بہتان یعنی دوسرے کو ایسی بات یا عیب سے منسوب کیا جائے جو اس میں نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ غیبت کرنا یعنی دوسرے کے ایسے عیب کا ذکر کرنا جو اس میں موجود ہے گناہ کبیرہ ہے, تو بہتان یعنی ایسے عیب کا ذکر کرنا جو اس شخص میں نہیں ہے ضرور اس سے بھی پہلے اور عقل کے قطعی حکم سے گناہ کبیرہ ہو گا بلکہ بہتان میں دو گناہ کبیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یعنی غیبت اور جھوٹ۔ چونکہ بہتان کی مصیبت عام ہے، اس کی خرابیاں بہت ہیں، قرآن مجید اور روایتوں میں اس سے نہایت سختی سے منع کیا گیا ہے اور اس کے لیے سخت سزاؤں کا وعدہ کیا گیا ہے۔
سورة نور میں آیت 4 سے آیت 23 تک افک یعنی بہتان کے موضوع کا تذکرہ ہے۔ اگرچہ ان آیتوں کی شان نزول خصوصیت کے ساتھ زنا کا بہتان ہے لیکن ان کے بیچ میں مطلق بہتان پر سخت تنبیہ کی گئی ہے۔ افک کی ان آیات کا شان نزول یہ ہے کہ یہ آیتیں کچھ منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جنہوں نے پیغمبر اکرم کی زوجہ حضرت عائشہ پر تہمت لگائی تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول خدا نے بنی المصطلق کے غزوے میں حضرت عائشہ کو خود روانہ کیا تھا اور انہیں ایک ہودج میں پردے میں سوار کر دیا تھا۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب ہم واپسی میں مدینے کے قریب پہنچے تو رات کے وقت ایک منزل پر اُتر پڑے۔ آدھی رات کو میں اور ایک عورت دونوں مل کر قضائے حاجت کے لیے لشکر کے پڑاؤ سے دُور چلے گئے۔ جب ہم پلٹے تو مجھے معلوم ہوا کہ میں جو یمنی موتیوں کا گلوبند پہنے ہوئے تھی وہ غائب ہے۔ میں نے سوچا کہ جہاں میں قضائے حاجت کے لیے گئی تھی وہیں کہیں گر پڑ ا ہے اس لیے اندھیری رات میں اکیلی اٹھ کر وہاں پہنچی۔ بہت کچھ تلاش کیا نہیں ملا۔ پیغمبر خدا کو میرے جانے کی کوئی خبر نہیں تھی۔ آپ نے کوچ کا حکم دے دیا۔ لشکر روانہ ہو گیا۔ جو لوگ میرے ہودج پر تعینات تھے وہ آئے اور ہودج اونٹ پر رکھ کر اس خیال سے کہ میں ہودج میں بیٹھی ہوں روانہ ہو گئے۔
جب پڑاؤ میں واپس آئی تو میں نے کسی کو نہ پایا۔ جہاں میرا اونٹ تھا وہاں میں نے ٹٹولا تو گلوبند مل گیا اور میں وہیں بیٹھ گئی۔ مجھے نیند آنے لگی تو میں لیٹ گئی۔ میرا خیال یہ تھا کہ اطلاع ملنے پر میرا کوئی عزیز مجھے لینے ضرور آئے گا۔ اچانک صفوان بن المعطل جو پچھلی منزل میں سوتا رہ گیا تھا اور لشکر سے بچھڑ گیا تھا ایک اونٹ پر سوار آ پہنچا۔ اس نے مجھے دیکھا تو پہچان لیا اور کچھ کہے بغیر اونٹ بٹھا دیا میں اس پر سوار ہو گئی۔ اس نے اونٹ کی نکیل ہاتھ میں پکڑی اور چل دیا۔ ہم ٹھیک دوپہر کے وقت اس پڑاؤ پر پہنچے جہاں پیغمبر اکرم ٹھہرے ہوئے تھے اور پیغمبر کو میرے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔
جیسے ہی میرا اونٹ دُور سے نظر آیا عبداللہ بن ابی بن سلول اور کچھ اور منافقوں نے طنزاً کہا پیغمبر کی بیوی ایک غیر مرد کے ساتھ بیابان سے آ رہی ہے۔ اس کے بعد اس منافق شخص نے کہا, خدا کی قسم ان دونوں کے درمیان نامناسب حرکت واقع ہوئی ہے۔ اور یہ بہتان دوسرے منافقوں نے بھی دہرایا اور پھر مسلمانوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں, جن میں سے بعض اس کی تردید اور نفی کرتے تھے اور کچھ خاموش ہو گئے۔ جب یہ قصہ پیغبر اکرم ص کے کان تک پہنچا تو آپ سخت پریشان اور رنجیدہ ہوئے, اور عائشہ بھی بیمار ہو کر بستر سے لگ گئیں۔
جب اس واقعے کو ایک مہینہ اور سات دن گذر گئے تو رسول خدا ص حضرت عائشہ کے حجرے میں پہنچے۔ انصار کی ایک عورت بھی حجرے میں تھی اور ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہ کے والدین بھی تھے۔ پھر رسول خدا ص نے حضرت عائشہ سے فرمایا, اگر تم اس الزام سے بری ہو تو خدا تمہیں اس کا بدلہ دے (یعنی اس بہتان کے جواب میں جو تم پر باندھا گیا ہے) اور اگر تم نے خطا کی ہے تو توبہ کرو۔ خدا تمہاری توبہ قبول کرے گا۔
حضرت عائشہ نے کہا, خدا جانتا ہے کہ میں اس الزام سے بری ہوں اور مجھ سے کوئی ایسی بات سرزد نہیں ہوئی جس سے میں خدا سے شرماؤں, لیکن دشمنوں نے ایک بات بیچ میں ایسی کھڑی کر دی ہے کہ میں کچھ بھی کہوں وہ یقین نہیں کریں گے۔ اس لیے اب میں اس کے سوا کچھ نہیں کہوں گی جو یعقوب نے کہا تھا, یعنی فصبر جمیل۔ یہ کہا اور دیوار کی طرف منہ پھیر کر رونا شروع کر دیا۔
رسول خدا ص وہیں بیٹھے ہوئے تھے کہ وحی آئی اور مذکورہ آیتیں نازل ہوئیں۔ جب آنحضرت وحی سے فارغ ہوئے تو آپ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو۔ خدا تمہیں بری کرتے ہوئے فرماتا ہے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ جَآءُو بِٱلْإِفْكِ عُصْبَةٌۭ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّۭا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌۭ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ ٱمْرِئٍۢ مِّنْهُم مَّا ٱكْتَسَبَ مِنَ ٱلْإِثْمِ ۚ وَٱلَّذِى تَوَلَّىٰ كِبْرَهُۥ مِنْهُمْ لَهُۥ عَذَابٌ عَظِيمٌۭ ١١ لَّوْلَآ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ ٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًۭا وَقَالُوا۟ هَـٰذَآ إِفْكٌۭ مُّبِينٌۭ ١٢ لَّوْلَا جَآءُو عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ ۚ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا۟ بِٱلشُّهَدَآءِ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ عِندَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلْكَـٰذِبُونَ ١٣ وَلَوْلَا فَضْلُ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُۥ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْـَٔاخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِى مَآ أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ١٤ إِذْ تَلَقَّوْنَهُۥ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُم مَّا لَيْسَ لَكُم بِهِۦ عِلْمٌۭ وَتَحْسَبُونَهُۥ هَيِّنًۭا وَهُوَ عِندَ ٱللَّهِ عَظِيمٌۭ ١٥ وَلَوْلَآ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَآ أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَـٰذَا سُبْحَـٰنَكَ هَـٰذَا بُهْتَـٰنٌ عَظِيمٌۭ ١٦ يَعِظُكُمُ ٱللَّهُ أَن تَعُودُوا۟ لِمِثْلِهِۦٓ أَبَدًا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (نور: 11-17)
جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا۔ بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اس کے لئے اتنا ہی وبال ہے۔ اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا۔ جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا۔ اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے. وه اس پر چار گواه کیوں نہ ﻻئے؟ اور جب گواه نہیں ﻻئے تو یہ بہتان باز لوگ یقیناً اللہ کے نزدیک محض جھوٹے ہیں. اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتا تو یقیناً تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے اس بارے میں تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا. جب تم اپنی زبانوں سے اس کا ایک دوسرے سے ذکر کرتے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات کہتے تھے جس کا تم کو کچھ علم نہ تھا اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے تھے اور خدا کے نزدیک وہ بڑی بھاری بات تھی۔ تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منھ سے نکالنی بھی ﻻئق نہیں۔ یا اللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے. خدا تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر مومن ہو تو پھر کبھی ایسا کام نہ کرنا
ان آیتوں کا ماحصل یہ ہے کہ تم نے تین گناہ کیے ایک یہ کہ تم نے ایسا جھوٹ بولا اور ایک دوسرے سے کہہ کہہ کر اسے فاش کیا۔ دوسرے یہ کہ تم نے وہ بات کہی جس کا تمہیں علم نہیں تھا یعنی تم نے وہ کہا جس کی تحقیق نہیں کی تھی اور تمہیں جس کی اصلیت کا علم بھی نہیں تھا۔ تیسرے یہ کہ تم اسے آسان اور حقیر اور چھوٹا سمجھتے تھے۔ پہلی آیت میں کہا گیا ہے کہ, یہ تمہارے حق میں اچھا ہے, یہ اس لئے کہا گیا ہے, کیونکہ ان پر تمہارا بدلے کا حق پیدا ہو گیا ہے اور جو تم اس پر صبر کرو گے تو تمہیں ثواب ملے گا۔
پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں:
جو کوئی کسی مومن مرد یا عورت پر تہمت لگائے گا یا اسے اس بات سے منسوب کرے گا جو اس میں نہیں ہے تو خدا اسے قیامت کے دن آگ کے مقام پر اس وقت تک رکھے گا جب تک وہ کہے ہوئے کی سزا نہیں پا لے گا۔ (بحار جلد 16)
امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:
جو کوئی مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھے گا اور ایسی بات اس سے منسوب کرے گا جو اس میں نہیں ہے خدا اسے قیامت کے دن طینہ خبال میں اس وقت تک بند رکھے گا جب تک وہ اپنے کہے ہوئے کی ذمہ داری پوری نہیں کر لیتا۔ ابن ابی یعفور نے پوچھا: طینہ خبال کیا چیز ہے؟ آپ ع نے فرمایا: وہ پیپ ہے جو زنا کرنے والوں کی شرمگاہ سے جہنم میں بہے گی۔ (بحار جلد 16)
جو کوئی اپنے مومن بھائی پر تہمت لگائے گا اس کے دل سے ایمان اس طرح رخصت ہو جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ (کافی)
خدا پر بہتان سب سے سخت بہتان ہے جیسا کہ خدا سورة میں فرماتا ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ (صف ۔ 7)
اس سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو خدا پر بہتان لگاتا ہے۔
مثلاً وہ لوگ جو خدا کی عدالت یا حکمت سے انکار کرتے ہیں۔ جس طرح پیغمبروں کی نبوت سے انکار کرنے والے درحقیقت خدا کی حکمت کے منکر ہیں اسی طرح قیامت کے منکر بھی ہیں اور وہ لوگ بھی جنہوں نے خدا کا شریک ٹھہرایا ہے اور اس طرح خدا کے لیے طرح طرح کے بہت سے شرک کے قائل ہو چکے ہیں۔ کیونکہ علم کے بغیر تمام باتیں محض افترا اور الزام ہیں جن کے لیے قرآن مجید کی آیتوں میں سخت تنبیہ کی گئی ہے اور جہنم کا وعدہ کیا گیا ہے بلکہ خدا پر بہتان کو کفر کے لوازم میں داخل کیا گیا ہے۔ پیغمبر اکرم اور آئمہ علیھم السلام پر بہتان بھی خدا پر بہتان کے جیسا ہے۔ مثلاً یہ کہ ان کو جادوگر، پاگل، شاعر، جھوٹا، خودپسند اور خود غرض کہیں۔ارشاد ہوتا ہے:
إِنَّمَا يَفْتَرِى ٱلْكَذِبَ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِـَٔايَـٰتِ ٱللَّهِ ۖ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰذِبُونَ (نحل ۔ 105)
جھوٹ افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے۔ اور وہی جھوٹے ہیں
باقی تمام لوگوں پر لگائے جانے والے اتہام کی دو قسمیں ہیں۔ کبھی بے تحقیق بات کہنا یعنی جو عیب ثابت نہ ہوا ہو اور جو یقینی نہ ہو بلکہ صرف بدگمانی کی بنیاد پر اسے دوسرے سے منسوب کر دیا جائے۔ کبھی افتراء ہے یعنی جس عیب کے بارے میں یہ جانتا ہے کہ وہ اس شخص میں نہیں ہے یا جس کام کے بارے میں یقین رکھتا ہے کہ وہ اس شخص سے ظہور میں نہیں آیا ہے, اس غریب کی دشمنی میں وہ اس سے منسوب کر دیتا ہے اور اس سے بھی بُرا یہ ہے کہ جو عیب خود تہمت لگانے والے میں موجود ہو اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے اسے دوسرے سے منسوب کر دیتا ہے اور اپنی گندگی اس پر چپکا دیتا ہے جو پاکدامن ہے۔ خوب ظاہر ہے کہ یہ خدا کے بندوں پر لگایا جانے والا بدترین قسم کا بہتان ہے جیسا کہ خدا سورة نساء میں فرمایا ہے:
وَمَن يَكْسِبْ خَطِيٓـَٔةً أَوْ إِثْمًۭا ثُمَّ يَرْمِ بِهِۦ بَرِيٓـًۭٔا فَقَدِ ٱحْتَمَلَ بُهْتَـٰنًۭا وَإِثْمًۭا مُّبِينًۭا (نساء - 112)
اور جو شخص کوئی گناه یا خطا کر کے کسی بے گناه کے ذمے تھوپ دے، اس نے بہت بڑا بہتان اٹھایا اور کھلا گناه کیا۔
تفسیر منہج میں لکھا ہے کہ طعمہ بن ابیرق کے تین بیٹے تھے جن کے نام بشر، مبشر اور بشیر تھے۔ ان تینوں میں سے بشر منافق شخص تھا۔ وہ ایک رات کو قتادہ بن نعمان کے گھر میں نقب لگا کر داخل ہو گیا اور آٹے کا ایک چرمی تھیلا جس میں ایک زرہ چھپا کر رکھ دی گئی تھی چرا لایا۔ اتفاق کی بات ہے کہ تھیلے میں ایک سوراخ تھا جس سے آٹا گرتا جاتا تھا یہاں تک کہ بشر اپنے گھر پہنچا۔ پھر وہ تھیلا زید بن السیمن کے گھر لے گیا جو یہودی تھا اور اسے اس کے پاس بطور امانت رکھ دیا۔ صبح کو قتادہ آٹے کے نشان سے بشر کے گھر پہنچا اور اس سے اپنی زرہ مانگی تو اس نے انکار کر دیا اور جھوٹی قسم کھائی کہ اس نے ایسا نہیں کیا اور اسے اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔ قتادہ اس طرف کھوج لگاتا ہوا چلا جدھر سے بشر زید یہودی کے گھر گیا تھا اور اس نے زید کو بے ایمانی میں پکڑ لیا۔ زید نے کہا کہ کل رات کو بشر تھیلے میں چھپی ہوئی زرہ میرے سپرد کر گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس بات کی گواہی بھی دی۔ قتادہ نے یہ صورت حال رسول خدا کی خدمت میں جا کر عرض کی۔ بشر کا قبیلہ بنی ظفر بدنامی کے ڈر سے یہ نہیں چاہتا تھا کہ بشر پر تہمت لگے اور یہودی صاف چھوٹ جائے۔ لہٰذا بشر کے قبیلے والوں نے جھگرا شروع کر دیا اور بشر کی بے گناہی کی گواہی دے دی۔ اس پر خدا نے اس بارے میں سورة نساء کی آیت 105 سے 113 تک یعنی 9 آیتیں نازل فرمائیں۔
ان آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ان میں بہتان اور افتراء کو حرام بتایا گیا ہے چاہے وہ کافر کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ان میں بہتان باندھنے والے کو کئی بار غدار اور بے وفا کہا گیا اور پیغمبر ص کو اس کی حمایت سے منع کیا گیا ہے چاہے وہ ظاہر میں مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ تفسیر المیزان میں لکھا ہے کہ بشر کا انجام یہ ہوا کہ خدا نے اس کی توبہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور وہ مکے کے مشرکوں کی طرف چلا گیا۔ وہاں اس نے چوری کی خاطر ایک گھر میں نقب لگائی تو خدا نے وہ گھر ہی اس کے سر پر ڈھا کر اسے مار ڈالا۔
اس قسم کے بہتان کا سبب بے ایمانی، سنگدلی، کمینگی، بے خوفی، فحاشی اور بے غیرتی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا اور اس کا علاج ایمان حاصل کرنے، اسے پختہ کرنے اور دنیا کی سختیوں کے نتائج اور آخرت کی سزاؤں پر غور کرنے سے ہو سکتا ہے۔
دوسرے قسم کے بہتان کا سبب جس میں علم وتحقیق کے بغیر کوئی بات کسی سے منسوب کر دی جاتی ہے غالباً بدگمانی ہے۔ یعنی کسی کی دیکھی یا سنی ہوئی بات کو خراب سمجھے اور اپنی بدگمانی پر چلے, اور اس کام کے متعلق صحیح خیال اور صحیح سبب کی طرف توجہ نہ دے۔ لہٰذا قرآن مجید اور بہت سی روایتوں میں مسلمانوں کو دوسروں سے بدگمانی رکھنے کے خلاف منع کیا گیا اور حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے عمل کے متعلق اچھا خیال قائم کیا کرو۔
جس طرح مومن کی برائی کرنا اور مومن کی برائیاں بیان کرنے میں زبان چلانا حرام ہے اسی طرح اس کی طرف سے بدگمانی بھی حرام ہے۔ حرام بدگمانی کا مطلب یہ ہے کہ اسے کسی پختہ دلیل کے بغیر محض اپنے دل سے بُرا سمجھنا۔ ارشاد ہوتا ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱجْتَنِبُوا۟ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ ٱلظَّنِّ إِثْمٌۭ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا۟ (حجرات - 12)
اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں۔ اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو
البتہ دل میں صرف خیال کا پیدا ہونا چونکہ اختیاری بات نہیں ہے اس لیے وہ حرام نہیں ہے اور قابل معافی ہے۔ (حدیث نبوی کے مطابق جسے حدیث رفع کہتے ہیں) مزید ارشاد ہوتا ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌ ۚ إِنَّ ٱلسَّمْعَ وَٱلْبَصَرَ وَٱلْفُؤَادَ كُلُّ أُو۟لَـٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔولًۭا (بنی اسرائیل - 36)
جس کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔ بلاشبہ کان، آنکھ اور دل سب سے پوچھ گچھ ہو گی۔
حضرت امیرالمومنین ع فرماتے ہیں:
اپنے دینی بھائی کے کام کو اس وقت تک اچھا ہی سمجھو جب تک کہ کوئی ایسی دلیل تمہارے ہاتھ نہ آ جائے جو تمہیں مجبور کر دے اور تمہارے لیے اس کے درست ہونے کا راستہ بند نہ کر دے, اور اپنے بھائی کی کہی ہوئی کسی بات پر بدگمان نہ ہو جانا جب تک کہ تمہیں اس کی کوئی اچھی بنیاد یا درست وجہ مل سکتی ہو۔ (کشف الریبہ شہید ثانی)قبعثری ایک شاعر اور ادیب تھا۔ ایک دن وہ اپنے ہم خیال ادیبوں کی جماعت کے ساتھ ایک باغ میں تھا اور وہ زمانہ کھجوریں توڑنے کا تھا۔ کسی نے حجاج کا نام لیا تو قبعثری بولا: اللّٰھم سود وجہہ واقطع عنقہ واسقنی من دمہ یعنی اے خدا! اس کا منہ کالا کر، اس کی گردن کاٹ ڈال اور مجھے اس کا خون پلا۔ قبعثری کی یہ ہجو حجاج کے کان تک بھی پہنچ گئی تو اس نے اسے بلوایا اور اس سے سخت بازپرس کی۔ قبعثری نے کہا :اردت بذلک الحصرم،ان الفاظ سے میری مراد کھجوریں تھیں، میں نے کہا تھا کہ اے خدا ان کا رنگ کالا کر دے اور انہیں درخت سے الگ کر کے مجھے کھلا دے۔ حجاج نے یہ تشریح نہیں مانی اور اسے ڈراتے ہوئے کہنے لگا: لاحملنک علی الادھم میں تجھے (بیڑیوں, زنجیروں) پر سوار کراؤں گا اور چونکہ لفظ ادھم عربی میں بیڑی کے علاوہ بھی معنی رکھتا ہے اور وہ ہیں مثلی گھوڑے کے، جس کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ قبعثری نے حجاج کے لفظ ادہم کو ان معنوں میں لیا اور بولا مثل الامیر یحمل علی الادھم والاشھب یعنی ایسا قوی اور سخی امیر ہونا چاہیئے جو خالص کالے یا خالص سفید گھوڑے پر سوار کرائے۔ حجاج نے کہا: اردت الحدید یعنی یعنی ادہم سے میری مراد لوہے کی بیڑی تھی گھوڑا مراد نہیں تھا۔ حدید کا لفظ لوہے کے علاوہ چونکہ دوسرے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور وہ ہیں تیز نگاہ اور چست وچالاک۔ قبعثری نے حجاج کے لفظ حدید سے دوسرے معنی نکالے اور کہا: لان یکون حدیداً خیر من ان یکون بلیداً یعنی بے شک چست وچالاک گھوڑا سست سے بہتر ہوتا ہے۔جب حجاج نے قبعثری کی معنی آفرینی کی قابلیت دیکھی تو اس نے غصہ تھوک دیا اور اسے معاف کر کے انعام واکرم دیا۔
جس طرح قبعثری اچھی توجیہ وتشریح کر کے حجاج کے شر سے بچ گیا بلکہ اس کی عنایت کا مستحق بھی بن گیا۔ اسی طرح جو انسان دوسروں کے قول یا فعل کے اچھے معنی ومطلب نکالے گا وہ خرابیاں پیدا کرنے والی دنیا اور آخرت کی برائیوں سے بچ جائے گا اور اپنی اچھی توجیہ کی بدولت خیر وخوبی حاصل کر لے گا۔
شہید ثانی کشف الریبہ میں لکھتے ہیں, جو بات تم پر کھلی نہ ہو اور تمہارے دل میں ٹھہر جائے تو سمجھو کہ وہ بدگمانی شیطان نے تمہارے دل میں ڈال دی ہے تمہیں, چاہیئے کہ تم اسے جھٹلاؤ کیونکہ وہ سب سے سخت اور خراب قسم کا گناہ ہے۔ اسی لیے شرع میں ہے کہ جب تمہیں کسی کے منہ سے شراب کی بُو آئے تو یہ نہ کہو کہ فلاں شخص نے شراب پی ہے اور نہ اس پر حد جاری کرنا چاہیئے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس نے کلی کر کے ہی منہ سے نکال دی ہو, یا دوسرے نے اس کے منہ میں زبردستی انڈیل دی ہو یا وہ اسے پانی کے دھوکے میں پی گیا ہو۔ اس طرح کے اور بھی احکامات ہو سکتے ہیں اس لیے مسلمان سے بدگمانی جائز نہیں ہے۔
مسلمان کے خلاف جو بدگمانی دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اگر تم یہ نہیں جانتے کہ, یہ دل میں صرف خیال کا بے اختیار گذرنا ہے جو قابل معافی ہوتا ہے یا یہ کہ یہ بُرے خیال کا دل میں بیٹھ جانا ہے جو اختیار سے اور قابل سزا ہوتا ہے, تو سمجھ لو کہ جیسے ہی اس مسلمان کی نسبت تمہاری حالت بدلی، تم اس سے بد دل ہوئے، تمہیں وہ کھلنے لگا اور تم نے اس کے احترام میں کمی اور سستی کی اور اس خیال سے پہلے کی طرح تم اس کی پریشانی سے غمگین نہیں ہوتے تو یہ حرام بدگمانی اور اس کی طرف سے دل میں کانٹے پڑ جانے کی نشانی ہوتی ہے۔
پس چاہئے کہ اپنے کردار اور گفتار میں اس کے خلاف پیدا ہو جانے والی بدگمانی کے مطابق عمل نہ کرے بلکہ شیطان پر غالب آنے کے لیے یہ مناسب ہے کہ اس شیطانی خیال کے بعد اس مسلمان سے اچھا اور بہتر سلوک کرنے لگے اور اس کا زیادہ احترام اور اس کے حقوق کا زیادہ لحاظ کر کے شیطان کو اندھا بنا دے۔ اس کے ساتھ شہید, پیغمبر اکرم ص کی احادیث بیان فرماتے ہیں:
مسلمان کا خون بہانا، اس کا مال لوٹنا اور اس سے بدگمانی کرنا حرام ہے۔
جب کسی مومن کو کسی مسلمان سے بدگمانی پیدا ہو جائے تو اس کے لیے اس سے بچاؤ کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ اس بدگمانی کو دل میں نہ بیٹھنے دے اور اس پر عمل نہ کرے۔