شرک

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 20/03/2022 1397

سب سے پہلا گناہ کبیرہ اللہ تعالیٰ پر شرک باندھنا ہے۔ مشرک کا مقابل اور اس کی ضد موحّد ہے۔ توحید دین کا پہلا اصل رکن ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ع نے فرمایا: تمام گناہوں سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ پر شرک باندھنا ہے, جس کی دلیل خود خداوند تعالیٰ کا قول ہے کہ فرماتا ہے:

إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱفْتَرَىٰٓ إِثْمًا عَظِيمًا (النساء ۔ 48)
یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہےاور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناه اور بہتان باندھا۔
یعنی اگر کوئی مشرک دنیا سے کوچ کر گیا تو وہ بخشے جانے کے قابل نہیں۔ اور فرماتا ہے:
إِنَّهُۥ مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ ٱلْجَنَّةَ وَمَأْوَىٰهُ ٱلنَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ (مائدہ ۔ 72)
بے شک جو کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دے یقینا خدا اس پر بہشت حرام کرتا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم قرار دیتا ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیں۔
مزید ارشاد خدا وندی ہے:
لَا تُشْرِكْ بِٱللَّهِ ۖ إِنَّ ٱلشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمان ۔ 13)
اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک قرار مت دو بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
شرک کئی مراتب پر مشتمل ہے اور اسی طرح شرک کے کئی درجات ہیں:

پہلامقام ۔ ذات خدا میں توحید اور شرک

یعنی ربّ الارباب کی ذات اقدس کو یکتا تسلیم کرنا کہ وہ قدیم اور ازلی (ہمیشہ سے) ہے۔ وہ سارے عوالم امکان (جہانوں) خواہ محسوس ہوں یا غیر محسوس، سب کی ایجاد کی علّت (وجہ) ہے۔ اور اس مقام میں متعدد (کئی ایک) علل (علت کی جمع) کو ماننا شرک ہے۔

ایک سے زیادہ خداؤں کے ماننے والے مشرک ہیں

عیسائی مذہب تین قدیم اصل یعنی باپ (خدا)، بیٹا (عیسیٰ ) اور رُوحُ الْقُدُس (جبرائیل) کے قائل ہیں اور ہر ایک کے لیے ایک خاصیت اور اثر کے معتقد ہیں۔ اسی طرح برہمن مذہب اور بدھ مذہب بھی تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:

لَّقَدْ كَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ ثَالِثُ ثَلَـٰثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ إِلَـٰهٍ إِلَّآ إِلَـٰهٌ وَٰحِدٌ (مائدہ ۔ 73)
جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ ’اللہ‘ تین میں سے ایک ہے (یعنی الوہیت خدا، عیسیٰ اور روح القدس کے درمیان مشترک ہے) وہ یقینا کافر ہوگئے۔  حالانکہ خدائے یکتا کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں۔
اسی طرح سے کچھ بت پرست فرقے ساری مخلوقات کی ہر نوع کے لیے ایک پروردگار قرار دیتے ہیں جسے ’ رَبُّ الْنَّوْع‘ کہتے ہیں۔ اس فرقے کا کہنا ہے کہ پانی کے لیے الگ خدا ہے اور ہوا کا خالق الگ ہے۔ ان کے عقائد کی تردید میں اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
ءَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ ٱللَّهُ ٱلْوَٰحِدُ ٱلْقَهَّارُ (یوسف ۔ 39 )
بھلا جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یکتا و زبردست۔

دوسرا مقام ۔ صفات خدا میں توحید

صفات الٰہی میں توحید سے مراد یہ ہے کہ خدا کی صفات (جیسے حیات، علم، قدرت، ارادہ وغیرہ) کو خدائے واحد کا عین ذات جاننا اور جدا نہ سمجھنا۔  اس کے سوا یہ صفات مخلوقات کی ذات پر زائد و عارض صفات جاننا اور خدائے یکتا کا فیضان رحمت اور بخشی ہوئی نعمت سمجھنا چاہیئے۔ اگر صفات الٰہیہ کو ذات حق سے زائد جانیں تو اس صورت میں جبکہ ذات خداخود قدیم ہے، اس کی تمام صفات کو بھی قدیم ماننا پڑے گا۔ پھر تعدد قدماء لازم آتے ہیں جو کہ شرک ہے۔

مخلوقات کی اچھی صفات سب کی سب خدا کی جانب سے ہیں:

انبیاء اور آئمہ اطہار (علیہم السلام) کا علم و قدرت و عصمت اور دوسرے کمال کے اوصاف مرحمت پروردگار ہیں۔ کوئی ایک صفت بھی وہ ذاتی طور پر نہیں رکھتے تھے بلکہ انہیں جو کچھ ملا ہے وہ سر چشمہ فیض سے ملا ہے۔ اسی طرح کسی فرد کا بھی کسی اچھی صفت سے متصف ہونا اس رب الأرباب کی طرف سے ہے۔ ارشادی باری تعالیٰ ہے:

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ أَنتُمُ ٱلْفُقَرَآءُ إِلَى ٱللَّهِ ۖ وَٱللَّهُ هُوَ ٱلْغَنِىُّ ٱلْحَمِيدُ (فاطر ۔ 15)
اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو  اور اللہ بےنیاز  خوبیوں واﻻ ہے .

غفلت سے اپنے نفس کا تزکیہ:

سچا موحد اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ اس کا زبانی اقرار دلی اعتقاد سے متضاد نہ ہو۔ مثلاً اپنی تعریف کے موقع پر میرا علم، میری قدرت، میرا ارادہ، میری دولت وغیرہ وغیرہ کی بجائے اگر وہ کہتا کہ میرا علم جو اللہ تعالیٰ نے مجھے مرحمت فرمایا ہے۔ میری قدرت جو اللہ نے دی ہے۔ میری دولت جو اللہ کا فضل و امانت ہے یہی حقیقت کے مطابق اور عین توحید ہوتا۔ چنانچہ حضرت امیرالمومنین ع خطبہ ہمام میں متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

جب ان میں سے کوئی کسی کی تعریف کرنے لگے تو جو کچھ اس کے بارے میں کہتے ہیں وہ (پرہیزگار) اس سے ڈرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اپنے نفس کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہوں۔ اور میرا پروردگار میرے نفس اور ضمیر کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اس کے بعد درگاہ رب العزّت کی طرف متوجہ ہو کر کہتا ہے: اے میرے معبود یہ لوگ جو کچھ میری تعریف میں کہتے ہیں اس کا مجھ سے مواخذہ نہ کر۔ تعریف کرنے والا جس نظر سے مجھے دیکھ رہاہے میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ مجھے اس بالاتر قرار دے اور میرے اُن گناہوں کو بخش دے جو میرا مدّاح نہیں جانتا۔
ایک آدمی نے حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا دروازہ کٹھکٹھایا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے گھر کے اندر سے دریافت فرمایاآپ کون ہیں؟

اس نے کہا میں ! پس آنحضرت لفظ "میں" کے استعمال سے غضبناک ہوئے اور گھر سے باہر تشریف لائے اور پوچھا میں کہنے والا کون تھا خداوند عالم کے سوا اور کوئی اس لفظ کا سزا وار نہیں۔ وہ اپنے آپ کو کہتا ہے  میں جبا ر ہوں اور میں قہاّ ر ہوں۔

قارون مشرک ہو گیا

قارون مشرک اس وجہ سے ہوا کہ اس نے کہا:

قَالَ إِنَّمَآ أُوتِيتُهُۥ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِىٓ (قصص ۔ 78)
(یہ مال ودولت ) تو مجھے اپنے علم (کیمیا) کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔
جب قارون نے اپنے آپ کو رزاقیت میں جو کہ صفت خداوندی ہے شریک گردانا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا۔
أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِۦ مِنَ ٱلْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا (قصص ۔ 78)
کیا قارون نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ اللہ نے اس سے پہلے کے لوگوں کو ہلاک کر ڈالا جو اس سے قوت اور جمعیت میں کہیں بڑھ چڑھ کے تھے۔
اس لئے اگر قارون از خود کسی قسم کی قدرت و طاقت رکھتا تو اپنے آپ کو ہلاکت سے کیوں نہ بچا سکا؟

تیسرا مقام ۔ افعال میں توحید اور شرک

افعال میں توحید کی حقیقت سے مراد یہ ہے کہ ہمیں یقین حاصل کرنا چاہیئے کہ سارے عوالم خواہ وہ ملک (مادی ) یا ملکوت (روحانی ) سے تعلق رکھتے ہوں ان کا مالک و مدبر اور کنٹرول کرنے والا سوائے خدا کے اور کوئی نہیں اوریقینی طور پر جاننا چاہیے کہ اس کی ربوبیت اور الوہیت میں کسی حالت میں کوئی شریک نہیں ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:

ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَـٰوَٰتٍ وَمِنَ ٱلْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ ٱلْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ ٱللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَىْءٍ عِلْمًۢا (طلاق ۔ 12)
خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور انہیں کے برابر زمین کو بھی۔ ان میں خدا کا حکم نازل ہوتا رہتا ہے۔  تا کہ تم لوگ جان لو کہ ﷲ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور بے شک ﷲ اپنے علم میں ہر چیز پر حاوی ہے۔
وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ ۖ وَٱلنُّجُومُ مُسَخَّرَٰتٌۢ بِأَمْرِهِۦٓ (نحل ۔ 12)
اسی نے رات دن اور سورج چاند کو تمہارے لیے تابع کر دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے ماتحت ہیں
إِنَّ ٱللَّهَ فَالِقُ ٱلْحَبِّ وَٱلنَّوَىٰ ۖ يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ ٱلْمَيِّتِ مِنَ ٱلْحَىِّ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ (انعام ۔ 95 )
بےشک اللہ تعالیٰ دانہ کو اور گٹھلیوں کو پھاڑنے واﻻ ہے، وه جاندار کو بے جان سے نکال ﻻتا ہے اور وه بے جان کو جاندار سے نکالنے واﻻ ہےاللہ تعالیٰ یہ ہے، سو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو
يَخْلُقُكُمْ فِى بُطُونِ أُمَّهَـٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِى ظُلُمَـٰتٍ ثَلَـٰثٍ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ ٱلْمُلْكُ ۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ (زمر ۔ 6)
 وه تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک بناوٹ کے بعد دوسری بناوٹ پر بناتا  ہے تین تین اندھیروں  میں، یہی اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے اسی کے لئے بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر تم کہاں بہک رہے ہو
قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ (نساء ۔ 78)
انہیں کہہ دو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے

ہر چیز کا موثر خدا ہے

وہ ایسی ذات ہے کہ تمام مخلوقات کو روزی دیتا ہے۔  رزق کی تقسیم کرنا، کم یا زیادہ دینا مکمل طور پر خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔ جس سے وہ چاہے بُرائی کو دور کرتا ہے۔ خداوند عزوجل ہر بیچارے کا فریاد رس اور ہر پریشان حال کو نجات دینے والا ہے بلکہ وہ ہر نیکی اور خوبی کا سرچشمہ ہے۔

هُوَ ٱللَّهُ ٱلْخَـٰلِقُ ٱلْبَارِئُ ٱلْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ (حشر ۔ 24)
وہی اللہ ہے پیدا کرنے واﻻ وجود بخشنے واﻻ، صورت بنانے واﻻ، اسی کے لیے (نہایت) اچھے نام ہیں، ہر چیز خواه وه آسمانوں میں ہو خواه زمین میں ہو اس کی پاکی بیان کرتی ہے، اور وہی غالب حکمت واﻻ ہے
وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ ٱللَّهِ (النحل ۔ 53)
اور جتنی نعمتیں تمہیں ملتی سب خدا ہی کی طرف سے ہیں۔
وَإِن تَعُدُّوا۟ نِعْمَةَ ٱللَّهِ لَا تُحْصُوهَآ (النحل ۔ 18)
اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ان کو شمار نہیں کر سکو گے۔
انسان کی توانائی مشیّت ایزدی سے گھیری ہوئی اور محدود ہوتی ہے۔ کسی نے حضرت امیرالمومنین ع سے دریافت کیا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو کیسے پہچانا؟ پس فرمایا:
میں نے اُس کو ارادوں کے منسوخ ہونے اور ہمتوں کے ٹوٹنے سے پہچان لیا۔
وَإِن يَمْسَسْكَ ٱللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُۥٓ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ (الانعام ۔ 17)
اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے واﻻ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں۔ اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی نفع پہنچائے تو وه ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے واﻻ ہے
إِن كُلُّ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ إِلَّآ ءَاتِى ٱلرَّحْمَـٰنِ عَبْدًا (مریم ۔ 93 )
آسمان وزمین میں جو بھی ہیں سب کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں .

خوف اور امید صرف خدا سے

یقین کے مقام پر فائز مومن اپنے پروردگار کی عظمت اور جن گناہوں کا وہ مرتکب ہوا ہے ان کے بغیر اور کسی چیز سے کبھی نہیں ڈرتا چونکہ وہ یقین سے جان چکا ہے کہ تمام مخلوقات سب اللہ تعالیٰ کی فوج ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ان کی جانب سے کسی کو کسی قسم کا نفع پہنچ سکتا ہے اور نہ نقصان۔

اور اگر یہ یقین بھی حاصل ہو جائے کہ عالم امکان میں اللہ کے سوا دوسرے کسی موثر کا اثر کارگر نہیں تو ایسا مومن خدا کے علاوہ اور کسی سے کسی قسم کی امید نہیں رکھتا چنانچہ حضرت امیرالمومنین ع کا ارشاد گرامی ہے:
تم میں سے کسی کو اپنے پروردگار کے سوا کسی سے امید نہیں رکھنا چاہیئے (نہج البلاغہ)

جاننا چاہیئے کہ تمام اسباب ارادہ خدا کے ماتحت ہیں۔ اگر خیر کے تمام اسباب اس کے لیے فراہم ہو جائیں مگر خدا نہ چاہتا ہو تو محال ہے کہ اسے کوئی خیر پہنچ جائے۔ اس طرح تمام ظاہری اسباب کے سلسلے اس سے کٹ جائیں اور خدا فراہم کرنا چاہتا ہو تو کسی صورت فراہمی کا سبب پیدا کر دے گا۔ اگر ضرر پہنچانے کے تمام اسباب اکھٹے ہو جائیں لیکن خدا اسے محفوظ رکھنا چاہتا ہو تو کوئی شر اُسے چھو نہیں سکتا۔ اگر کوئی اپنے کام میں اپنے پروردگار کے علاوہ کسی دوسرے سے امیدوار ہے تو خداوند کریم اسے لطف وکرم سے اس کی امید کو نامیدی سے بدل دیتا ہے۔ تاکہ وہ اپنے مالک حقیقی کی طرف پلٹ کر آئے۔

میں ان تمام امیدواروں کی امید کے رشتوں کو کاٹ دوں گا جو دوسروں کے باندھے ہوئے ہیں۔(عدّة الدّاعی)

توحید اور تسلیم

موحّد کو چاہیئے کہ تمام مقدرات الٰہیہ کے سامنے بلاچوں و چرا سرتسلیم خم کر دے اور امور تکوینی مثلاً عزت و ذلت، صحت و مرض، غنا و فقر، موت و حیات اور امور تکلیفیہ جیسے واجبات و محرمات کے امور میں دل و زبان سے کسی قسم کا اعتراض اور انکار ہر گز نہ کرے۔ اور ان امور میں اپنی فکر و نظر کا اظہار بھی نہ کرے۔ مثلاً ایسا کیوں ہوا؟ اس طرح ہونا چاہیئے تھا۔ یا ہوں کہیے بارش کیوں نہیں ہوئی، ہوا اس قدر گرم کیوں ہوئی۔ یا یہ کہنا کہ اللہ نے مجھے مال یا اولاد کیوں نہیں دی۔ فلاں جوان کیوں عنفوان جوانی میں مر گیا اور فلاں بوڑھا رہا؟ اللہ نے اس چیز کو واجب اور اس کو حرام کیوں قرار دیا۔ اس طرح کی باتیں بنانے والا درحقیقت خدا کی الوہیت اور اس کی ربوبیت میں اپنے کو شریک قرار دیتا ہے۔ البتہ عزیزوں اور دوستوں کی موت پر گریہ و فریا د کرنا جائز ہے, لیکن اعتراض کے طور پر کہنا کہ یہ کیوں ہوا؟ ایسا نہیں ہو نا چاہیئے تھا، سراسر حرام ہے۔ امام صادق ع نے فرمایا:

اگر کچھ لوگ یکتا خدا کی، جس کا کوئی شریک نہیں، عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة بھی دیں اور خانہ خدا کا حج بھی بجا لائیں اور ماہ رمضان کا روزہ بھی رکھیں۔  اس کے بعد ان احکام کے متعلق جو اللہ تعالیٰ نے یا پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمائے ہیں اعتراض کریں اور کہیں : ایسا کیوں نہیں کیا؟ یا دل میں تصور کریں اگرچہ زبان سے اقرار نہ بھی کریں پھر بھی وہ مشرک ہو ں گے۔ اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔ (النسأ، 65) اس کے بعد فرمایا تم پر لازم ہے کہ تسلیم کرو۔ (اصول کافی)

توحید اور محبت

خدائے واحد کے پرستار کو یقین کے ساتھ جاننا چاہیئے کہ دلی محبت اور دوستی کا سزاوار پروردگار عالم ہے جو خود اس کا اور سارے موجودات کا حقیقی منعم ہے۔ سوائے ذات خدا کے اور کسی سے بلا واسطہ دوستی نہیں رکھنی چاہیئے۔ ہاں اگر کسی سے دوستی کا رشتہ باندھنا منظور ہو تو اس لحاظ سے کہ وہ شخص محبوب خدا ہے۔ اور چونکہ اس کی دوستی عین محبت خدا اور حکم خدا ہے جیسا کہ انبیأ و آئمہ (علیہم السلام) اور مومنین سے محبت کرنا۔ اس کے برعکس خوشنودی خدا کو نظر انداز کر کے براہ راست کسی چیز سے محبت کرے تو فرد شرک میں مبتلا ہوتا ہے۔ اگر غیر خدا کی دوستی زیادہ شدّت سے ہو اور خدا کی محبت نسبتاً کم ہو، یہاں تک کہ دونوں محبتوں کے تصادم کی صورت میں غیر خدا کی دوستی کو ترجیح دیتا ہو تو شرک کے علاوہ حرام بھی ہے۔ جس لیے وہ عذاب کا مستحق ہے۔ مثلاً کسی کے دل میں خدا سے زیادہ مال دنیا کی محبت، جس وجہ سے اس کے لئے ممکن نہیں ہو گا کہ حکم خدا کے مطابق واجبات مالی ادا کرے۔ کسی نے حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق ع سے اس آیہ مبارکہ کے معنی دریافت کیے:

يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى ٱللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (شعرا ۔ 88,89 )
قیامت کے دن مال و اولاد فائدہ نہیں دیں گے, مگر یہ کہ خدا کے حضور قلب سلیم لے کر حاضر ہو۔
آپ ع نے فرمایا: سالم دل وہ ہے کہ جب اللہ سے ملاقات کرے تو اس کے سوا اور دوسرے کی محبت اس میں نہ پائے۔ ہر وہ دل جس میں شرک اور شک ہو وہ ساقط یعنی ہلاکت کے قابل ہے۔ (اصول کافی)
حضرت امام جعفر صادق ع نے فرمایا:
کسی شخص کا ایمان بخدا خالص نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے نفس، عزیز، ماں باپ، اولاد، بیوی اور تمام لوگوں یا مال سے زیادہ محبت کرے۔ (سفینة البحار)

شکر منعم کے ساتھ شکر وسائط (ذرائع) بھی لازم ہے

نعمت دینے والے کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اگر کسی کے ذریعے خیر ورزق مل رہا ہے تو اس کی مدح اور شکر ادا کرنا لازم ہے لیکن اس نظر سے اس کا شکر وتعریف کرنا جائز نہیں کہ وہ مستقلاً مصدر خیرورحمت ہے بلکہ اس لحاظ سے سزاوار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے خیرورحمت پہنچانے کا وسیلہ قرار دیا ہے اور پروردگارعالم کے حکم سے وہ فراہم کرتا ہے اس لیے اگر کسی کے توسط سے خیر ملے تو اس کا شکریہ ادا کرے جیسا کہ معصوم کی طرف سے تاکید ہے

جس نے (منعم مجازی یعنی) مخلوق کا شکریہ ادا نہیں کیا گویا وہ اپنے خالق (منعم حقیقی) کا شکر بجا نہیں لایا۔ (بحارالانوار)
تمہارے درمیان سب سے زیادہ اللہ کا شکر گذار وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ لوگوں کا ممنون ہو۔ (سفینة البحار)

مخلوق کی مدح میں پوشید ہ شرک

اس میں شک نہیں کہ اگر کسی نے مخلوق خدا کو مستقل طور پر خیر پہنچانے والا سمجھا تو شرک میں مبتلا ہوا۔ حضرت امام جعفر صادق ع سے تفسیر آیہ مبارکہ

وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِٱللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ (یوسف ۔ 106)
ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں
پوچھی گئی تو فرمایا کہ کوئی شخص کہے جائے اگر فلاں آدمی نہ ہوتا تو میں ہلاکت میں پڑتا۔ اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو فلاں چیز مجھے مل جاتی اور اس طرح کہا جائے اگر فلاں نہ ہوتے تو میرے بال بچّے تلف ہو جاتے اس قسم کی عبارتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ بولنے والے کے عقائد بھی ایسے ہیں۔ اگر حقیقت میں ایسا اعتقاد رکھتا ہے تو وہ مشرک ہے اس کے بعد آنحضرت نے فرمایا اگر کوئی یوں کہے : خداوندعالم نے فلاں آدمی کے ذریعے مجھ پر احسان نہ کیا ہوتا تو میں ہلاکت میں پڑتا تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ عین توحید ہے۔

چوتھا مقام ۔ اطاعت میں توحید اور شرک

مومن جبکہ یقین کے ساتھ جانتا ہو کہ اس کی الوہیّت اور ربوبیّت میں کوئی شریک نہیں تو عقل اور ایمان کی رو سے خدائے واحد کے علاوہ اور کسی کی فرمانبرداری نہیں کرتا, البتہ اگرخداخودکسی کو ولایت پرمتعین کرے اورمخلوق خداکے امورکامرجع ومرکزقرار دے تواس صورت میں وہ بھی لازماًواجب الاطاعت ہو گا کیونکہ وہ منصوب من اللہ ہے۔ جیسے قرآن میں ہے:

مَنْ یُّطع الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ (النساء ۔ 80)
جس نے رسول کی فرمانبرداری کی حقیقت میں اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی۔
مزید ارشاد ہو تا ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَأُو۟لِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ (النساء ۔  59 )
اے صاحبان ایمان ! خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں، ان کی اطاعت کرو۔

اولی الامر کون ہیں ؟

اولی الامر کا منصب صرف امراء و حکام ہی کے لیے مخصوص سمجھنا آیہ مذکورہ کے خلاف ہے کیونکہ اولی الامر کی اطاعت عین اطاعت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہے۔ اسی لیے( اَطیعوااُولی الامر منکم ) نہیں فرمایا، بلکہ تیسری مرتبہ اطیعوا کی تکرار کرنے کی بجائے واو عطف استعمال کیا گیا ہے۔ بایں معنی کہ اطاعت اولی الامر عین اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہے۔ دونوں ایک ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ حضرت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرح تمام اوامر میں اولی الامر کی اطاعت بھی واجب ہے۔ بلکہ اولی الامر خود رسول کی طرح ہے اور ہر قسم کے سہو و خطا سے پاک و معصوم ہے تاکہ مکمل اطمینان سے ان کی پیروی اور اطاعت کر سکیں۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ عصمت باطنی امر ہے اور لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہے۔ اس لیے اولی الامر کا تعین و انتخاب خدائے عالم الغیب اور اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) (ہی) کی جانب سے ہونا چاہیئے۔ (جیسے امام مہدی ع کا تعین ﷲ اور اس کے رسول ص کی طرف سے ہے)

پیغمبر اولی الامر کا بیان فرماتے ہیں

جناب جابر ابن عبداللہ انصاری سے یہ روایت منقول ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے پوچھا کہ میں خدائے تعالیٰ اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو جانتا ہوں مگر اولی الامر کو نہیں جانتا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: اے جابر! اولی الامر میرے بعد میرے خلفاء اور مسلمانوں کے آئمہ ہیں۔ ان میں سے پہلے علی ابن ابی طالب ع ہیں۔ ان کے بعد حسن ع، ان کے بعد حسین ع، ان کے بعد ان کے فرزند علی بن الحسین ع، ان کے بعد محمد بن علی ع،جن کا لقب توریت میں باقر ہے۔تمہاری ان سے ملاقات ہوگی تو ان کو میرا سلام کہنا، ان کے بعد جعفر ع، ان کے بعد موسیٰ ع، ان کے بعد علی ع، ان کے بعد محمد ع، ان کے بعد علی ع، ان کے بعد حسن ع، جب حجت ابن الحسن ع کا نام لیا تو فرمایا، وہ میرا ہم نام ہوگا اور اس کی کنیت میری کنیت ہوگی۔ وہ اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر حجت اور بقیةاللہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اُسے مشرق اور مغرب کا فاتح قرار دے گا۔ وہ اپنے پیرووں کے درمیان سے اس طرح غائب ہوں گے کہ غیبت کا زمانہ طولانی ہو نے کی بنأ پر لوگ ان کے وجود کی تصدیق نہیں کریں گے، مگر ایسے مومن کہ جن کا دل اللہ تعالیٰ نے آزمایا ہو۔

جابر کہتے ہیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! کیا شیعوں کو ان کی غیبت سے فائدہ ہوگا۔

فرمایا: جی ہاں۔ لوگ اس طرح فیض یاب ہوں گے جس طرح بادل کے پردے میں موجود سورج کی روشنی سے موجودات عالم بہرہ مند ہوتے ہیں۔

عادل مجتہد کی اطاعت

اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ غیبت امام ع کے زمانے میں جامع الشرائط فقیہہ کی اطاعت بھی واجب ہے۔ اسکی اطاعت عین اطاعت امام ہے۔کیونکہ وہ امام کی جانب سے منصوب ہے۔چنانچہ توقیع حضرت حجت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف میں لکھا ہوا ہے۔
فکرونظرسے اس شخص کی طرف دیکھوجوتم میں سے احادیث کوروایت کرتا ہے اورہمارے حلال وحرام کو دیکھتا ہے۔اورہمارے احکام کووہ جانتاہے۔پس تم اسکے حکم پرراضی ہوجاو۔بے شک اس شخص کومیں تمہاراحاکم قراردیتا ہوں۔ جب وہ ہمارے احکام کے بارے میں حکم صادرکرے تواسے قبول نہ کرنیوالایقینا حکم خدا کا استخفاف کرتا ہے۔اورہلکا شمارکرکے اسکی تردید وانکار کرتا ہے۔ ہمارے احکام سے روگردانی شرک بااللہ کی حدہے۔ (کتاب کافی)

حضرت امام حسن عسکری ع سے نقل کیا گیا ہے:
فقہا ء میں سے کوئی فقیہ ہونے کے علاوہ اپنے نفس کا نگران دین کا محافظ، خواہشات نفسانی کا مخالف اور ہر لحاظ سے اپنے مولا کا مطیع ہو تو ایسی صورت میں عوام کو اس کی پیروی (تقلید) کرنی چاہیئے۔  

بے عمل عالم پیروی کے قابل نہیں

دینی احکام اور شرعی مسئلہ مسائل دریافت کرنے کے لیے مال دنیا اور جاہ و جلال کے طلبگار عالم بے عمل کی طرف رجوع کرنا ممنوع ہے۔ حضرت امام جعفر صادق ع سے روایت ہے کہ:

جب تم کسی دنیا دوست عالم کو دیکھو تو اس کو دین دار نہ سمجھو۔ بے شک جو شخص جس چیز سے محبت رکھتا ہے اس کی حالت اور طبیعت اپنے محبوب جیسی ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت داؤد علیٰ نبیّنا ع پر وحی نازل فرمائی : اے داؤد ! میرے اور اپنے درمیان ایسے عالم کو واسطہ قرار نہ دو جو دنیا کی محبت میں مبتلا ہو۔ یہ تم کو میری محبت کے راستے سے روک دے گا۔ یقینا ایسے علماء میری بارگاہ تک آنے والے بندوں کا راستہ کاٹنے والے لُٹیرے ہیں۔ کم سے کم معاملہ جو ان کے ساتھ کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں اپنے ساتھ راز و نیاز کا شوق و شیرینی ان کے دلوں سے چھین لوں گا۔ (اصول کافی)

حضرت امام محمد باقر ع سے روایت ہے کہ اگر کوئی علماء کے ساتھ فخر کرنے یا بے وقوفوں کے ساتھ جھگڑنے یا ریاست ملحوظ رکھ کر لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کے لیے علم حاصل کرتا ہے تو اس نے اپنے ٹھہرنے کی جگہ کو آگ سے بھر دیا ہے۔

والد ین کی اطاعت بھی اطاعت خدا ہے

والدین کی اطاعت ان لوگوں کے مانند ہے جن کی فرما ں برداری عین اطاعت خدا ہے۔  لیکن ان کی اطاعت مشروط ہے، کہ وہ کسی حرام کا امرنہ کریں اورنہ واجب قطعی کی انجام دہی سے منع کریں۔اس صورت میں خدااوررسول کی اطاعت مقدم ہے۔چونکہ قرآن میں اس کے متعلق واضح بیان موجودہے:

وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ بِوَٰلِدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَإِن جَـٰهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِى مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَآ (العنکبوت ۔ 8)
ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے  ہاں اگر وه یہ کوشش کریں کہ آپ میرے ساتھ اسے شریک کرلیں جس کا آپ کو علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانیئے
والدین کوتکلیف دینا ازروئے قرآن حرام ہے۔ اس لیے اگرماں باپ کسی کام کی انجام دہی کاحکم دیں یامنع کریں مگربچے ان کی مرضی کے خلاف کام کریں تولازمی طورپرناراض ہوں گے اورانھیں تکلیف پہنچے گی۔ اس صورت میں ان کی اطاعت واجب ہے اورمخالفت حرام۔
لیکن اس صورت میں جبکہ ماں باپ کسی چیز کاحکم دیتے ہیں یاممانعت کرتے ہیں مگراولادکی عدم تعمیل سے ان کوتکلیف نہیں ہوتی نہ ناراض ہوتے ہیں۔کیونکہ ان کی نظر میں وہ چیز اتنی اہم نہیں۔اس صورت میں مخالفت حرام نہیں۔مثلاًوالدین اپنے فرزندکوسفرپرجانے سے روکتے ہیں لیکن وہ پھربھی وہ سفرپرجائے توناراض نہیں ہوتے اس لیے سفرمباح ہے۔اس کے برخلاف اس کی مسافرت ماں باپ کیلئے اذیت کاسبب بنتی ہوتویہ سفرمعصیت ہے۔نمازپوری پڑھی جائے اورروزہ بھی قصر نہیں ہو گا۔

شوہرسے بیوی کی اطاعت

جن افرادکی اطاعت بجا لانا خدا اوررسول کی اطاعت کے برابرسمجھاجاتاہے ان میں سے ایک شوہر کے حق میں بیوی کی اطاعت ہے۔ چنانچہ قرآن مجیدمیں ارشاد ہے:

ٱلرِّجَالُ قَوَّٰمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَآ أَنفَقُوا۟ مِنْ أَمْوَٰلِهِمْ ۚ فَٱلصَّـٰلِحَـٰتُ قَـٰنِتَـٰتٌ حَـٰفِظَـٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ ٱللَّهُ (النساء ۔ 34)
مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں، پس نیک فرمانبردار عورتین خاوند کی عدم موجودگی میں جس طرح خدا نے حفاظت کا حکم دیا ہے نگہداشت رکھنے والیاں ہیں  
حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
یہ جائز نہیں کہ بشر ایک دوسرے کو سجدہ کریں۔  اگر جائز ہوتا تو میں سب سے پہلے بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
تمکین یعنی ہم بستری کے بارے میں شوہر کی اطاعت کرنا فقہا کے نزدیک مسلّم واجب ہے اور گھر سے باہر جانے کے لیے بھی شوہر سے اجازت لینا واجب ہے۔ اگر چہ ماں باپ سے ملاقات یا ان کی عیادت کے لیے جانا ہو۔ اگر خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جائے تو واپسی تک آسمان و زمین میں رہنے والے فرشتے اور رحمت و غضب کے ملائکہ اس پر لعن کرتے ہیں۔ البتہ واجبات کی ادائیگی کے بارے میں شوہر سے اذن لینا لازم نہیں۔

پانچواں مقام ۔ عبادت میں توحید اور شرک

پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

وَٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا۟ بِهِۦ شَيْـًٔا (نساء ۔ 41)
اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ کرو۔
اگرعبادات خالص نہیں تومقرب درگاہ الہی ہونا تو درکناربندے کواپنے خالق سے اورزیادہ دورکردیتا ہے۔ قرآن میں اس موضوع سے متعلق بہت سی آیتیں موجود ہیں:
وَمَآ أُمِرُوٓا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ (البینه ۔ 5)
انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا  کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں
فَمَن كَانَ يَرْجُوا۟ لِقَآءَ رَبِّهِۦ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَـٰلِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِۦٓ أَحَدًۢا (کھف ۔ 110)
تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت  میں کسی کو بھی شریک نہ کرے

متعلقہ تحاریر