کفران نعمت

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 04/12/2022 754

کفران نعمت (احسان فراموشی) گناہ کبیرہ ہے۔ امام جعفر صادق ع ناشکرے پن کو کفر میں شمار کرتے ہیں کیونکہ خداوند عالم سلیمان ع کی بات دہراتا ہے کہ:

قَالَ ٱلَّذِى عِندَهُۥ عِلْمٌۭ مِّنَ ٱلْكِتَـٰبِ أَنَا۠ ءَاتِيكَ بِهِۦ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَءَاهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُۥ قَالَ هَـٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّى لِيَبْلُوَنِىٓ ءَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِۦ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّى غَنِىٌّۭ كَرِيمٌۭ (النمل ۔ 40)
یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوں اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار بے نیاز, کرم کرنے والا ہے

قرآن مجید میں اس کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ جیسے ارشاد ہوتا ہے:

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِى لَشَدِيدٌۭ (ابراہیم ۔ 7)
اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاه کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیاده دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے

مزید فرماتا ہے:

فَٱذْكُرُونِىٓ أَذْكُرْكُمْ وَٱشْكُرُوا۟ لِى وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرة ۔ 152)
سو مجھے یاد کرو تاکہ میں تمہیں یاد کروں، میری نعمتوں کا شکر ادا کرو اور کافر نہ ہو۔

خلاصہ یہ ہے کہ خدا نے ان تینوں آیتوں میں ناشکرے پن کرکفر کہا ہے۔ ان آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ناشکرے پن کے تین بڑے نتیجے نکلتے ہیں

  1. اس سے نعمت ختم ہو جاتی ہے
  2. اس کی وجہ سے سخت اور دردناک عذاب آتا ہے
  3. اور خدا ناشکرے کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

قوم سبا احسان فراموشی کرتی ہے عذاب بھگتی ہے

سبا کے باشندوں کے بارے یوں ارشاد ہوتا ہے:

لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍۢ فِى مَسْكَنِهِمْ ءَايَةٌۭ ۖ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍۢ وَشِمَالٍۢ ۖ كُلُوا۟ مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَٱشْكُرُوا۟ لَهُۥ ۚ بَلْدَةٌۭ طَيِّبَةٌۭ وَرَبٌّ غَفُورٌۭ ١٥ فَأَعْرَضُوا۟ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ ٱلْعَرِمِ وَبَدَّلْنَـٰهُم بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَىْ أُكُلٍ خَمْطٍۢ وَأَثْلٍۢ وَشَىْءٍۢ مِّن سِدْرٍۢ قَلِيلٍۢ ١٦ ذَٰلِكَ جَزَيْنَـٰهُم بِمَا كَفَرُوا۟ ۖ وَهَلْ نُجَـٰزِىٓ إِلَّا ٱلْكَفُورَ (سبا: 15-17)
قوم سبا کے لئے اپنی بستیوں میں (قدرت الٰہی کی) نشانی تھی ان کے دائیں بائیں دو باغ تھے (ہم نے ان کو حکم دیا تھا کہ) اپنے پروردگار کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، یہ عمده شہر اور وه بخشنے واﻻ رب ہے. لیکن انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر زور کا سیلاب چھوڑ دیا اور انہیں ان کے باغوں کے بدلے دو ایسے باغ دیئے جن کے میوے بدمزہ تھے اور جن میں کچھ تو جھاؤ تھا اور تھوڑی سی بیریاں۔ یہ ہم نے ان کی ناشکری کی ان کو سزا دی۔ اور ہم سزا ناشکرے ہی کو دیا کرتے ہیں

سبا کے قبیلے کے لیے جو یمن میں تھا لوگوں کے گھر ان کی قوت وطاقت، خدا کی نعمتوں کی فراوانی اور ان کی ناشکری پر سخت عذاب اور سزاؤں کی نشانی تھے۔ کہتے ہیں کہ ان میں سانپ، بچھو، مچھر، چیچڑی اور جوں وغیرہ کی قسم سے کوئی ستانے والا کیڑا نہیں تھا اور اگر کوئی ان درختوں کے نیچے خالی ٹوکری رکھ آتا تھا تو وہ ٹوکری پھلوں سے بھر جاتی تھی۔ پیغمبروں نے ان سے کہا: خدا کا رزق کھاؤ اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرو، تمہارا شہر خوش حال ہے اور اور تمہارا خدا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔ انہوں نے سرکشی کی اور ناشکرا پن دکھایا, اور کہنے لگے ہم نہیں سمجھتے کہ خدا نے ہمیں کوئی نعمت بخشی ہے اور اگر یہ نعمتیں اسی کی دی ہوئی ہیں تو اس سے کہیے کہ وہ واپس لے لے۔ چنانچہ ان کے لیے عرم کا سیلاب بھیجا گیا۔ بتایا گیا کہ عرم ایک پشتے کا نام ہے جو سبا کی ملکہ بلقیس نے دو پہاڑوں کے بیچ میں پتھر اور تارکول سے بنوایا تھا جہاں بارش کا پانی اکٹھا ہوتا تھا۔ اس میں ایک کے اوپر ایک تین دروازے بنوائے تھے اور نیچے ایک بڑی سی جھیل تھی جس میں سے نکلنے والی نہروں کی تعداد کے مطابق بارہ موریاں بنوائی تھیں۔ جب بارش ہوتی تھی اس بند کے پیچھے پانی اکٹھا ہو جاتا تھا اس وقت اوپر کا دروازہ کھول دیتے تھے تاکہ پانی اس جھیل میں آ جائے اگر پانی کم ہوتا تھا تو درمیانی دروازہ کھول دیتے تھے اور اگر اور کم ہوتا تھا نچلا دروازہ اور جب پانی جھیل میں اکٹھا ہو جاتا تھا تو اسے نہروں میں بانٹ دیتے تھے۔ وقت یوں ہی گذرتا رہا یہاں تک کہ بلقیس کا انتقال ہو گیا۔ یہ لوگ باغی ہو گئے اور حد سے گذر گئے تو خدا نے ان پر بڑے بڑے چوہے مسلط کر دئیے جنہوں نے بند میں چھید کر دئیے۔ پانی میں طغیانی آ گئی جس نے اس پشتے کو منہدم کر دیا۔ کچھ لوگ ہلاک ہو گئے اور کچھ ادھر اُدھر بھاگ گئے اور ان کی بھگدڑ اور بے بسی عرب میں ضرب المثل بن گئی۔ ان دونوں باغوں کو دو ایسے باغوں میں تبدیل کر دیا گیا جن کے پھل کڑوے اور بدذائقہ تھے اور درختوں کو شورہ کھا گیا تھا۔ یہ سزائیں ان لوگوں کی احسان فراموشی اور ناشکرے پن کی تھیں۔

نعمت نقمت ہو جا تی ہے

خدا فرماتا ہے:

وَضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا قَرْيَةًۭ كَانَتْ ءَامِنَةًۭ مُّطْمَئِنَّةًۭ يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًۭا مِّن كُلِّ مَكَانٍۢ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ ٱللَّهِ فَأَذَٰقَهَا ٱللَّهُ لِبَاسَ ٱلْجُوعِ وَٱلْخَوْفِ بِمَا كَانُوا۟ يَصْنَعُونَ (النحل ۔ 112)
اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزه چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا

لباس کا ذکر عذاب کے ان کو گھیر لینے کی مناسبت سے کیا گیا ہے یعنی جس طرح لباس پہننے والے کو ڈھانک لیتا ہے اسی طرح عذاب نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت کے گاؤں سے شہر مکہ مراد ہے جس کے باشندے سات سال تک کال اور بھوک میں مبتلا رہے تھے اور مجبوری اور بھوک سے ان کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ جلی ہوئی ہڈیاں، مردار گوشت اور خون کھاتے تھے۔

امام سجاد ع ایسے گناہ جو نعمتوں کو تبدیل کر دیتے ہیں کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انہیں میں ناشکرا پن یعنی کفران نعمت بھی شامل ہے۔ (معانی الاخبار)

ناشکرا پن اور اہل بیت علیھم السلام کی روایات

پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں:

ہر گناہ کے مقابلے میں ناشکرے پن کی سزا ناشکرے کو بہت جلد مل جاتی ہے۔ (وسائل الشیعہ باب 8)
خدا کا سب سے پیارا بندہ وہ ہے جو خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے اور خدا کا سب سے زیادہ دشمن وہ ہے جو خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے۔ (مستدرک)
مومن کے لیے فشار قبر (قبر کا مردے کو بھینچنا) ان نعمتوں کا کفارہ ہوتا ہے جو اس نے ضائع کر دی ہیں۔ (بحار الانوار جلد 3)

آپ ص یہ بھی فرماتے ہیں کہ: 3 گناہ ایسے ہیں جن کا ارتکاب کرنے والے آخرت سے پہلے اپنی سزا کو پہنچیں گے۔

  1. والدین کی نافرمانی،
  2. لوگوں پر ظلم
  3. احسان فراموشی۔ (وسائل الشیعہ)

حضرت امیرالمومنین ع اپنی وصیت میں فرماتے ہیں:

کسی نعمت کی ناشکری نہ کرو کیونکہ حقیقت میں ناشکرا پن سب سے بڑا اور گھٹیا قسم کا کفر ہے۔ (مستدرک)

کفران نعمت کے معنی

کفران نعمت کے معنی نعمت کو چھپانا ہیں اور اس کی تین قسمیں ہوتی ہیں:

  1. نعمت سے ناواقفیت: یہ سب سے بُری اور شدید قسم ہے اور اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک نعمت سے ناواقفیت یا بے خبری ہے یعنی نہ سمجھنے کی وجہ سے نعمت کو نہیں پہچانتا، اس کی پرواہ نہیں کرتا یعنی اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور اس کے ہونے نہ ہونے کو یکساں جانتا ہے۔ دوسرے نعمت بخشنے والے سے ناواقفیت یا بے خبری ہے یعنی دراصل اپنے پروردگار ہی کو نہیں پہچانتا یا یہ نہیں جانتا کہ اس کی ایک صفت نعمت بخشنا بھی ہے۔ چنانچہ یہ نہیں سمجھتا کہ نعمت صرف اسی کی طرف سے آتی ہے بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کی طرف سے آتی ہے۔ غرض یہ ہے کہ نعمت سے خبری ہو یا نعمت دینے والے سے دونوں بے خبریاں کفران نعمت یعنی احسان فراموشی ہیں اور صاف سزاؤں کی مستحق ہیں کیونکہ کفران نعمت کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے۔
  2. حالت کے لحاظ سے کفر: یہ اس طرح ہے کہ عاقل انسان کو اس نعمت کے ملنے پر خوش اور مسرور ہونا چاہیئے جو خدا اسے بخشتا ہے یہ سوچ کر کہ اللہ نے اس پر مہربانی کی اور اسے یاد رکھا اور وہ اس کے مسلسل فضل وکرم کا امیداوار ہے۔ جیسے ارشاد ہوا:
    قُلْ بِفَضْلِ ٱللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِۦ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا۟ هُوَ خَيْرٌۭ مِّمَّا يَجْمَعُونَ (یونس - 58)
    آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے۔ وه اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وه جمع کر رہے ہیں.
    اب اگر اس کے برعکس وہ اپنے پروردگار سے بدگمان رہے۔ اس کے فضل وکرم سے کوئی امید نہ رکھے یا اس سے خوش نہ ہو بلکہ اس سے بے تعلق اور نا امید ہو جائے تو یہ کیفیت یا حالت خدا کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔
  3. اعضائے جسم سے کفر: یعنی عملی کفر اس طرح کہ دل میں گناہ کی نیّت کرے اور زبان سے شکایت اور بُرائی کرے یعنی نعمتوں کا ذکر اور زبان سے ان کا شکر ادا کرنے کے بجائے سب کو نظر انداز کر دے
    وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (الضحٰی - 11)
    اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا
    اور اپنی آرزوؤں کے پورا نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے خدا کے کاموں کی بُرائی کرے اور خدا کی نعمت کو وہاں صَرف کرے جس کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی اور اپنے اعضاء سے وہ کام لے جس سے خدا نے منع فرمایا ہے اور جو اس کی رحمت سے دُور کرنے والا ہے۔

اگر شکر نہ کرے تو انسان جانور سے بھی گھٹیا ہے

حضرت امام سجاد ع فرماتے ہیں:

خاص تعریف اس خدا کے لیے ہے جو اگر اپنے بندوں کو ان نعمتوں کا شکر عطا نہ کرنا نہ بتاتا جو اس نے لگاتار اور کھلم کھلا عنایت فرمائی ہیں تو اس میں شک نہیں کہ وہ ان نعمتوں کو لے کر ان کا شکرادا کیے بغیر انہیں اپنے کام میں لے آتے اور اگر وہ ایسا کرتے تو انسانیت کے دائرے سے نکل کر جنگلی جانوروں اور چوپایوں کی حد میں پہنچ جاتے جیسا کہ قرآن میں خدا فرماتا ہے: کفار حیوانات کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گھٹیا اور گمراہ ہیں۔ (اعراف – 179, فرقان - 44) (صحیفہ سجادیہ, دعائے اوّل)

غرض یہ ہے کہ نعمت کا شکر ادا نہ کرنے والا انسان دراصل آدمیت سے ہی خارج ہے پھر ایسے شخص کے متعلق ایمان، صحیح معارف اور نیک اعمال کی بدولت حاصل ہونے والی انسانی سعادتوں اور برکتوں کا تو ذکر ہی کیا ہو سکتا ہے جو اس کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے ہوں گی۔

واسطوں اور ذریعوں سے انکار (کفران)

چونکہ خدا نے دُنیا کو اپنی حکمت ومصلحت سے دارالاسباب قرار دیا ہے اور اپنے بندوں تک ہر نعمت پہنچانے کا کوئی نہ کوئی واسطہ، سبب یا ذریعہ مقرر فرمایا ہے جس کی بدولت وہ نعمت بندوں تک پہنچتی ہے اس لیے عقل اور شرع کی رو سے واسطوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان کا بھی احسان ماننا چاہیئے البتہ یہ نہیں کہ اس واسطے ہی کو مستقل طور پر اور حقیقت میں اپنا منعم (نعمت بخشنے والا) سمجھے بلکہ اس کا احترام ضرور کرے کیونکہ وہ نعمت کا ذریعہ ہے اور اپنی زبان اور اپنی حالت و کیفیت سے خدا کا شکر ادا کرے کہ فلاں شخص نے مجھے تیری فلاں نعمت پہنچائی ہے۔ یہاں چند روایتوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ رسول خدا فرماتے ہیں:

قیامت میں بندے کو حساب کتاب کے مقام پر لائیں گے اور خدا حکم دے گا کہ اسے دوزخ میں لے جاؤ تو وہ کہے گا۔ اے پروردگار! مجھے دوزخ میں لے جانے کا حکم کس لیے دیتا ہے جبکہ میں قرآن کی تلاوت کرتا رہا ہوں؟ خدا فرمائے گا: اس لیے کہ میں نے تجھے نعمت بخشی اور تُو نے شکر نہیں کیا۔ وہ کہے گا: اے خدا! تو نے مجھے فلاں نعمت دی تھی تو میں نے یوں شکر کیا، اور فلاں نعمت بخشی تو میں نے یوں شکرگذاری کی۔ اس طرح وہ خدا کی نعمتیں اور اپنی شکرگذاریاں گنوائے گا۔ خدا فرمائے گا تُو نے سب کچھ سچ کہا لیکن یہ بات بھی تو ہے کہ میں جن لوگوں کے واسطے سے تجھے نعمتیں بھیجیں تو نے ان کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ میں نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ میں نے جس بندے کو اپنی نعمت عطا فرمائی ہے اس کا شکر اس وقت تک قبول نہیں کروں گا جب تک کہ وہ اس شخص کا شکریہ ادا نہ کرے جس کے وسیلے سے نعمت اس تک پہنچی ہے۔ (وسائل الشیعہ باب 8)

امام سجاد ع فرماتے ہیں:

بلاشبہ خدا ہر شکرگذار بندے کو پسند فرماتا ہے اور قیامت میں اپنے ایک بندے سے پوچھے گا (دنیا میں) تو نے فلاں شخص کا (جو میری نعمت کا ذریعہ تھا) شکریہ ادا نہیں کیا اس لیے میرا بھی شکر ادا نہیں کیا۔ پھر امامؑ نے فرمایا: تم میں خدا کا سب سے زیادہ شکر گذار بندہ وہ ہے جو ان لوگوں کو بھی شکریہ ادا کرتا ہے جن کے واسطے سے خدا کی نعمتیں ملتی ہیں۔ (وسائل الشیعہ)

امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

نیکی کی راہ کے لٹیروں پر خدا لعنت کرے۔ جب لوگوں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں تو آپ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ دوسرے بھلائی اور نیکی کرتے ہیں لیکن یہ ان کی ناشکری کرتے ہیں اسی لیے پھر نیک لوگ دوسروں کے ساتھ بھلائی اور نیکی نہیں کرتے۔ (کافی)

امام رضا ع فرماتے ہیں:

جو شخص ان لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا جن کے واسطے سے اسے نعمت الہٰی ملی ہے اس نے گویا خدا کا شکر ہی ادا نہیں کیا۔ (وسائل الشیعہ)

نیکی کے واسطے کے شکریے کی حقیقت

پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں:

جب تجھے اپنے مومن بھائی سے کوئی نعمت یا نیکی حاصل ہو تو اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ خدا آپ کو جزائے خیر عطا کرے اور اگر تیرا ذکر اس محفل میں کیا جائے جس میں تو موجود نہ ہو تو کہہ دے کہ خدا انہیں جزائے خیر عطا فرمائے تو نے گویا اس طرح اس کی تلافی کر دی یعنی حساب برابر کر دیا۔ (وسائل الشیعہ۔ مستدرک)
جس نے تمہیں خدا کی قسم دلا کر تم سے کچھ مانگا اور جس سے تمہیں بھلائی اور نعمت ملی اس کی تلافی کر دو یعنی تم بھی اس کی طرح اس کے ساتھ بھلائی کرو اور اگر تمہارے پاس وہ چیز نہ ہو جس سے تم تلافی کر سکتے ہو تو اس کے لیے اس طرح دعا کرو جس سے وہ جان جائے کہ تم نے تلافی کر دی ہے۔ (وسائل الشیعہ۔ مستدرک)

غرض ہر احسان کا بدلہ احسان سے چکانا چاہیئے جیسا کہ خدا فرماتا ہے:

هَلْ جَزَآءُ ٱلْإِحْسَـٰنِ إِلَّا ٱلْإِحْسَـٰنُ (رحمن – 60)
کیا بھلائی کا بدلہ بھی بھلائی کے سوا کچھ ہو سکتا ہے؟

لیکن یہ پیش نظر رہے کہ بھلائی کی ابتداء کرنے والا افضل ہوتا ہے۔ روایتوں میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ اس حکم کے تحت احسان کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی مومن ہو یا کافر عبادت گذار ہو یا گناہگار غرضیکہ کوئی ہو اور اس نے کیسی ہی بھلائی کی ہو اس کی تلافی کرنا چاہیئے۔

ولایت سب سے اعلیٰ نعمت ہے

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی شخص کے بارے میں خدا کی دنیاوی اور آخرت کی، صوری اور معنوی نعمتیں گنی نہیں جا سکتیں, جیسا کہ قرآن مجید میں خدا یاد دلاتا ہے:

وَإِن تَعُدُّوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ لَا تُحْصُوهَآ (ابراہیم - 34)
اور اگر تم خدا کی نعمتوں کو گننا بھی چاہو تو گن نہیں سکو گے۔

ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے:

ثُمَّ لَتُسْـَٔلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ ٱلنَّعِيمِ (تکاثر – 8)
قیامت میں تم سے نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

یہ جان لینا چاہیئے کہ نعمت جتنی اہم اور بڑی اور اس کا اثر جتنا زیادہ ہو گا اس کی ناشکری کی سزا بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی اور اس کا گناہ بھی اتنا ہی بڑا ہو گا۔ بہت سی روایتوں میں یہ بات ملتی ہے کہ آخری آیت میں لفظ نعیم (نعمت) سے جس کے بارے میں پوچھا جائے گا, محمد و آل محمد علیہم السلام کی ولایت مراد ہے۔ (کیونکہ ان کا وجود خود نعمت ہے اور یہ خدا کی ہدائت اور رحمت کا وسیلہ ہیں) اور اس نعمت کی ناشکری ان کی ولایت کا نہ ماننا یا ان حضرات کو بھول جانا اور یاد نہ کرنا، ان سے محبت نہ رکھنا اور ان کے اقوال اور اوامر ونواہی کے ماننے سے منہ موڑنا غرض ان کے منصب کی پرواہ نہ کرنا اور ان کی ولایت کی نعمت سے فیض حاصل نہ کرنا ہے۔

روحانی عالم کے وجود سے انکار

ولایت کی نعمت سے انکار خدا کے عالموں اور روحانی فقیہوں کے وجود سے انکار ہے جو حضرت حجة ابن الحسن ع کی غیبت کے زمانے میں ان کے عام نائب ہیں اور ظاہر ہے کہ نائب سے انکار اس سے انکار ہے جس کا وہ نائب ہے۔ جس طرح نائب کا شکریہ اس کا شکریہ ہے جس کا وہ نائب ہے۔ نائب امام وہ شخص ہے جو علوم آل محمد سے فیضیاب ہو چکا ہو اور یقین اور اطمینان کے مقام پر پہنچ گیا ہو اور نفسانی کمالات کے لحاظ سے ہوا و ہوس کی قید سے آزاد ہو، نفس اور شیطان پر غالب آ چکا ہو اور عدالت کی صفت رکھتا ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ خود امام کا نمونہ ہو اور ان بزرگوار کے انوار سے فیض حاصل کر چکا ہو تاکہ دنیا والے اس کی گفتار اور کردار کی روشنی سے بلکہ اس کے نفس وجود سے فیضیاب ہوں اور اس کی پیروی کر کے نجات پائیں۔

پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں: ایک زمانہ آنے والا ہے جب لوگ عالموں سے یوں بھاگیں گے جیسے بھیڑیے سے بھیڑ بھاگتی ہے۔ چنانچہ خدا ان کو تین بلاؤں میں مبتلا فرمائے گا۔

  1. ان کے مال وملکیت سے برکت اُٹھا لے گا،
  2. ان پر ظالم بادشاہ مقرر کرے گا،
  3. وہ دنیا سے بے ایمان جائیں گے۔ (سفینة البحار جلد 2)

امام سجاد ع فرماتے ہیں:

خدا نے دانیال ع کو وحی بھیجی کہ میرے نزدیک میرا سب سے بڑا دشمن بندہ وہ نادان ہے جو اہل علم کے حق کی پرواہ نہیں کرتا اور ان کی پیروی نہیں کرتا اور میرے نزدیک میرا سب سے زیادہ دوست بندہ پرہیزگار مناسب ثواب کا طالب، عالموں کا خادم، بردباروں کا پیرو اور حکمت شعاروں کی تواضح کرنے والا ہے۔ (اصول کافی, باب ثواب العلم والتعلیم, حدیث 5)

ابوحمزہ نے کہا کہ حضرت امام جعفر صادق ع نے مجھ سے فرمایا:

عالم ہو یا طالب علم ہو یا اہل علم کا دوستدار بن اور چوتھی قسم (یعنی نہ عالم نہ طالب علم نہ ان کا دوستدار) نہ بن کیونکہ تو انہیں اپنا دشمن رکھ کر ہلاک ہو جائے گا۔ (اصول کافی, کتاب فضل العلم, باب اصناف الناس, حدیث 3)

متعلقہ تحاریر