو۔

    2. ہدیہ

    وہ چیز کہ جسے کوئی شخص دوستی کو بڑھانے کے لئے اپنے کسی غریب یا امیر مومن بھائی کو دے اور اگر یہ قصد قربت کے ساتھ ہو تو افضل عبادات میں سے ہے۔ امیرالمومنین امام علی ع سے مروی ہے:

    اگر میں اپنے مومن بھائی کو بطور ہدیہ کوئی چیز دوں تو اسے صدقہ دینے سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔ (کافی ج 5)

    3. ضیافت

    مومن کی مہمان نوازی کی فضیلت کے بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں اوریہ انبیاء کرام ع کے اخلاق میں سے ہے۔ مروی ہے کہ سات روز گزر چکے تھے اور امیرالمومنین امام علی ع کے پاس کوئی مہمان نہیں آیا تو آپ روتے ہوئے فرمانے لگے, میں اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ کہیں خداوند عالم نے مجھ پر سے لطف و کرم کی نظر تو نہیں ہٹا لی۔

    4. حق معلوم اورمحروم

    مال کی وہ مقدار کہ جسے کوئی مسلمان اپنی جائداد اور حیثیت کے مطابق اپنے لئے لازم کر لے کہ ہر روز یا ہر ہفتہ یا ہر مہینہ باقاعدگی سے ضرورت مندوں اور اپنے رشتہ داروں کو ادا کرے گا۔ چنانچہ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے

    وَٱلَّذِينَ فِىٓ أَمْوَٰلِهِمْ حَقٌّۭ مَّعْلُومٌۭ ٢٤ لِّلسَّآئِلِ وَٱلْمَحْرُومِ  (معارج: 24-25)
    اور جنہوں نے اپنے مال میں سے کچھ حصہ مقرر کر دیا ہے, مانگنے والوں کا بھی اور سوال سے بچنے والوں کا بھی.

    حضرت امام موسی بن جعفر ع سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک صالح آدمی تھا کہ جس کی ایک صالحہ بیوی تھی۔ ایک دن اس آدمی سے خواب میں کہا گیا کہ خداوند عالم نے تمہاری اتنی عمر مقرر کی ہے کہ جس میں سے نصف عمر خوشحالی میں بسر ہو گی اور نصف غربت و تنگ دستی میں اورخداوند عالم نے تمہیں یہ اختیار دیا ہے کہ تم اپنی عمر کے ابتدائی حصے میں خوشحالی چاہتے ہو یا آخری حصے میں یا اس کے برعکس چاہتے ہو؟ اس آدمی نے جواب دیا میری ایک نیک بیوی ہے جو ہر کام میں میری شریک ہے میں اس سے مشورہ کر لوں تو جواب دوں گا۔ صبح کو اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا تو اس نے کہا عمر کے ابتدائی حصے میں خوشحالی کو قبول کرو اور اس عافیت کو پالینے میں جلدی کرو شاید خدائے عزوجل ہم پر رحم فرمائے اور اپنی نعمتوں کو ہم پر تمام کرے۔ جب دوسری رات اس آدمی سے خوب میں پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ عمر کے پہلے حصے کو خوشحالی میں گزارنا چاہتا ہوں۔

    پس کہا گیا تمہارے لئے ایسا ہی ہو گا اس کے بعد سے ہر طرح کی نعمت و آسائش حاصل ہو گئی اور اس کے پاس مال و دولت فروان ہو گیا تو اس کی بیوی نے اسے کہا اے بندہ خدا اب تم اپنے رشتہ داروں اور محتاجوں کی مدد کرو اور ان کے ساتھ نیکی کا برتاو کرو اور فلاں پڑوسی اور فلاں ہمسایہ کو فلاں چیز بخش دو اس آدمی نے اپنی بیوی کے مشورے پر عمل کیا اور اپنے مال کی سخاوت میں ذرا سی بھی کوتاہی نہیں کی یہاں تک کہ اس کی آدھی عمر گزر گئی تو اس آدمی نے دوبارہ اسی شخص کو خواب میں دیکھا جو یہ کہہ رہا تھا کہ تم نے راہ خدا میں انفاق کرنے سے گریز نہیں کیا اس لئے خداوند عالم نے تمہارے اس نیک عمل کے بدلے میں تمہاری عمر کے آخری حصے میں بھی اسی طرح خوشحالی لکھ دی ہے۔

    5. حق حصاد

    زراعت کی وہ مقدار کہ جو فصل کی کٹائی کے وقت زکوٰة میں حساب کئے بغیر راستے سے گزرنے والوں کو مٹھی مٹھی دی جائے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے:

    وَءَاتُوا۟ حَقَّهُۥ يَوْمَ حَصَادِهِۦ (انعام ۔ 141)
    اور فصل کاٹنے کے دن خدا کا حق دے دو۔

    6. قرض حسنہ

    امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

    جب بھی کوئی مومن رضائے خدا کے لیے کسی مومن کو قرض دے تو خداوند عالم اس کے واپس مل جانے تک اسے صدقہ میں شمار کرتا ہے۔ (وافی)
    بہشت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے صدقہ دینے کی دس نیکیاں اور قرض الحسنہ کی اٹھارہ نیکیاں ہیں۔ (کافی)

    اس کے علاوہ آپ ہی سے مروی ہے کہ, مٰاعُوْن (گھریلو سامان) کہ جس کے ترک پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عذاب کا وعدہ کیا ہے, وہ زکوٰة نہیں, بلکہ اس سے مراد ضرورت مندوں کو قرض دینا اور طلب کرنے والوں کو عاریتاً گھریلو اشیاء دینا ہے۔
    ابوبصیر نے امامؑ سے عرض کیا, ہمارے پڑوسی جب بھی ہم سے کوئی چیز عاریتاً لیتے ہیں تو اسے توڑ پھوڑ دیتے ہیں یا خراب کر دیتے ہیں, اگر ہم انہیں منع کر دیں تو کیا ہمارے سر گناہ ہے؟ امام ع نے فرمایا اگر وہ لوگ ایسے ہیں, تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

    7. مقروض کو مہلت دینا یا اس کو بخشنا

    پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:

    جو کوئی مجبور مقروض کو مہلت دے تو اس کے لئے اس کا ثواب خداوند عالم کے نزدیک ہر روز صدقہ دینے کے برابر ہے جب تک وہ مال اسے واپس نہیں مل جاتا۔

    امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

    جو کوئی اس دن خدائے بزرگ وبرتر کی پناہ میں رہنا چاہتا ہے کہ جس دن اس کی پناہ کے علاوہ کوئی پناہ نہ ہوگی تو اسے چاہئے کہ مجبور و عاجز مقروض کو مہلت دے یا یہ کہ اسے بخش دے۔

    امام جعفرصادق ع سے عرض کیا گیا کہ عبد الرحمان بن سبابہ ایک مردہ شخص سے قرض کا طلبگار ہے ہم نے اس سے کہا کہ اسے بخش دو لیکن وہ قبول نہیں کرتا امام ع نے فرمایا:

    وائے ہو اس پر کیا وہ نہیں جانتا کہ اگر وہ اس مردے کو قرض بخش دے گا تو ہر درہم کے مقابلے میں دس درہم پائے گا, اور اگر حلال نہیں کرے گا تو ایک کے بدلے میں صرف ایک درہم کا ہی طلبگار رہے گا۔

    8. ضرورت مندوں کے لئے لباس ومسکن میں سخاوت

    امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

    جو کوئی اپنے مومن بھائی کو سردی یا گرمی کا لباس پہنائے تو خدا وند عالم پر اس کا حق ہے کہ اسے بہشت کے لباسوں میں سے لباس پہنائے اور موت کے وقت جان کنی کی سختیوں سے اسے امان میں رکھے اور اس کی قبر کو اس کے لئے کشادہ کر دے اور قیامت میں جب اپنی قبر سے باہر نکلے تو ملائکہ سے خوشی سے ملاقات کرے۔
    جو کوئی مسلمان فقیر کو برہنگی سے نجات کیلئے لباس پہنائے یا مالی لحاظ سے اس کی مدد کرے تو خداوند عالم سات ہزار ملائکہ کو مقرر کرتا ہے کہ قیامت تک اس کے ہر ایک گناہ کا استغفار کریں۔ (کافی ج 2)

    9. عزت واحترام نفس کی حفاظت

    اپنی عزت و احترام کی حفاظت کے لئے اورشریروں کے شر اور ظالمین کے ظلم کو رفع کرنے کے لئے مال کی سخاوت۔ مروی ہے کہ بہترین انفاق وہ ہے کہ جس سے عزت کی حفاظت کی جا سکے۔

    10. خیرات جاریہ

    خیرات جاریہ اور لوگوں کے فائدے کے لئے مال خرچ کرنا۔ مثلاً مسجد, مدرسہ، پل، سرائے وغیرہ بنوانا یا آب جاری کا چشمہ کھدوانا، یا دینی کتابوں کو چھاپنا وغیرہ یہ ایسے امور ہیں کہ جن کا اثر مدتوں تک قائم رہتا ہے اور ان کا انجام دینے والا ان سے ثواب حاصل کرتا رہتا ہے۔ امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں: مرنے کے بعد انسان کسی چیز سے بہرہ مند نہیں ہوسکتا سوائے تین چیزوں کے,

    1. ایسا صدقہ جو دنیا میں دیا تھا اور اس کے مرنے کے بعد بھی جاری ہو
    2. وہ نیک سنت جس کی بنیاد رکھی ہواور اس کے مرنے کے بعد بھی اس پر عمل کیا جائے۔
    3. صالح فرزند جو اس کے لئے دعا و استغفار کرے۔ (وافی، کافی, تہذیب)

    متعلقہ تحاریر