جھوٹ

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 24/04/2022 1464

جھوٹ بڑے گناہوں میں سے ایک

بُت پرستی کے ساتھ جھوٹ سے پرہیز کا حکم دیا گیا ہے, ارشاد ہے کہ:

فَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلرِّجْسَ مِنَ ٱلْأَوْثَـٰنِ وَٱجْتَنِبُوا۟ قَوْلَ ٱلزُّورِ (حج ۔ 30) 
تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو
حدیث نبوی میں ہے کہ:
ایک سب سے بڑا گناہ بہت باتونی اور بہت جھوٹے شخص کا گناہ ہے! (مستدرک الوسائل)
حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہی نے فرمایا:
آگاہ ہوجاو، مَیں تمھیں گناہان کبیرہ میں سے سب سے بڑے گناہوں کو بتاتا ہوں,
  • کسی کو خدا کا شریک قرار دینا،
  • والدین کے ذریعے عاق ہوجانا،
  • اور جھوٹ بولنا!
حضرت امام حسن عسکری علیہ السَّلام سے مروی ہے کہ:
تمام برائیاں ایک کمرے میں مقفّل ہیں اور اسکی چابی جھوٹ ہے!

جھوٹا شخص ملعون ہے

جھوٹا شخص خدا کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے اور اس پر خدا کا غضب اور قہر نازل ہوتا ہے۔ ارشاد ہے

أَنَّ لَعْنَتَ ٱللَّهِ عَلَيْهِ إِن كَانَ مِنَ ٱلْكَـٰذِبِينَ (نور ۔ 7)
اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر خدا کی لعنت
آیہ مباہلہ میں ارشاد ہوتا ہے:
فَنَجْعَل لَّعْنَتَ ٱللَّهِ عَلَى ٱلْكَـٰذِبِينَ (آ ل عمران ۔ 61) 
پھر ہم جھوٹوں پر خُدا کی لعنت کے لئے بددُعا کریں گے!
مروی ہے کہ عرش کو اٹھائے ہوئے خدا کے مقرّب فرشتے جھوٹے پر لعنت بھیجتے ہیں! حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
مومن جب بغیر کسی عذر کے جھوٹ بولتا ہے تو اس پر ستّر ہزار فرشتے لعنت بھیجتے ہیں, اور اس ایک جھوٹ کے سبب سے خدا اس کے لئے ستّر مرتبہ زنا کرنے کے برابر کا گناہ لکھ دیتا ہے۔ اور وہ بھی ایسے زنا جن میں سے معمولی ترین زنا، ماں کے ساتھ ہو۔
ظاہر ہے کہ جھوٹ کے نقصانات زنا کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ بعض جھوٹ ایسے ہوتے ہیں جو دو قبیلوں اور دو قوموں کو آپس میں لڑوا دیتے ہیں۔  بعض جھوٹ ایسے ہوتے ہیں جو بے شمار جانوں اور ان گنت عصمتوں کو ضائع کردیتے ہیں بعض جھوٹی گواہیاں بے گناہ آدمیوں کو سولی پر چڑھا دیتی ہیں اور کئی گھرانے تباہ کردیتی ہیں۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ دلوں میں دشمنی اور کینے کا سبب بنتا ہے!

جھوٹ، فسق ہے

ارشاد ربانی ہے:

إِن جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوٓا۟ (حجرات ۔ 6)
اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو
اس آیت میں ولید کو فاسق یعنی جھوٹا قرار دیا گیا ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مروی ہے:
جھوٹ سے بچو، اس لئے کہ یہ فسق و فجور کی ایک قسم ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنمی ہیں! (مستدرک الوسائل)

 جھوٹ بولنے والا مومن نہیں ہوتا

إِنَّمَا يَفْتَرِى ٱلْكَذِبَ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِـَٔايَـٰتِ ٱللَّهِ (نحل ۔ 105) 
جھوٹ بہتان تو بس وہی لوگ باندھا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے!
ظاہر ہے خدا کی آیتوں پر ایمان نہ رکھنے والا شخص مومن نہیں ہوسکتا۔ امام محمد باقر علیہ السَّلام فرماتے ہیں:
جھوٹ ایمان کو خراب کردینے والا ہوتا ہے۔ ( کافی )
پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں:
جھوٹ جتنا بڑھے گا ایمان اتناکم ہوگا! (مستدرک الوسائل) 
امام علی علیہ االسَّلام فرماتے ہیں:
کوئی بندہ ایمان کا ذائقہ اس وقت تک چکھنے سے محروم رہتا ہے جب تک وہ جھوٹ کو ترک نہ کرے‘ خواہ وہ جھوٹ مذاق میں ہو یا سنجیدگی کے ساتھ!

جھوٹ منافق کی علامت ہے

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی یہ حدیث مستدرک الوسائل میں موجود ہے کہ:

منافق کی تین علامتیں ہیں,
  • جھوٹ بولنا،
  • خیانت کرنا
  • اور وعدہ خلافی کرنا۔

جھوٹ کا گناہ شراب سے بڑھ کر ہے

حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام کا ارشاد ہے:

بیشک خدانے تمام برئیوں کے کچھ نہ کچھ تالے بنائے ہیں اور ان تالوں کی چابی شراب ہے جب کہ جھوٹ شراب سے بدتر ہے! (اصول کافی، کتاب الایمان والکفر، جھوٹ کا باب)
اگرچہ شراب عقل وہوش کو ختم کردیتی ہے لیکن جھوٹ نہ صرف عقل کو خبط کردیتا ہے بلکہ انسان کو اتنا بے حیا اور بے غیرت بنا دیتا ہے کہ وہ ہر قسم کی شیطانیت پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ شرابی کی عقل جب کام نہیں کرئی ہے تو وہ چالاکی اور عیّاری نہیں دکھا سکتا، جب کہ آدمی جھوٹ بول کر چالاکی سے معاشرے کو شرابی سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا دیتا ہے۔

جھوٹے کا بدبو دار مُنہ

مروی ہے کہ قیامت کے دن ہر جھوٹے آدمی کے مُنْہ سے سخت بدبو آئے گی! بدبو اس قدر ہوگی کہ فرشتے تک جھوٹے شخص کے پاس نہیں جائیں گے اور اس سے دور ہٹیں گے۔ یہ بات صرف قیامت تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا میں بھی فرشتوں کو جھوٹے لوگوں کے مُنْہ سے بَدبو محسوس ہوتی ہے۔ مروی ہے کہ جھوٹے کے مُنْہ سے خارج ہونے والی بدبو عرش تک پہنچ جاتی ہے! حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میں ہے:

جب خدا کا کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کے مُنْہ سے اتنی بدبو آئی ہے کہ فرشتے اس سے دور ہٹ جاتے ہیں ! (مستدرک الوسائل)

بدترین کمائی, جھوٹ کا سود

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:

انسان کی بدترین کمائی جھوٹ کا سود ہے!  (وسائل الشیعہ)
ایک شخص نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا  ایسا کون سا عمل ہے جو سب سے زیادہ لوگوں کہ جہنمی بنا دیتا ہے؟ آنحضرت نے جواب دیا۔ وہ جھوٹ ہے! جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو ہر گناہ کے سلسلے میں بے باک ہوجاتا ہے، اور جب اتنا بڑھ جاتا ہے تو کفر کر بیٹھتا ہے اور جب کفر کر بیٹھتا ہے تو جہنم میں داخل ہوجاتا ہے! (مستدرک الوسائل) 

جھوٹ نسیان اور بھول پیدا کرتا ہے

امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں کہ:

بیشک بہت جھوٹ بولنے والوں کو خدا جو سزائیں دیتا ہے اُن میں سے ایک نسیان (اور بھول ) کا مرض ہے!  پس آدمی جھوٹ بولتاہے اور بھول جاتا ہے کہ اُس نے جھوٹ بولا تھا۔ پھر اس کا جھوٹ پکڑا جاتا ہے، وہ رسواہوتا ہے مگر اپنی رسوائی کو چھپانے کی کوشش میں وہ جھوٹ پر جھوٹ بولتا ہے اور دوسرا جھوٹ بول کروہ پہلا جھوٹ نبھانے کی کوشش کردیتا ہے۔ لیکن وہ بھی بھول کر خود کو مزید رسوا کر دیتا ہے۔ (وسائل الشیعہ)

جھوٹ بولنے والوں پر سخت عذاب

آنحضرت شب معراج کا آنکھو ں دیکھا حال بیان فرماتے کہ:

میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کو پیٹھ کے بَل لٹایا گیا ہے اور دوسرا شخص اس کے سَر پر کھڑا ہے۔ کھڑے ہوئے شخص کے ہاتھ میں ایک نو کیلا لوہے کا ڈنڈا ہے جس سے وہ لیٹے ہوئے شخص کو زخمی کردیتا ہے۔ اس کا مُنْہ گردن تک ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے! ڈنڈا اوپر ہوجاتاہے تو دوبارہ نیچے آنے سے پہلے وہ شخص ٹھیک ہوجاتا ہے اور بار بار اس عذاب سے وہ گذرتا ہے!
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں میں نے پوچھا  اس کے عذاب کی وجہ کیا ہے؟
بتایا گیا:  یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا تھا تو ایسا جھوٹ کہتا تھا جس سے دنیا کے لوگوں کو نقصان پہنچتا تھا۔ پس قیامت تک اس پر (مرنے کے بعد ) ایسا ہی عذاب ہوگا!
جھوٹا شخص صرف دیکھنے میں انسان ہوتا ہے لیکن عالم برزخ میں اس کی صورت انسانی نہیں ہوتی۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت فاطمہ زہراء س کو حدیث معراج بتاتے ہوئے فرمایا تھا:
شب معراج میں نے ایک عورت کو دیکھا جس کا سر سُور سے ملتا جلتا تھا اور جس کا باقی بدن گدھے کی طرح کا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ فتنے اُٹھاتی تھی اور جھوٹ بولتی تھی! ( عیون اخبار الرَّضا)

جھوٹ ہدایت سے محرومی اور ہلاکت کا سبب


جھوٹا شخص حق اور حقیقت سے دور رہتا ہے۔ جیسا ارشاد ہے:
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ (مومن ۔ 40) 
اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہیں
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى مَنْ هُوَ كَـٰذِبٌ كَفَّارٌ (زمر ۔ 3) 
بے شک خدا جھوٹے ناشکرے کو ہدایت نہیں دیتا!
جھوٹا شخص نماز شب سے محروم رہتا ہے۔ شریفی، امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے نقل کرتے ہیں کہ:
بے شک آدمی جب جھوٹ بولتا ہے تو اس کی وجہ سے نماز شب کی توفیق اسے حاصل نہیں ہوتی اور جب نماز شب کی توفیق نہیں ہوتی تو اس کی وجہ سے فراوانی رزق بھی نہیں ہوتی!  (بحارالانوار) 
جھوٹا آدمی اپنے جھوٹ کی وجہ سے ہلاکت میں پڑجاتا ہے۔ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
جھوٹ سے پرہیز کرو، اگرچہ تمھیں اس میں نجات نظر آرہی ہو، مگر در حقیقت اس میں ہلاکت ہوتی ہے! (مستدرک الوسائل) 
جھوٹ شیطان کے ہاتھ کی زینت ہے۔ حدیث نبوی میں ہے کہ: 
بیشک ابلیس سُرمہ بھی لگاتا ہے، انگلی میں چھلّا بھی پہنتا ہے۔ اور نسوار بھی استعمال کرتا ہے! پس اُس کا سُرمہ اونگھنا اور سستی کرناہے، اس کی انگلی کا چھلّا جھوٹ ہے اس کی نسوار غرور و تکبر ہے!

جھوٹا دوستی کے کے قابل نہیں


امیر المومنین علیہ السَّلام فرماتے ہیں:
ہر مسلمان آدمی کو چاہیے کہ وہ بہت جھوٹے آدمی کے ساتھ دوستی اور برادری کا رشتہ نہ باندھے! اس لئے جھوٹے سے دوستی کرنے والے شخص کو بھی جھوٹا سمجھا جائے گا! حتّٰی کہ اگر وہ سچی بات بھی کرے گا تو سچ نہیں مانا جائے گا! (وسائل الشیعہ)
حضرت عیسی ابن مریم علیہ السَّلام کا ارشاد ہے:
جس شخص کا جھوٹ کثرت سے ہوتا ہے اس کی انسانیت رخصت ہوجاتی ہے۔  ( کافی)
پھر کوئی اُس سے مانوس نہیں ہوتا اور کوئی اس سے دلی لگاو نہیں رکھتا! جھوٹے شخص کا مشورہ شرعی لحاظ سے پسندیدہ نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
جھوٹے شخص کی رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے! (مستدرک الوسائل)
جھوٹ کی وجہ سے آدمی کا اخلاق دیگر تمام انسانوں کی نسبت زیادہ خراب ہو جاتا ہے۔ حدیث نبوی میں ہے:
مروت اور اخلاق کے اعتبار سے پست ترین آدمی وہ ہے جو جھوٹ بولتا ہو(مستدرک الوسائل)
جھوٹ بدترین نفسیاتی بیماری ہے! امیرالمومنین حضرت علی علیہ السَّلام کا ارشاد ہے:
اور جھوٹ کی بیماری بدترین نفسیاتی بیماری ہے! (مستدرک الوسائل)

جھوٹ کے مختلف درجات

اگرچہ شہید ثانی علیہ الرحمہ کی طرح مجتہدین کا ایک گروہ جھوٹ کو، خواہ وہ کیسا ہی ہو، مطلق طور پر گناہ کبیرہ قرار دیتا ہے، لیکن روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ کے مختلف درجات ہیں۔ اُن میں سے بعض یقینا کبیرہ ہیں، بعض جھوٹ سب سے بڑے گناہ کبیرہ ہیں، اور بعض جھوٹ البتّہ ایسے بھی ہیں جن کے گناہ کبیرہ ہونے میں شک ہے۔

ایسا جھوٹ یقیناً گناہ کبیرہ ہے جس کے مضراثرات ہوں، اور دوسروں کو جس سے نقصان پہنچے۔ اگر نقصان بڑا ہو تو گناہ بھی اُسی کی مناسبت سے زیادہ ہے۔ مثلاً جھوٹ بولنے سے اگر کسی کا مالی نقصان ہوتا ہو تو اس کا گناہ ایسے جھوٹ سے یقیناً کم ہے جس کے نتیجے میں جان ضائع ہوتی ہو۔
البتہ یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ جھوٹ خواہ کسی انداز میں بھی ہو تو حرام ہے۔ جس طرح زبان سے جھوٹ کہنا حرام ہے اُسی طرح قلم سے جھوٹ لکھنا بھی حرام ہے۔ بلکہ ایسا اشارہ انگلی یا سر وغیرہ سے کرنا بھی حرام ہے جو جھوٹا ہو۔ مثلاً نماز نہ پڑھنے والے آدمی سے کوئی پوچھے کہ کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے تو اگر وہ سرسے ہاں کا اشار ہ کرئے تو یہ بھی جھوٹ اور گناہ ہے۔ اسی طرح یہ جانتے ہوئے کہ دوسرا آدمی جھوٹ بول رہا ہے، اس کے جھوٹ کو مزید پھیلانا اور اُس کی تائید کرنا حرام ہے۔
اب ہم جھوٹ کے مختلف درجات ایک ایک کر کے بیان کر رہے ہیں۔

(1) اللّٰہ، رسول اور امام کے خلاف جھوٹ

بدترین قسم کا جھوٹ خدا، رسول اور امام کے خلاف جھوٹ ہے۔ ارشاد ہے:

وَلَا تَقُولُوا۟ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ ٱلْكَذِبَ هَـٰذَا حَلَـٰلٌۭ وَهَـٰذَا حَرَامٌۭ لِّتَفْتَرُوا۟ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ١١٦ مَتَـٰعٌۭ قَلِيلٌۭ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ (نحل: 116, 117) 
کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو، سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں. انہیں بہت معمولی فائده ملتا ہے اور ان کے لئے ہی دردناک عذاب ہے.
حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں: 
خدا پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر جھوٹ باندھنا گناہان کبیرہ میں سے ہے۔ ( کافی)
اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے ابو نعمان سے فرمایا تھا:
ہم پر ایک جھوٹ بھی مت باندھو کیوں کہ اس طرح جھوٹ تمھیں اسلام جیسے خالص دین سے خارج کر دے گا۔ (کافی)
یہ جھوٹ اتنا شدید ہے کہ اگر جان بوجھ کر روزے کی حالت میں باندھا جائے تو روزہ باطل ہو جاتا ہے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور امام ع پر جھوٹ باندھنا یہ ہے کہ آدمی اپنی جانب سے کوئی حدیث گھڑے اور اُن سے منسوب کردے۔ اسی طرح کوئی جعلی حدیث جانتے بوجھتے صحیح حدیث قرار دے دے۔ البتہ اگر قرائن میں موجود ہوں کہ حدیث صیحح ہو تو اُسے معصوم سے نسبت دی جاسکتی اور نقل کیا جاسکتا ہے۔

خدا کے خلاف جھوٹ کا ایک مقام

خدا پر جھوٹ باندھنے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آدمی ہے کہ آدمی اپنی جھوٹی بات کو سچ ظاہر کرنے کے لئے کہے کہ  خدا شاہد ہے کہ میں سچ کہہ رہا ہوں یا یہ کہے کہ خدا جانتا ہے کہ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ امام جعفر صادق علیہ السَّلام کا ارشاد ہے کہ:

جو شخص کہے کہ خدا جانتا ہے حالانکہ خدا اُس کے برخلاف جانتا ہو تو خدا کی عظمت اور اس کا جلال دیکھ کر عرش کانپ اٹھتا ہے! (کافی) 
ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں کہ:
جب کوئی بندہ کہتا ہے کہ خدا جانتا ہے, حلانکہ وہ جھوٹ کہہ رہا ہو تو خدا تعالیٰ اس سے کہتا ہے , تمہیں میرے علاوہ کوئی اور نہیں ملا, جس پر تم جھوٹ باندھ سکو؟ (وسائل الشیعہ، کتاب الایمان)
بعض روایتوں میں ہے کہ جب بندہ کسی جھوٹ بات پر خدا کو گواہ بناتا ہے تو خدا وند عالم اس سے فرماتا ہے  تمہیں مجھ سے کمزور اور کوئی نہیں ملا جو اس جھوٹ پر تمہارا گواہ بن سکے؟

جو زبا ن پر، وہی دل میں

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں:

جب تم الله اکبر کہو تو جو کچھ بھی عرش سے فرش تک کے درمیان ہے سب کو خدا کے مقابلے میں چھوٹا سمجھ کر ہی (دل کی گہرائی) سے کہو۔ اس لئے کہ خداوند تبارک و تعالٰے جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی بندہ حقیقت میں الله اکبر دل کی گہرائی سے نہیں کہہ رہا ہے تو پھر اس سے خداوند عالم یہ ارشاد فرماتا ہے: اے جھوٹے! تو مجھے سے چالاکی کر رہا ہے۔ میری عزت اور جلال کی قسم میں تجھے اپنے ذکر کی لذت سے محروم رکھوں گا! (مصباح الشریعہ)

آیات واحادیث کو اپنے مطلب میں ڈھال لینا

خدا، رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور معصومین (علیہم السلام)کے خلاف جھوٹ باندھنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کسی بات کی جھوٹی نسبت ان حضرات میں کسی کودے۔ مثلاً یہ جانتے بوجھتے بھی پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جو بات نہ کہی ہو، کہے کہ یہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا ہے، یا یہ جانتے ہوئے بھی کہ عربی کا فلاں جملہ آیت نہیں ہے، یہ کہہ دے کہ یہ آیت قرآنی ہے۔ اسی طرح آیات و احادیث کے حیقیقی معنوں یا ظاہری معنوں کے برخلاف کوئی معنی اپنے مطلب کے مطابق کرنا بھی حرام ہے۔ یا غلط ترجمہ کرے۔

اسی لئے منبر پر تقریر کرنایا کہیں اور آیا ت وروایات کا ترجمہ کرنا ان کی تشریح کرنا ہر کسی کا کام نہیں ہے یہ بہت خطرناک موقع ہوتا ہے اور کافی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر مقرر عربی قواعد مکمل طور سے پڑھا ہوا نہ ہو اور اُسے آیات وروایات کی ظاہری مطالب سمجھنا آتا نہ ہو تو وہ خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر جھوٹ باندھنے سے بچ نہیں سکتا۔ اسی لئے مقرّروں کو چاہئے کہ وہ کافی احتیاط کریں اور آیات کا وہی معنی بتائیں جو واضح اور ظاہر ہوں۔  خاص طور پر متشابہ آیتوں کے ترجمہ وتشریح سے پرہیز کریں۔

روایت کے مضمون کو بیان کرنا

البتہ حدیث یا آیت کا مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کرنا جائز ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ حدیث نقل کرنے والا شخص نہ صرف یہ کہ عربی سے اچّھی طرح واقف ہو بلکہ اُسے مراد سمجھنے کا فن بھی آتا ہو۔  خلاصہ یہ کہ حدیث کے ظاہری معنی اپنے الفاظ میں بیان کرنا جائز ہے۔

البتہ اگر معصوم کی شان کے خلاف محسوس نہ ہو تو نظم کو نثراور نثر کو نظم میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ماضی کے واقعات کو زبان حال میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً یہ کہنا ہو کہ ایک شخص امام کی خدمت میں حاضر ہواتو امام نے اس سے فرمایا، تو زبان حال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک شخص امام کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور امام اُس سے فرماتے ہیں البتہ سامعین کو معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ زبان حال ہے۔ اسی طرح اگرحدیث میں ہوکہ امام نے منع فرمایا تو اپنے الفاظ میں ایسا کہنا جائز ہے کہ امام نے فرمایا ایسا مت کرو۔

روایات کوسند کے ساتھ نقل کریں

حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام فرماتے ہیں:

یعنی اور کسی معتبر آدمی کے سوا کسی اور سے حدیث نقل مت کرو رنہ تم بہت بڑا جھوٹ کہہ بیٹھو گے۔  اور جھوٹ خدا اورمخلوق خدا کے سامنے ذلّت کا باعث ہی ہوتا ہے۔ (کشف المحجہّ)
حضرت امیرالمومنین علی علیہ السَّلام نے حارث ہمدانی کو جو خط لکھا تھا اس میں یہ نصیحت بھی فرمائی تھی: 
ہر سُنی سنائی بات لوگوں سے نہ کہہ دیا کرو جھوٹ بولنے کے سلسلے میں یہی کافی ہے۔ (نہج البلاغہ) 
اسی طرح حدیث کو من وعن نقل کرنا چاہئے۔  نہ ایک لفظ اپنی طرف سے بڑھانا چاہیئے اور نہ ایک لفظ کم کرنا چاہیئے اسی طرح کوئی لفظ بدلنا بھی نہیں چاہیئے، ورنہ ان تمام صورتوں میں معصومین پر بہتان ہوجاتا ہے۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
جو شخص مجھ سے ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہ کہی ہو تو وہ جہنم میں بیٹھے گا! (وسائل الشیعہ) 
آقائے نوری کی کتاب دارالسلام میں لکھا ہے کہ ایک شخص عالم باعمل، کتاب مقامع کے مصنّف ا ٓقائے محمدعلی کے پاس کرمان شاہ میں پہنچا۔  اُس نے کہا:  میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ اپنے دانتوں سے حضرت امام حُسین علیہ السَّلام کا گوشت نوچ رہا ہوں۔ اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ آقائے محمد علی کچھ دیر سَر جُھکائے فکرمند بیٹھے رہے اور پھر فرمایا:  شاید آپ مجلس پڑھتے ہیں اور ذکر مصائب کرتے ہیں۔ اُس شخص نے کہا  جی ہاں اُنھوں نے فرمایا یا تو یہ سلسلہ ترک کردیجئے یا معتبر کتابوں سے نقل کرتے ہوئے پڑہیئے۔

(2) مذاق میں جھوٹ

حضرت امام زین العابدین علیہ السَّلام فرماتے ہیں:

جھوٹ سے پرہیز کرو، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، خواہ وہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق میں۔(کافی)
حضرت امیرالمومنین علیہ السَّلام فرماتے ہیں:
کوئی بندہ اُس وقت تک ایمان کا ذائقہ چکھ نہیں سکتا جب تک وہ جھوٹ سے پرہیز نہ کرے، خواہ وہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق میں ہو۔ (کافی)
امیرالمومنین علیہ السَّلام ہی سے مروی ہے کہ:
جھوٹ میں بہتری نہیں ہے خواہ وہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق میں۔ اپنے چھوٹے بچّے سے بھی ایساوعدہ نہیں کرنا چاہیے جسے پورا کرنے کا ارادہ نہ ہو۔ بے شک جھوٹ آدمی کو بے باکی سے بڑے بڑے گناہ کرنے پر اُکسا دیتا ہے اور وہ بڑے بڑے گناہ آدمی کو جہنّم میں پہنچا دیتے ہیں۔(وسائل الشیعہ)
رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت ابوذر کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
اے ابو ذر جو شخص اپنی شرم گاہ کو اور اپنی زبان کو حرام سے محفوظ رکھے گا وہ بہشت میں داخل ہوگا۔ جو شخص کسی جگہ لوگوں کو ہنسانے کے لئے ایک جھوٹی بات کہے گا تو وہی جھوٹی بات اس کو جہنّم کی طرف لے جائے گی!
اے ابوذر! وائے اُس پر جو بات کرتا ہو تو جھوٹ بولتا ہو تاکہ لوگوں کہ ہنسا سکے۔ وائے ہو اس پر، وائے ہواس پر! اے ابوذر! جو خاموش رہا نجات پا گیا۔ پس جھوٹ بولنے کی نسبت خاموشی تمھارا فرض ہے اور تمھارے منہ سے کبھی بھی ایک چھوٹا سا جھوٹ بھی نہیں نکلنا چاہیئے۔
حضرت ابوذرکہتے ہیں, یا رسول الله ! جان بوجھ کر جھوٹ بولنے والے شخص کی توبہ کس طرح ہوگی؟
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جواب دیا, استغفار اور پانچوں وقت باقاعدہ نماز سے یہ گناہ دھل جائے گا۔ (وسائل الشیعه)
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) یہ بھی فرماتے ہیں:
جھوٹے پر خدا کی لعنت ہو اگرچہ اُس نے مذاق میں جھوٹ کہا ہو۔ (کتاب جہاد)
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) یہ بھی فرماتے ہیں:
میں ضمانت دیتا ہوں کہ جنت کے اعلیٰ ترین درجے پر ایک گھر ہر ایسے شخص کو دلواوں گا، جو لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرے اگرچہ وہ حق پر ہو۔  اور جنت کے درمیانی درجے میں ایک گھر ہر ایسے شخص کو دلاوں گا جو جھوٹ سے پرہیزکرے، اگرچہ وہ مذاق میں ہوا ور جنّت کے باغ میں ایک گھر ہر ایسے شخص کو دلواوں گا جو اچّھے اخلاق والا ہو۔ (کتاب خصال)
مذاق میں جھوٹ بولنا عام حالات میں گناہ تو ہے لیکن گناہ کبیرہ نہیں ہے۔  البتہ اگر مذاق میں جھوٹ بولنے سے کسی مومن کا دل ٹوٹ جاتا ہو، اس کو اذّیت پہنچتی ہو، جسمانی زحمت کا سامناکرنا پڑتا ہو یا اس کی بے عزتی ہوتی ہو توان صورتوں میں مذاق میں بھی جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ بن جاتا ہے۔

(3) تکلف میں جھوٹ

ایسا بہت دیکھا گیا ہے کہ جب میزبان کھانے کے لئے پوچھتا ہے تو مہمان تکلّف میں بھوکا ہونے کے باوجود کہتا ہے کہ  مجھے بھوک نہیں ہے یہ صاف جھوٹ ہے! لوگ نادانی میں اس جھوٹ کی پرواہ نہیں کرتے ہیں اورمعمولی چیز سمجھتے ہیں حالانکہ روایتوں میں اس کی بھی مذّمت موجود ہے اور اس کا حرام ہونا شرعاً ثابت ہے۔

اسماء بنت عُمیَس کہتی ہیں کہ: عائشہ کی شادی کی پہلی رات رسول خدا نے دودھ کا ایک برتن مجھے دے کر فرمایاکہ  یہ عورتوں کو پینے کے لئے دے دو۔  عورتوں نے کہا, ہمیں بھوک نہیں ہے۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سُن کرفرمایا  بھوک اور جھوٹ، دونوں کو جمع مت کرو!
اسماء نے پوچھا یارسول ا للہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)! اگر ہم کو کسی چیز کی رغبت ہو مگر ہم کہیں کہ رغبت نہیں ہے تو کیا یہ جھوٹ شمار ہوتا ہے؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: ہاں، بیشک ہر قسم کا جھوٹ لکھا جاتا ہے،یہاں تک کہ چھوٹا چھوٹا جھوٹ بھی لکھا جاتا ہے۔(سفینہ البحار) 
اگر آدمی اخلاقاً کسی دوسرے شخص کو کہے!  آئیے تشریف لائیے ہمارے گھر۔  لیکن دل میں چاہتا ہوکہ وہ گھر میں نہ آئے، تو یہ جھوٹ نہیں ہے۔ اس لئے کہ آئیے ایک حکمیّہ اور انشائیّہ جملہ ہے، یعنی نہ تو اس کو سچ کہہ سکتے ہیں اور نہ جھوٹ۔ البتہ ایسی دکھاوے کی خوش اخلاقی سے پرہیز احتیاط کا تقاضا ہے۔ در حقیقت دل میں کچھ ہو اور زبان پر کچھ ہو، ایک قسم کی منافقت ہے۔
ایک دن حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام اپنے فرزنداسماعیل کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک چاہنے والا شخص آیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا۔ جب امام علیہ السَّلام اُٹھ کر اپنے مکان کے زنانے حصّے میں جانے لگے تو وہ شخص بھی اٹھ کر زنا نے حصّے کے دروازے تک آیا۔ امام علیہ السَّلام وہیں سے اُس رخصت ہوگئے۔ اندر آکر جناب اسماعیل نے امام سے پوچھا: آپ نے اخلاقی طور پر اُسے اندر آنے کے لئے کیوں نہیں کہا؟ حضرت نے فرمایا: اس کا اندر آنا مناسب نہیں تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس کو اندر بلاوں اور یہ بھی پسند نہیں کرتا تھاکہ خدا مجھے ایسے لوگوں میں شمار کرے جو کہتے کچھ ہوں اور دل میں چاہتے کچھ ہوں! (بحارالانوار، مومن بھائی کی عزّت وناموس والا باب)

(4) جھوٹا خواب

جھوٹ کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ آدمی کہے:  میں نے خواب میں ایسا ایسا دیکھا  یاکوئی خواب کو کسی اور سے منسوب کردے کہ فلاں نے دیکھا جو حقیقت نہ ہو، یہ بھی جھوٹ ہے۔ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:

سب سے بڑے جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں۔
  1. کسی شخص کو اس کے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کے نام سے پکارنا۔
  2. یا جھوٹ موٹ کاخواب بیان کرنا جو آنکھوں سے نہیں دیکھا ہو۔
  3. یا ایسی بات بتائے جو میری زبان سے جاری نہ ہوئی ہو۔
جھوٹ کی ایک قسم بنے بنائے قصّے گھڑنا ہے۔  جن کی کوئی بنیاد نہ ہو اور جن کو حقیقت سمجھا جائے۔  رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
بدترین روایتوں میں سے ایک جھوٹی بات کا نقل کرنا ہے۔ (بحارالانوار)

(5) جھوٹ سننا بھی حرام ہے

یہ بات جان لینی چاہیئے کہ جس طرح جھوٹ بولنا حرام ہے اسی طرح یہ جانتے ہوئے کہ یہ جھوٹ ہے اسے سننا بھی حرام ہے۔  جس طرح جھوٹ بات لکھنا یا پڑھنا حرام ہے اسی طرح جھوٹ بات نقل کرنا بھی حرام ہے۔ قرآن مجید میں یہودیوں اور منافقوں کی اسی بات پر مذّت ہوئی کہ وہ جھوٹی باتیں ادھر سے اُدھر پھیلاتے ہیں۔  مثلاً ارشاد ہے:

سَمَّـٰعُونَ لِلْكَذِبِ (المائدہ ۔ 42)
جھوٹی باتیں سننے والے۔
شیخ صدوق نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے روایت کی ہے کہ امام سے پوچھا گیا: کیا جھوٹے لوگوں کا جھوٹ غور سے سننا جائز ہے؟ امام علیہ السَّلام نے فرمایا  نہیں، جو شخص کسی بات کرنے والے کی بات شوق سے سنتا ہے تو اس کی مرضی کے مطابق عبادت کر بیٹھا ہے اگر بولنے والا خداکو مانتا ہے تو سننے والا خدا کی عبادت کرے گا اور اگر شیطان کی بات مانتا ہے توسنُنے والابھی شیطان کی عبادت کرے گا!  (کتاب اعتقادات)  
ان جیسی آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ سننا بھی حرام ہے ظاہر ہے کہ جس جگہ آدمی جھوٹ بولتا ہے وہ معصیت اور خداکی نافرمانی کی جگہ ہوتی ہے، اور سننے والا شخص اس معصیت میں شریک ہوجاتا ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ نہی عن المنکر کی رو سے بھی واجب ہے کہ جھوٹ کو جھٹلایا جائے تاکہ وہ جھوٹ سے پرہیز کرے۔

توریہ کیا ہے؟

توریہ کے معنی ہیں ایک ایسی بات کہنا جس کے دو معنی ہوں۔  ایک معنی درست ہو اور دوسرا معنٰی حقیقت کے خلاف ہو۔  اور کہتے ہیں کہ توریہ کرنے والا شخص درست معنی کا ارادہ کرتاہے جب کہ سنُنے والا حقیقت کے خلاف والا معنی سمجھ بیٹھتا ہے۔ مثلاً ایک ظالم شخص آپ کے گھر آتا ہے اور آپ کو گھرسے باہر بلواتا ہے آپ اُس سے بچنا چاہتے ہیں اور گھر میں چھپے بیٹھے رہناچاہتے ہیں تو ایسے میں آپ کے گھر کا فرد روازے پر جا کرکہہ سکتا ہے: وہ یہاں نہیں ہیں۔  اس سے مراد یہ ہو کہ آپ اُس دروازے کے پاس نہیں ہیں۔  یہ جائز ہے۔ اگرچہ ظالم سمجھے کہ آپ گھر میں نہیں ہیں۔

یا ظالم شخص آپ سے کسی مظلوم کا پتّہ پوچھتا ہے تاکہ اُس پر ظلم کرے تو آپ اس کا پتہ معلوم ہونے کے باوجود کہہ سکتے ہیں کہ,  مجھے اس کا پتہ نہیں معلوم۔  یہاں لفظ  اُس سے  مراد کوئی اور شخص لے سکتے ہیں جس کا پتہ آپ کو واقعی معلوم نہ ہو۔
اسی طرح اگر خدا نخواستہ آپ سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہو اور کوئی آپ سے پوچھ بیٹھے: کیا کبھی ایسا گناہ آپ سے سرزد ہوا ہے؟  آپ یہ کہہ کر اپنی عزّت محفوظ رکھ سکتے ہیں: اَسَتْغَفرُاللّٰہ! میں خدا کی پناہ مانگوں گا اگر ایسا گناہ کر بیٹھوں۔ اسی طرح آپ کوئی حکّمیہ، انشائیّہ یا سوالیّہ جملہ کہہ سکتے ہیں۔  مثلاً,  کیاآپ مجھ  سے ایسی توقع رکھتے ہیں کہ ایسا گناہ کروں گا؟  یا یہ دُعا کہہ سکتے ہیں کہ  خدا مجھے ایسے گناہ سے محفوظ رکھے۔
اسی طرح آپ نے اگر کسی شخص کو اُس عیب بتایا اور وہ ناراض ہونے لگا تو یہ جھوٹ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ میں یہ عیب نہیں۔  آپ اُسے منا نے کے لئے کہہ سکتے ہیں,  آپ کی شخصیت ایسی ہے کہ آپ کے بارے میں ایسی بات نہیں کہنی چاہیئے۔
توریہ اس وقت جائز ہے جب کوئی مصلحت در پیش ہو یا کسی نقصان سے بچنا مقصود ہو۔

وہ مقامات جہاں جھوٹ بولنا جائز ہے

جب بھی جان،مال یاعزّت کو خطرہ لاحق ہو اور جھوٹ بولنے سے وہ خطرہ ٹل جاتا ہو تو ایسی صورت میں جھوٹ بولنا جائزہے۔ خواہ اپنی جان، مال یاعزّت کوخطرہ لاحق ہو یاکسی اور کی۔ یہاں تک کہ نقصان سے بچنے کے لئے اگر قسم بھی کھانی پڑے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ بعض موقعوں پر جب بڑا نقصان سامنے ہو، مثلاًجان کو خطرہ لاحق ہو تو جھوٹ بول کر جھوٹی قسم کھا کر جان بچانا واجب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ کے پاس کسی کی امانت موجود ہے اور کوئی ظالم اس امانت کو ہتھیا لینا چاہتا ہو تو آپ پرواجب ہے کہ آپ اُس امانت کی حفاظت کریں، خواہ آپ کوجھوٹ یا جھوٹی قسم کا سہارالینا پڑے۔

مسلمانوں کی نجات کے لئے جھوٹی قسم

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:

خدا کی جھوٹی قسم کھا بیٹھو لیکن اپنے مسلمان بھائی کو نا حق قتل ہونے سے بچا لو!۔ (وسائل الشیعہ، کتاب الایمان جلد ۳ باب ۱۲)
اسماعیل ابن سعد کی صحیح حدیث میں ہے کہ اُنھوں نے کہا: میں نے امام علی رضا علیہ السَّلام سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جو بادشاہ سے اپنا مال محفوظ رکھنے کے لئے جھوٹی قسم کھا بیٹھا ہو۔ امام علی رضا علیہ السَّلام نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے امام علی رضا علیہ السَّلام سے پھر پوچھا: اگر آدمی اپنے مسلمان بھائی کا مال ضائع ہونے سے بچانے کے لئے جھوٹی قسم کھائے، جس طرح کہ خود اپنا مال بچانے کے لئے کھائی ہو تو کیا جائز ہے؟ امام علی رضا علیہ السَّلام نے جواب دیا, ہاں جائز ہے۔ (وسائل الشیعہ، کتاب الایمان)
اورحضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں:
اگر کسی مسلمان شخص کو نجات دلانے کے لئے یا اُس کے مال کو کسی ظالم یا چور کے ہاتھ میں جانے سے بچانے کے لئے کوئی شخص جھوٹی قسم کھانے پر مجبور ہو تو نہ صرف یہ کہ جھوٹی قسم کا کفارہ ادا نہیں دینا پڑے گا بلکہ اُس کو بڑا اجروثواب ملے گا۔ (کتاب فقیہ)

مالی نقصان اور جھوٹ

یہاں پر دو باتیں ذہن نشین کرلینی چاہئیں۔ ایک یہ کہ اگرچہ کہ مطلق طور پر ہر قسم کے نقصان سے بچنے کے لئے جھوٹ بولنا جائز ہے لیکن اگر مالی نقصان برداشت کرسکتا ہو تو مستحب ہے کہ آدمی نقصان برداشت کرے، لیکن جھوٹ نہ بولے، امیر المومنین علیہ السَّلام کا ارشاد ہے:

ایمان کی علامت یہ ہے کہ آدمی نقصان کے موقعے پر بھی سچ بولے اور فائدے کی خاطر بھی جھوٹ نہ بولے۔ (نہج البلاغہ)

جہاں تک ہوسکے توریہ کریں

ایک اور بات ذہن نشین کرنے کے قابل یہ ہے کہ جن مقامات پر مجتہدین توریہ کو لازم سمجھتے ہوں اور توریہ سے کام چل جاتا ہو تو جھوٹ بولنے کی بجائے احتیاط یہ ہے کہ آدمی توریہ کرے۔

لوگوں کے درمیان مصالحت

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مروی ہے کہ واجبات بجا لانے کے بعد سب سے اچھا عمل لوگوں کے درمیان صُلح و صفائی کرانے کے سوا کچھ نہیں ہے! یہ ایسا خیر ہے جو خیر کو دنیا میں پھیلاتا ہے۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السَّلام نے بتایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے وصیت کے موقع پر فرمایا:
اے علی! بے شک خدائے تعالٰے مُصالحت کی خاطر جھوٹ کو بھی پسند کر لیتا ہے اور دنگا فساد کی راہ میں سچ بولنے کو بھی سخت نا پسند کرتا ہے!  (وسائل الشیعہ، کتاب حج)
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا یہ بھی ارشاد ہے کہ لوگوں کے درمیان مصالحت کرنا، مصالحت کی فکر کرنا اور جھگڑے دور کرنا نماز روزے سے زیادہ افضل ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے فرمایا:
کلام کی تین قسمیں ہیں,
  1. سچ،
  2. جھوٹ
  3. اور لوگوں کے درمیان صُلح کرانا۔
کسی نے پوچھا: میں آپ پر قربان جاؤں، یہ لوگوں کے درمیان صُلح کیا چیز ہے؟ امام علیہ السَّلام نے فرمایا  تم ایک شخص سے کوئی بات سُنو اور اُس میں ترمیم کر کے کسی اور کو سناؤ کہ وہ تمہارے بارے میں بہت اچھی اچھی باتیں کر رہا تھا۔ (وسائل الشیعہ، کتاب حج)
اسی طرح مثلاً میاں بیوی الگ ہوچکے ہوں اور طلاق کی نوبت آسکتی ہو تو آدمی جھوٹ بول کر بھی اُن کے درمیان صُلح و صفائی کرادے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ مثلاً شوہر سے جا کر کہے ! تمہاری بیوی جُدائی سے بہت پریشان ہے اور تمہاری محبت کا اُسے شدت سے احساس ہورہا ہے کہ وہ بیمار پڑسکتی ہے۔ اسی طرح بیوی کے پاس جاکر بھی ایسی ہی جھوٹ موٹ باتیں کی جا سکتی ہیں تاکہ صُلح و صفائی ہوجائے۔
ابو حنیفہ سائق الحاج کہتے ہیں کہ میرے درمیان اور میرے داماد کے درمیان ایک میراث کے سلسلے میں جھگڑا تھا۔ ابھی ہم جھگڑ ہی رہے تھے کہ حضرت امام جعفر صادق کے وکیل مفضّل کا اُدھر سے گذر ہوا۔ انھوں نے کچھ دیر رُک کر ہم دونوں کو اپنے گھر بُلالیا اور اپنے پاس سے چار سو درہم دے کر ہمارے درمیان جھگڑا ختم کرا دیا۔ پھر انھوں نے کہا!  یہ مال جو میں نے تمہیں دیا یہ میرا نہیں تھا بلکہ میرے مولا امام جعفر صادق علیہ السَّلام کا تھا۔انھوں نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ جب بھی میرے اصحاب میں جھگڑا ہوجائے تو میرے مال کے ذریعے اُن کا جھگڑا دور کردیا کرو!
اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ نماز روزے سے آدمی کے ذات بہتر بنتی ہے۔ جب کہ مُصالحت کروانے سے پورا معاشرہ بہتر بنتا ہے اور پورے معاشرے میں اس طرح نماز روزہ عام ہوتا ہے۔ جب مومنین کے دل میں خدا کے خاطر ایک دوسرے سے ملے ہوتے ہیں تو اتنی قوت پیدا ہوتی ہے کہ نہ صرف ظاہری دشمنوں سے مقابلہ ہوسکتا ہے بلکہ باطنی دشمنوں یعنی نفس اور شیطان سے بھی مقابلہ آسان ہوجاتا ہے۔

اہلیہ سے وعدہ اور جنگ میں جھوٹ

البتہ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ اگر وہ اپنی بیوی سے جھوٹا وعدہ نہیں کرے گا تو گھر میں لڑائی جھگڑا شروع ہوجائے گا یا اس کی بیوی سخت ناراض ہوگی یا خدانخواستہ جھوٹ نہ بولنے کے وجہ سے طلاق ہوجائے گی۔ تو پھر ایسی مجبوری کی صورت میں جھوٹا وعدہ کر لینا جائز ہے۔

بعض روایتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کافروں سے جنگ میں جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان پر غلبہ حاصل ہو تو جھوٹ بولنا جائز ہے۔

مثال اور مبالغہ، جھوٹ نہیں

کسی عقلی مطلب کو زیادہ ذہن نشین کرنے کے لئے اُسے مثال سے واضح کیا جاتاہے۔ کبھی جانوروں کی آپس میں گفتگو بتائی جاتی ہے۔ (مثلاً علامّہ اقبال کی ایک نظم میں گلہری پہاڑ کو غرور چھوڑدینے کی نصیحت کرتی ہے۔ ) اس سے کسی کو دھوکا نہیں ہوتا، بلکہ فائدہ یہی ہوتاہے، اس لئے ایسی باتیں جائز ہیں۔  اہل بیت علیہم السّلام سے نقل ہونے والی روایتوں میں بھی ایسی باتیں مل جاتی ہیں اور ایسی روایتیں بھی موجود ہیں جن سے اس طرح مثال دے کرقصّے کہانی کی شکل میں نصیحت کرنے یا حقائق بتانے کی اجازت ملتی ہے۔

حضرت امام حسن ع معاویہ کے دربار میں ایک دفعہ موجود تھے کہ ایک شخص نے امام ع کے خلاف کچھ نازیبا جملے کہے۔ امام علیہ السَّلام نے جواب میں فرمایا: اے عمر ابن عثمان! تیری فطرت میں کتنی حماقت ہے کہ تو ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ تیری مثال اُس مچھر کی سی ہے جو خود کو بڑا سمجھ کر کجھورکے درخت پر بیٹھا تھا اور اُڑتے وقت اس نے درخت سے کہا تھا: مضبوطی سے جمے رہو، اب میں اُڑکر اُترنے والا ہوں! درخت نے جواب دیا تھا:  میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ تم مجھ پرکب سے بیٹھے ہوئے ہو۔  اب تمہارا یہاں سے اٹھنا مجھے کس طرح گراں ہوسکتاہے؟
عام بول چال میں جو مبالغہ ہوتا ہے وہ جھوٹ نہیں ہے۔  مثلاً چند مرتبہ ایک بات بتانے کے بعد آدمی کہہ دیتاہے کہ میں نے تم کو سو مرتبہ یہ بتایاہے۔ ظاہر ہے اُس نے سو مرتبہ نہیں بتایا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ بتانے والے کی مراد سو عدد نہیں ہے بلکہ تاکید کرنا مقصد ہے اور یہ بتانا مقصد ہے کہ بہت زیادہ مرتبہ بتایا ہے۔
اسی طرح مجاز، اور استعارہ کنایہ ہر قسم کا جائز ہے۔ خصوصاً شاعری میں کوئی حرج نہیں ہے۔

متعلقہ تحاریر