غیبت

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 15/06/2022 1431

کسی دوسرے کا چھپا ہوا عیب بیان کرنا کہ جس کے کھل جانے پر وہ رضامند نہ ہو, اور غیبت کرنے والا اسے ذلیل کرنے, اس میں عیب نکالنے, اس کی مذمت کرنے، اُسے گرانے کے لیے یا کسی اور غرض سے مثلاً تفریح کے لیے یا دلیل اور ثبوت دینے کے لیے یا ہمدردی کی خاطر دوسرے کا چھپا ہوا عیب بیان کرے تو یہی غیبت کا مصداق ہے اور گناہ کبیرہ ہے۔ ﷲ تعالی فرماتا ہے:

إِنَّ ٱلَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ ٱلْفَـٰحِشَةُ فِى ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْـَٔاخِرَةِ ۚ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (نور ۔ 19)
اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بےحیائی پھیلے ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔ اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے

امام جعفرصادق ع سے ابن ابی عمیر نے روایت کی ہے:

جو شخص کسی مومن کے بارے میں وہ سب کچھ کہہ دیتا ہے جو اس کی دونوں آنکھوں نے دیکھا اور دونوں کانوں نے سُنا ہے اس کا شمار ان لوگوں میں ہے جن کے بارے میں خدا نے فرمایا ہے جو لوگ مومنوں کے متعلق بُری باتیں آشکارا ہونا پسند کرتے ہیں ان کے لیے واقعی دردناک عذاب ہے۔

ایسی صورت میں جب کہ کہنے والا دوسرے کو ملامت اور اس کی مذمت کرتا ہے قطعی حرام ہے, چاہے اس کا غیبت میں شمار ہونا مشکوک ہو۔ کیونکہ اس قسم کا بیان مومن کی دل آزاری اور توہین کا سبب ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ (ھمزة ۔ 1)
خرابی ہے ہر طعنہ دینے والے عیب چننے والے کی

ہمزة چغل خور کو کہتے ہیں, اور لمزہ وہ ہے جو کسی کی پیٹھ پیچھے غیبت کرتا ہے۔ ویل بھی جہنم کا ایک درجہ ہے یا اس کا ایک کنواں ہے, اور سخت عذاب کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ حتی اگر مذمت اور توہین کی نیّت نہیں ہے اور مجبوراً مذمت ہو جاتی ہے, مثلاً کسی شخص کی ماں بدکردار تھی تو یہ تذکرہ کرنا بھی حرام ہے۔ چنانچہ دوسروں کے بارے میں نام رکھنے سے صاف صاف منع کیا گیا ہے:

وَلَا تَلْمِزُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا۟ بِٱلْأَلْقَـٰبِ ۖ بِئْسَ ٱلِٱسْمُ ٱلْفُسُوقُ بَعْدَ ٱلْإِيمَـٰنِ (حجرات ۔ 11)
اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام (رکھنا) گناہ ہے
وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ (حجرات ۔ 12)
اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے

رسول خدا فرماتے ہیں:

غیبت یہ ہے کہ تو اپنے دینی بھائی کی کسی بُری یا کریہہ بات کا ذکر کرے۔ (مکاسب)

امام جعفرصادق ع فرماتے ہیں:

غیبت یہ ہے کہ تُو اپنے دینی بھائی کا وہ عیب بیان کرے جسے خدا نے چھپا رکھا ہے۔ (مکاسب)

امام موسیٰ کاظم ع فرماتے ہیں:

جو کوئی کسی غیر حاضر شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات کہے جو اس میں موجود ہے اور لوگ بھی اس سے واقف ہیں تو وہ غیبت نہیں ہے۔ البتہ اگر ایسی بات کہے جو اس میں موجود ہے لیکن لوگ نہیں جانتے تو گویا اس نے اس کی غیبت کی اور اگر کوئی ایسی بات کہے جو اس میں ہے ہی نہیں تو پھر اس نے اس پر بہتان باندھا ہے۔ (مکاسب)

غیبت کی مذمت میں اہل بیت (علیھم السلام) کی روایات

رسول خدا سے روایت ہے:

غیبت کا گناہ زنا سے بھی بدتر ہے کیونکہ زنا کرنے والا اگر توبہ کر لیتا ہے تو خدا اسے بخش دیتا ہے لیکن غیبت کرنے والے کو نہیں بخشتا جب تک کہ وہ شخص جس کی اس نے غیبت کی ہے اسے معاف نہیں کر دیتا۔
جو کسی مومن کی غیبت کرتا ہے اور وہی بُرائی بیان کرتا ہے جو اس میں موجود ہے پھر بھی خدا اس شخص کو اور اس مومن کو بہشت میں اکٹھا نہیں کرے گا, اور جو شخص مومن کے پیٹھ پیچھے اس کی وہ بُرائی بیان کرتا ہے جو اس میں نہیں ہے تو دونوں میں جو دین کی پاکیزگی ہے وہ پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔ پھر غیبت کرنے والا اس مومن سے الگ ہو جائے گا اور ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جہنم بُری جگہ ہے۔
جو شخص لوگوں کی غیبت کر کے ان کا گوشت کھاتا ہے اگر اس نے یہ سوچا کہ وہ حلال زادہ ہے تو غلط سوچا۔ غیبت سے بچو کیونکہ یہ دوزخ کے کتوں کی غذا ہے۔
جو اپنے دینی بھائی کی غیبت کرنے کے لیے اور اس کا چھپا ہوا عیب فاش کرنے کے لیے سفر کرے گا وہ جو پہلا قدم اُٹھائے گا وہ اسے دوزخ میں پہنچا دے گا۔ (مکاسب محرّمہ)
غیبت کرنا کوڑھ کی بیماری سے زیادہ تیزی کے ساتھ ایک شخص کے دین پر اثر کرتا اور اسے اس کے دل سے ختم کر دیتا ہے۔ (اصول کافی)
ایک بندے کو قیامت میں حساب کتاب کے مقام پر لائیں گے اور اس کا اعمالنامہ اسے دیں گے۔ جب وہ اس میں وہ نیک کام جو اس نے دُنیا میں کیے تھے نہیں پائے گا تو کہے گا اے خدا! یہ اعمال نامہ تو میرا نہیں ہے کیونکہ مجھے اس میں اپنی نیکیاں نہیں ملتیں۔ تب اس سے کہا جائے گا تیرا خدا نہ غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے۔ تیری نیکیاں لوگوں کی تیرے غیبت کرنے کی وجہ سے مٹ گئیں۔ پھر دوسرے بندے کو لائیں گے اور اس کا اعمال نامہ اسے دیں گے۔ وہ اس میں وہ نیکیاں بھی دیکھے گا جو اس نے نہیں کی ہیں تو وہ کہے گا اے خدا! یہ نامہ اعمال میرا نہیں ہے کیونکہ اس میں جو یہ سب نیکیاں درج ہیں میں نے انجام نہیں دی ہیں۔ اس سے کہا جائے گا یہ فلاں شخص کی نیکیاں ہیں جس نے تیری غیبت کی تھی۔ اس کے بدلے میں اس کی نیکیاں تجھے بخش دی گئی ہیں۔

مکاسب میں روایت نقل کی گئی ہے کہ, غیبت کرنے والا اگر توبہ بھی کرے گا تو وہ آخری شخص ہو گا جو بہشت میں پہنچے گا اور جو توبہ کیے بغیر ہی مر جائے گا تو وہ پہلا شخص ہو گا جو دوزخ میں جائے گا۔ شہید ثانی حضرت امام جعفرصادق ع اور پیغمبر اکرم سے روایت کرتے ہیں:

کفر کے سب سے زیادہ قریب حالت یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے ایک لفظ سنتا ہے اور اسے اس لیے روک لیتا ہے کہ اس بات سے رسوا کرے۔ ایسے شخص کو آخرت میں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ (کشف الربیہ)

امام جعفرصادق ع فرماتے ہیں:

غیبت کرنا ہر مسلمان کے لیے حرام ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ غیبت نیکیوں کو اس طرح کھا جاتی ہے اور ختم کر ڈالتی ہے جس طرح آگ, لکڑی کو کھا کر ختم کر دیتی ہے۔ (اصول کافی)

امام حسن عسکری ع فرماتے ہیں:

تمہارا اپنے مومن بھائی کی غیبت کرنا مردار کھانے سے بھی بڑا حرام ہے۔ (مستدرک کتاب حج باب 132)

غیبت کی قسمیں

کسی کا عیب یا نقص بیان کرنے میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ نقص جسم کا ہے, یا خاندان کا, یا عادتوں کا، گفتگو کا ہے, یا عمل کا، دین کے متعلق ہے, یا دُنیا کے متعلق, یا خاص اس انسان سے متعلق ہے مثلاً لباس، گھر، سواری وغیرہ کا عیب۔ جسم سے متعلق غیبت یہ ہے کہ کوئی کہے کہ فلاں اعمش ہے (جس کی آنکھیں ہمیشہ ڈبڈبائی رہتی ہیں), یا بھینگا ہے, یا کانا ہے, گنجا ہے، لمبا، کالا, یا پتلا وغیرہ ہے۔ یعنی اس کی ایسی خصوصیات بیان کرے جن کو سن کر وہ ناخوش اور آزردہ ہو جائے۔

غیبت گالی بھی ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی کہ فلاں کا باپ بدکار یا بدذات یا کنجوس یا اوباش وغیرہ تھا۔ اور اخلاق کی غیبت یہ ہوتی ہے جیسے کہے کہ فلاں بداخلاق، کنجوس، مغرور یا ڈرپوک یا کمزور یا منافق یا چور یا ظالم ہے۔

دین سے متعلق کاموں کی غیبت یہ ہوتی ہے جیسے کوئی کہے کہ فلاں شخص جھوٹا یا شرابی یا نماز میں سست ہے۔ دُنیاوی کاموں کی غیبت یہ ہے جیسے کوئی کہے فلاں بے ادب ہے، ناشکرا ہے، اپنی اوقات نہیں پہچانتا، بکواسی یا پیٹو یا بہت سونے والا ہے۔ لباس کے متعلق مثلاً کوئی کہے کہ اس کا لباس میلا، پھٹا، پرانا، ڈھیلا ڈھالا، اٹنگا ہے۔ ایسے ہی اس کے متعلق دوسری باتوں میں بھی اگر اسے بُرائی سے اس طرح یاد کیا جائے کہ اسے اچھا نہ لگے بلکہ اس کی دل آزاری ہو تو یہ غیبت ہو گی۔

جاننا چاہیئے کہ غیبت میں کوئی فرق نہیں کہ دوسرے کا عیب زبان سے کھولا جائے, یا عمل سے, یا اشارے سے صاف صاف کہا جائے, یا ایسے کنائے سے جو سمجھ میں آ جائے۔ کبھی کبھی کنائے سے غیبت اور بھی بُری ہوتی ہے جیسے یہ کہا جائے الحمد للہ کہ خدا نے ہمیں حکومت کی ہوس یا ظالموں کی ہم نشینی یا دولت کا لالچ نہیں دیا۔ یا یہ کہا جائے حرص یا کنجوسی یا بے شرمی سے خدا کی پناہ، خدا ہمیں شیطان کی بُرائی سے بچائے, اور ان باتوں سے کنایہ اس شخص کی طرف ہو جو ان کاموں کا مرتکب ہوا ہے۔

اکثر ہوتا ہے کہ بعض دھوکے باز جب کسی کی غیبت کرنا چاہتے ہیں تو اس کی تعریف سے شروع کرتے ہیں کہ فلاں کتنا اچھا آدمی ہے, لیکن افسوس ہے کہ شیطان کے چکر میں آ گیا اور اب یوں ہو گیا ہے۔ کبھی منافقت سے دوسرے کے لیے غم وغصہ کا اظہار کرتے ہیں کہ افسوس مجھے کتنا صدمہ ہوا اور فلاں کے لیے میرا دل کتنا کڑھا جب اس سے یہ فعل سرزد ہوا۔ اگر سچ مچ کا دوست ہوتا اور اس کا غم کھاتا تو کبھی اس کا راز فاش نہ کرتا اور اس کی بُرائی نہ کرتا۔

ایک غیر معین شخص کی غیبت

غیبت اس صورت میں ہوتی ہے جبکہ کسی مخصوص شخص کی ہو, اور اگر کسی ایسے شخص کی غیبت ہو جس کا نام ونشان نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ مثلاً کوئی کہے میں نے ایک شخص کو دیکھا جو ایسا تھا اور ویسا تھا۔ البتہ جب چند لوگوں میں سے ایک غیر معین شخص کی غیبت کرے کہ فلاں شخص کا ایک بیٹا ایسا ہے تو یہ حرام ہے, کیونکہ اس طرح کہنے والے نے ان سب کو تکلیف دی اور آزار پہنچایا ہے اور اگر زیادہ لوگوں میں سے صرف ایک شخص کی غیبت کرے مثلاً کہے کہ ایک لاہوری یا ملتانی ایسا اور ویسا تھا تو یہ جائز ہے۔ اور اگر یہ بھی کہے کہ بعض لاہوریوں یا ملتانیوں میں فلاں عیب ہوتا ہے تو بھی جائز ہے, لیکن یہ کہے کہ تمام ملتانیوں یا لاہوریوں میں فلاں عیب ہوتا ہے تو اس میں شک نہیں ہے کہ یہ حرام ہے کیونکہ اس صورت میں اس شہر کے تمام باسیوں کی توہین ہوتی ہے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں شہر کے اکثر لوگوں میں یہ عیب پایا جاتا ہے تو یہ بات اختیار کے خلاف یعنی غیر محتاج بلکہ اس کے حرام ہونے میں زیادہ قوت اور امکان ہے۔

غیبت کا کفارہ اور توبہ

چونکہ غیبت کرنا گناہ کبیرہ ہے اس لیے اگر کسی نے ایسا کیا تو اس پر واجب ہے کہ فوراً اپنے کہے پر شرمندہ ہو۔ کیونکہ اس نے اپنے پروردگار کی مخالفت کی اور دل سے شرمندہ ہونے کے بعد زبان سے استغفار بھی کرے اور نیّت کرے کہ پھر ایسا گناہ نہیں کرے گا۔ چونکہ بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے اس کا غیبت کرنے والے پر حق پیدا ہو جاتا ہے اس لیے ممکن ہو تو اس سے معافی مانگ لے اور اپنے آپ سے راضی کر لے۔ اور جس طرح اس نے اس کی غیبت کی ہے اس کے مقابلے میں اسے نیکی سے یاد کرے تو بہتر ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے وہ مر چکا ہے یا اس کی پہنچ سے باہر ہے یا اس سے معافی مانگے سے اس کے دُور ہو جانے کا اندیشہ ہو مثلاً وہ غیبت کی باتوں سے بے خبر ہے اور ان کے سُننے سے ناخوش ہو جائے گا اور معافی مانگنے کی غرض پوری نہیں ہو سکے گی تو ایسے موقع پر اس کی مغفرت کی دعا کرنا چاہیئے اور خدا سے عرض کرنا چاہیئے کہ اے پروردگار! اس شخص کو راضی اور خوش کر دے جیسا کہ صحیفہ سجادیہ کی دعا 39 میں اور پیر کے دن کی دعا میں یہ بات بیان کی گئی ہے۔

غیبت کے جائز ہونے کے مواقع

فقہاء نے بعض موقعوں پر غیبت کرنے کو جائز سمجھا ہے۔ یہاں شیخ نے جو کچھ مکاسب میں فرمایا ہے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے:

1. اس شخص کی غیبت کرنا جس کا گناہ پوشیدہ نہیں, بلکہ ظاہر ہو۔ مثلاً کوچہ وبازار میں ہاتھ میں شراب کا پیالہ لیے کھلم کھلا پیتا پھرے۔ چنانچہ روایت میں ہے: جب کوئی گناہگار کھلم کھلا گناہ کرتا ہے اور کسی کا لحاظ نہیں کرتا تو اس کی غیبت حرام نہیں ہے۔

یہ بھی معلوم ہو جانا چاہیئے کہ کھلم کھلا گناہ کرنے والے کی غیبت اس صورت میں جائز ہے جبکہ اس نے خود اپنے گناہ کا اقرار کیا ہو۔ لیکن اگر وہ اپنے عمل کا کوئی صحیح عذر پیش کرے, اور اس عذر میں بظاہر کوئی نقصان یا خرابی نہ ہو, تو اس کی غیبت جائز نہیں ہے۔ مثلاً شراب کو دَوا کے طور پر اور بیماری کے علاج کی غرض سے پینے کا عذر کرتا ہے, اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں ایسے شخص کی تقلید میں ہوں جو شراب کو اس صورت میں جائز جانتا ہے۔ یا مثلاً رمضان کے مہینے میں کھانا کھانے کے لیے یہ عذر پیش کرتا ہے کہ میں مریض یا مسافر ہوں یا دوسرے قابل قبول عذر رکھتا ہے۔

2. مظلوم اگر اپنے آپ پر کیے گئے ظلم کو بیان کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ غیبت نہیں ہے البتہ احتیاط اس میں ہے کہ مظلومیت کا اظہار اس شخص کے سامنے کرے جس سے اسے انصاف کی اُمید ہو ۔ جیسا کہ خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے:

لَّا يُحِبُّ ٱللَّهُ ٱلْجَهْرَ بِٱلسُّوٓءِ مِنَ ٱلْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا (نساء ۔ 148)
خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو

مزید ارشاد ہوتا ہے:

وَلَمَنِ ٱنتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِۦ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ ۴۱ إِنَّمَا ٱلسَّبِيلُ عَلَى ٱلَّذِينَ يَظْلِمُونَ ٱلنَّاسَ وَيَبْغُونَ فِى ٱلْأَرْضِ بِغَيْرِ ٱلْحَقِّ ۚ أُو۟لَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (شوریٰ: 41, 42)
اور جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کے بعد انتقام لے تو ایسے لوگوں پر کچھ الزام نہیں۔ الزام تو ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کو تکلیف دینے والا عذاب ہوگا

3. مشورہ طلب کرنے والے کو نصیحت: جب کوئی مسلمان کسی ایسے معاملے میں, جو کسی مخصوص شخص کے ساتھ کرنا چاہتا ہے (جیسے لین دین یا رشتہ وغیرہ) کسی سے مشورہ کرتا ہے, اور جس سے مشورہ کیا جاتا ہے اور وہ اس مخصوص شخص کا کوئی ایسا عیب جانتا ہے, جو اگر بیان نہیں کرتا تو معاملہ طے ہو جائے گا, اور وہ مسلمان پریشانی میں پڑ جائے گا۔ چنانچہ درحقیقت اس کو یہ عیب نہ بتانا, نقصان میں پھنسانے اور اس کے ساتھ خیانت کرنے کے مترادف ہے۔ تو اس صورت میں اس شخص کا عیب بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

جاننا چاہیئے کہ اس مسئلے میں احتیاطاً دو باتوں کا لحاظ رکھنا چاہئے۔ ایک یہ کہ ایسی صورت میں اس شخص کا عیب بیان کرے جب نہ کہنے سے نقصان زیادہ ہو اور دوسرے یہ کہ اس شخص کے عیب کا ذکر کرنا اس وقت جائز ہے جب اس معاملے سے پیدا ہونے والی خرابی روکنے کے لیے اس عیب کا ذکر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ ہو۔ اگر اس عیب کا ذکر کیے بغیر ہی کام چل جائے تو پھر اسی پر اکتفا کرنا چاہیئے۔

4. نہی از منکر کی نیّت سے جب کہ اس کی تمام شرطیں پوری ہوتی ہوں غیبت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یعنی جب کسی مسلمان کا کوئی بُرا فعل دیکھے اور یہ سمجھے کہ اگر وہ اس کی غیبت کرتا ہے تو وہ اس کام کو ترک کر دے گا, تو یہ غیبت جائز ہے, لیکن اس صورت میں جب کہ اس کے بُرے فعل پر اس شخص کا اصرار جانتا ہے۔ البتہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس نے ترک کر دیا ہے تو اس کا ذکر جائز نہیں ہے۔ اسی طرح پچھلے قضیئے کے مانند غیبت کرنے کی خرابی اور اس بُرے فعل کی خرابی کا موازنہ کر لینا چاہیئے۔ اگر اس مسلمان کی بے عزتی کا نقصان اس بُرے فعل کے نقصان سے زیادہ ہے جس میں وہ مشغول ہے, تو اس کی غیبت کرنا جائز نہیں ہے, چاہے اسے اس بات کا یقین ہی ہو کہ غیبت کرنے سے وہ شخص اس گناہ کو ترک کر دے گا۔

اس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کسی مسلمان کا گناہ دیکھو تو اس کے صحیح ہونے ہی کا گمان کرو۔ اور اگر اس کا گناہ ہونا قطعی نظر آئے اور اسے صحیح سمجھا ہی نہ جا سکے, تو ایسی صورت میں جبکہ اس مسلمان نے وہ گناہ ترک کر دیا ہو اور اسے نہ دُہرایا ہو اس کے اس گناہ کا ذکر کرنا حرام ہے۔ اور اسی طرح اسے منع کرنا یا ملامت کرنا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ نہی از منکر کا مقصد ترک گناہ ہوتا ہے, اور جب کسی نے خود ہی گناہ ترک کر دیا ہو تو پھر اسے منع کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اور اگر اس نے گناہ ترک نہیں کیا بلکہ اس پر اصرار کرتا ہے, تو اس صورت میں چھپے ہوئے گناہ کو دوسرے کے سامنے کھولنا اور بیان کرنا حرام ہے۔ اسے نہی از منکر کی تمام شرطوں کے ساتھ گناہ سے روکنا چاہیئے اور اگر نہ رُکے اور یہ سمجھ میں آئے کہ اس کا گناہ دوسروں سے بیان کرنے پر یہ اسے ترک کر دے گا تو اس صورت میں اس کا گناہ بیان کرنا جائز ہے, لیکن شرط یہی ہے کہ گناہ کا ترک کرنا اس مسلمان کی آبرریزی اور رسوائی سے زیادہ اہم ہو۔

جو کچھ یہاں کہا گیا ہے اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ نہی از منکر کی خاطر مسلمان کی غیبت اسی صورت میں جائز ہے جب وہ مسلمان اس گناہ پر اصرار کرتا ہو, اور صرف منع کرنے سے باز نہ آتا ہو, اور اس گناہ کا نقصان اس کی آبروریزی اور رسوائی سے زیادہ ہو, اور یہ بھی معلوم ہو کہ اگر اس کی غبیت کی جائے گی تو وہ اس گناہ کو ترک کر دے گا۔ اگر ان چاروں شرطوں میں سے ایک بھی کم ہوئی, تو اس کی غیبت کرنا حرام ہے۔

5. ایسے شخص کا عیب کھولنا اور اس کی غیبت کرنا جو خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا ہے اور خدا کے دین میں بدعت کو رواج دینے والا ہے, تو اس خیال سے کہ لوگ اس سے دھوکا نہ کھائیں اور اس کے جال میں نہ پھنسیں۔

6. جس گناہگار نے کوئی روایت بیان کی ہو یا کسی بات کی گواہی دی ہو, اس نیت سے اس کی غیبت کرنا کہ لوگ اس کے گناہ سے واقف ہو جائیں اور اس کی بات کا اثر قبول نہ کریں۔

7. کسی کا ایسے عیب اور نقص سے ذکر کرنا جس سے وہ مشہور ومعروف ہو جیسے اعمش (جس کی بینائی کمزور ہو اور آنکھیں برابر ڈبڈبائی رہتی ہوں)، بھینگا، لنگڑا وغیرہ لیکن اس طرح کہ اس کا عیب بیان کرنا مقصود نہ ہو, بلکہ اسے صرف پہچنوانا منظور ہو, اور وہ شخص بھی ان القاب (ناموں) سے ناراض نہ ہو۔ ورنہ ان سے پرہیز کر کے کسی دوسری طرح اسے صرف پہچنواناچاہیئے۔

8. کسی ایسے شخص کی تردید (کاٹ) کرنا جو کسی خاندان سے یا نسل سے اپنے تعلق کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہو, کیونکہ نسلوں اور خاندانوں کی حفاظت, دعوے دار کی عزت کے نقصان پر مقدم ہے۔

9. کتاب کشف الریبہ میں بعض فقہاء سے نقل کیا گیا ہے جب دو آدمی کسی شخص کا گناہ دیکھیں اور اس کی غیر حاضر میں ایک دوسرے سے بیان کریں تو یہ جائز ہے۔ کیونکہ کہنے والا سُننے والے سے کوئی ایسی بات نہیں کہتا جو سُننے والے کی نظر سے چھپی ہوئی ہو, بلکہ جو بات دوسرے نے خود بھی دیکھی ہے, وہی دُہراتا ہے۔ اور شہید نے فرمایا ہے کہ ایسی بات چیت ترک کرنا خاص طور پر اس صورت میں بہتر ہے جب کہ یہ خیال ہو کہ سُننے والا اسے بھول چکا ہے یا یہ اندیشہ ہو کہ اصل واقعہ مشہور نہ ہو جائے۔

شیخ انصاری فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں کا اس گناہ کا ایک دوسرے سے بیان کرنا اگر اس شخص کی ملامت اور عیب جوئی کی خاطر ہو تو حرام ہے ورنہ جائز ہے۔

10. کلیہ یہ ہے کہ جس موقع پر کسی مومن کی غیبت کرنے میں اس کی رسوائی کے نقصان سے زیادہ فائدہ ہو جیسے اپنے معاملات میں گواہی دینا تو غیبت جائز ہے۔

غیبت سُننا بھی حرام ہے

جس طرح غیبت کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے اسی طرح غیبت سُننا بھی حرام ہے۔ پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں:

غیبت سُننے والا غیبت کرنے والے کے برابر ہے, اور غیبت پر کان دھرنے والا غیبت کرنے والوں میں سے ہے۔ (مستدرک الوسائل کتاب حج باب 136)
امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

کسی مسلمان کی غیبت کرنا کفر کے برابر ہے اور غیبت سننا اور اس سے خوش ہونا شرک کے برابر ہے۔ (کشف الریبہ)

ان روایتوں کو دیکھنے کے بعد جو مومن کی شان میں آئی ہیں، اس کے احترام کو کعبے سے بھی زیادہ اور اس کی آبروریزی کو اس کا خون بہانے کے برابر جانتی اور اس کا راز کھولنے کو دردناک عذاب کا سبب شمار کرتی ہیں, یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غیبت کا سب سے بڑا رکن اور مومن کی توہین کا سبب, سُننے والا شخص ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر سُننے والا نہ ہو یا نہ سُنے, تو غیبت نہیں ہوتی۔ اس لیے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ جب یہ دیکھے کہ کوئی شخص کسی مومن کا عیب بیان کر رہا ہے تو اسے نہ سنے بلکہ اس کو ٹوکے, اور اس مومن کی حمایت کرے۔

رسول خدا ص فرماتے ہیں:

جس کسی کے سامنے اس کے دینی بھائی کی غیبت ہو رہی ہو اور وہ حتی الامکان اس کی حمایت کرتا ہے تو خدا دُنیا اور آخرت میں اس کی مدد فرمائے گا, اور اگر اس نے امکان اور سکت کے باوجود اس کی حمایت نہیں کی تو خدا بھی اسے اس کے حال پر چھوڑ دے گا, اور دُنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا۔ (المجالس)
جو کوئی اپنے دینی بھائی کے ساتھ اس کی اس غیبت کے سلسلے میں جو کسی صحبت میں ہوتی ہے اس طرح نیکی کرتا ہے کہ اس غیبت کی تردید کرتا ہے تو خدا دُنیا اور آخرت کی ہزاروں قسم کی بُرائیاں اس سے دُور کر دے گا اور اگر وہ شخص امکان اور سکت کے باوجود غیبت کی تردید نہیں کرے گا تو اس کے گناہ غیبت کرنے والے کے گناہ سے ستر گنا زیادہ ہو جائیں گے۔

شیخ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس غیبت سُننے والے کے گناہ جس نے غیبت سن کر اس کو نہیں ٹوکا, خود غیبت کرنے والے سے بڑھ جانے کی وجہ یہ ہے کہ, اس کی یہ خاموشی یا پہلو تہی, مومن اور دوسروں کی غیبت کرنے کی لوگوں کو جرأت دلاتی ہے۔

پس اگر کوئی دُنیاوی عیب ہو تو کہے کہ یہ عیب نہیں ہے, بلکہ عیب وہ باتیں ہیں جنہیں خدا نے عیب قرار دیا ہے اور جن سے منع فرمایا ہے یعنی گناہ۔ اور اس میں اپنے بھائی سے ایسی بات منسوب کرنا بھی شامل ہے جس کو خدا نے عیب نہیں جانا ہے, یعنی تیرا غیبت کرنا عیب ہے۔ اور اگر وہ دینی عیب ہو مثلاً اگر کوئی مومن کا کوئی گناہ بیان کرتا ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ اس کی صحیح صحیح وجہ بیان کرے, یعنی اس کی صحیح توجیہ کرے اور اگر صحیح توجیہ ممکن نہ ہو تو کہے کہ مومن معصوم نہیں ہوتا, اس سے گناہ سرزد ہونا ممکن ہے, اس لیے اس کی مغفرت کی دعا کرنا چاہیئے, اسے ملامت یا رُسوا نہیں کرنا چاہیئے۔ ممکن ہے تیری ملامت اور تنبیہ اس مومن کے گناہ سے زیادہ ہو۔

دوزخ اور دو زبان

شیخ انصاری مکاسب میں غیبت کی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں: اگر غیبت کرنے والا ایسا ہو جو اس کے شخص کے منہ پر جس کی غیبت کر رہا ہے تعریفوں کے پل باندھ دیتا ہے لیکن پیٹھ پیچھے اس کے عیب بیان کرتا ہے تو اس کا عذاب دُگنا ہوتا ہے, اور شرع میں اسے ذواللسانین یعنی دو زبانوں والا کہا جاتا ہے, اور اس صورت میں غیبت سخت حرام ہو جاتی ہے۔ روایتوں میں کہا گیا ہے کہ ایسا شخص جب قیامت میں آئے گا تو اس کے منہ سے آگ کی دو زبانیں لٹکتی ہوں گی۔ (مکاسب)

متعلقہ تحاریر