امام حسین ع - فضیلتوں کے نمونے

فضیلتوں کے نمونے 08/07/2025 15

امام حسین ع 3 یا 5 شعبان 4ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حضرت علی ابن ابی طالب اور مادر گرامی جناب فاطمہ زہرا بنت رسول تھیں۔ آپ کی کنیت: ابو عبد الله اور القاب: رشید، طیب ، سید، سبط، وفی اور مبارک تھے۔ آپ کی ولادت کے وقت جبرئیل امین مبارک باد دینے کے لئے خدمت پیغمبر میں حاضر ہوئے اور خدا کی طرف سے یہ پیغام لائے کہ ان کا نام حسین ع رکھیں پیغمبر اسلام نے داہنے کان میں اذان کہی اور بائیں کان میں اقامت کہی ساتویں دن دو گوسفند آپ کے عقیقہ کے لئے ذبح کئے اور ان کا گوشت فقراء میں تقسیم کیا۔

امام حسین ع نے بعض اقوال کی بنیاد پر اس دنیا میں 56 سال چند مہینے زندگی بسر کی جس میں چھ سال چند مہینہ اپنے جد پیغمبر اسلام کے ہمراہ رہے ان کی وفات کے بعد اپنے والد ماجد حضرت علی کے ہمراہ زندگی بسر کی- مولائے کائنات کی شہادت کے بعد دس سال اپنے بھائی کی امامت میں آپ کے ساتھ رہے اور 50ھ میں ان کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔ روز عاشورہ 61ھ میں میدان کربلا میں جام شہادت نوش فرمایا- آپ کا جسم اطہر کر بلائے معلی ہی میں سپرد خاک کیا گیا ہے۔

امامت کی دلیلیں

پیغمر اسلام نے متعدد احادیث میں امام حسن ع اور امام حسین ع کی امامت کا تذکرہ کیا ہے- آپ ص نے امام حسن ع اور امام حسین ع کے بارے میں فرمایا:

میرے دونوں بیٹے امام ہیں چاہے قیام کریں یا خاموشی اختیار کریں۔

اس کے علاوہ امام حسن ع نے بھی اپنی شہادت کے وقت آپ کی امامت کا اعلان کیا۔ امام جعفر صادق نے ایک حدیث میں فرمایا, حسن ابن علی نے اپنی شہادت کے وقت اپنے بھائی محمد حنفیہ کو بلایا اور فرمایا:

کیا تمہیں نہیں معلوم ہے کہ میری شہادت کے بعد حسین ابن علی ع امام ہوں گے ان کی امامت خداوند عالم کی مرضی سے ہے اور پیغمبر اسلام نے اس کے بارے میں واضح طور پر بیان کیا ہے اور خداوند عالم جانتا ہے کہ تم اہل بیت خدا کے بہترین بندے ہو حضرت محمد کو خداوند عالم نے نبوت کے لئے منتخب کیا ہے انھوں نے امامت کے لئے حضرت علی کو معین کیا میرے والد حضرت علی نے میری امامت کا اعلان کیا اور میں نے امامت کے لئے حسین ع کو منتخب کیا۔ محمد ابن حنفیہ نے عرض کیا: بھائی آپ ہمارے امام ہیں آپ اپنی ذمہ داری پر عمل کریں۔

علی ابن یونس عالی نے کتاب صراط مستقیم میں لکھا ہے: امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب نے اپنے فرزند امام حسین ع کی امامت کا تذکرہ اسی طرح کیا تھا جس طرح امام حسن ع کی امامت کا تذکرہ کیا تھا- شیعوں نے روایت کی ہے کہ امام حسن ع نے اپنی شہادت کے وقت امام حسین ع کو امام منتخب کیا نبوت کی امانتیں اور امامت کے اسرار آپ کے حوالہ کئے۔ اور شیعوں کو ان کی امامت سے آگاہ کر دیا اور ان کو اپنے بعد پر چم ہدایت قرار دیا اور یہ ایک واضح اور مشہور امر ہے جو کسی سے بھی مخفی نہیں ہے۔

مسعودی نے اثبات الوصیہ میں لکھا: جس وقت امام حسن ع ع بیمار ہوئے ان کے بھائی ابوعبد الله امام حسین ع ان کے پاس حاضر ہوئے دونوں میں گفتگو ہوئی- امام حسن ع نے اپنے بھائی امام حسین ع کو اپنا ہی قرار دیا ان کو اسم اعظم کی تعلیم دی انبیاء کی میراث اور امیر المومنین کی وصیت ان کے حوالہ کی۔

محمد حنفیہ نے امام زین العابدین سے عرض کیا کہ آپ کو معلوم ہے کہ رسول خدا نے اپنی وصیت اور اپنے بعد کی امامت امیر المومنین کے حوالہ کی تھی اور انھوں نے یہ عہد امام حسن ع اور امام حسین ع کے حوالہ کیا تھا۔

امام حسین ع کے فضائل

پیغمبر اسلام ص نے فرمایا:

حسین ع مجھ سے ہے اور میں حسین ع سے ہوں جو حسین ع کو دوست رکھتا ہے خدا اس کو دوست رکھتا ہے۔
جو زمین اور آسمان میں لوگوں کے سب سے زیادہ محبوب انسان کی طرف دیکھنا چاہے وہ حسین ع کی طرف دیکھے۔
حسن و حسین ع میرے اور اپنے پدر بزرگوار کے بعد زمین پر سب سے افضل ہیں اور ان کی ماں دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر ہیں۔
حسن و حسین ع دو پھول ہیں-
حسن و حسین ع جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والد ان سے افضل ہیں۔
خدا نے حسین ع کو جو فضیات عطا کی ہے وہ کسی آدمی کو نہیں دی سوائے یوسف ابن یعقوب کے۔

حذیفہ یمانی کا بیان ہے، میں نے پیغمبر اسلام کو دیکھا وہ حسین ع کا ہاتھ پکڑے ہوئے فرما رہے تھے:

اے لوگو یہ حسین ابن علی ع ہیں ان کو پہچان لوخدا کی قسم وہ جنت میں ہوں گے اور ان کے دوست اور دوستوں کے دوست بھی جنت میں ہوں گے۔

امام حسین ع کی عبادت و بندگی

امام حسین ع سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں خدا سے اس قدر خوفزدہ ہیں تو آپ نے فرمایا: قیامت کی سخت منزلوں سے کسی کو امان نہیں ہے سوائے اس شخص کے جو خدا سے ڈرتا ہو۔

عبد اللہ ابن عبید کا بیان ہے: امام حسین ع نے ۲۵ حج پیدل کئے جب کہ آپ کے پاس سواری کا جانور موجود تھا۔

امام زین العابدین سے عرض کیا گیا کیوں آپ کے بابا کے فرزندوں کی تعداد اتنی کم ہے تو آپ نے فرمایا: مجھے ان کے ذریعہ خود اپنی ولادت پر تعجب ہے اس لئے کہ وہ ہر شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔

راوی کا بیان ہے کہ میں نے حسن و حسین ع کو دیکھا کہ آپ حج کے لئے پیدل تشریف لے جا رہے ہیں, جو سواران کے پاس سے نکلتا ہے اپنی سواری سے اتر جاتا ہے اور ان کے ساتھ پیدل چلتے لگتا ہے- ان میں سے بعض کے لئے پیدل چلنا مشکل تھا- انھوں نے سعد ابن ابی وقاص سے کہا ہمارے لئے پیدل چلنا مشکل ہے لیکن اچھا نہیں لگتا کہ یہ دونوں بزرگ سید پیدل چلیں اور ہم سوار ہو کر چلیں- سعد نے یہ بات امام حسن ع تک پہونچا دی اور عرض کیا کہ کاش آپ لوگ ایسے لوگوں کی حالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی سواری پر سوار ہو جاتے- امام حسین ع نے جواب دیا کہ ہم سوار نہیں ہو سکتے اس لئے کہ ہم نے یہ عہد کیا ہے پیدل حج کریں گے لیکن دوسرے مسافروں کا خیال رکھتے ہوئے ہم اس راستہ سے الگ ہو جائیں گے- یہ کہہ کے وہ دونوں حضرات اس راستہ سے دور ہو گئے۔

حسن سلوک اور راہ خدا میں خرچ کرنا

امام حسین ع، اسامہ ابن زید کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اسامہ بیمار تھے اور کہ رہے تھے, واغماہ- امام نے ان سے فرمایا: بھائی آپ کو کیا غم ہے انھوں نے عرض کیا اے فرزند رسول میرے اوپر ساٹھ ہزار درہم کا قرض ہے میں ڈر رہا ہوں کہ ایسا نہ ہو کہ کہیں میں مر جاؤں اور میرے او پر قرض کا بوجھ رہ جائے- امام نے ان سے فرمایا: پریشان نہ ہو تمہاری موت سے پہلے ہی میں تمہارا قرض ادا کر دوں گا اور آپ نے ایساہی کیا۔

شعیب ابن عبد الرحمن کا بیان ہے: امام حسین ع کی شہادت کے بعد آپ کی دوش مبارک پر کچھ نشانات دیکھے گئے- امام سجاد ع سے ان کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا, یہ نشانات کھانے کے اس بوجھ کے ہیں جو میرے والد بیواؤں، یتیموں اور غریبوں کے یہاں پہونچایا کرتے تھے۔

امام حسین ع سے روایت ہے ہے کہ آپ نے فرمایا پیغمر اسلام کے اس قول کا صحیح ہونا میرے نزدیک ثابت ہو چکا ہے کہ نماز کے بعد سب سے اہم عمل مؤمن کے دل کو خوش کرنا ہے البتہ اس طرح کہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔

ایک دن آپ نے ایک غلام کو دیکھا کہ ایک کتے کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا- ایک نوالہ خود کھاتا تھا اور ایک نوالہ کتے کے سامنے ڈال دیتا تھا- آپ نے اس غلام سے اس کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا۔ اے فرزند رسول میں بہت غمزدہ ہوں اس کتے کو خوش کر رہا ہوں شاید خداوند عالم مجھے بھی خوش کردے- میرا مالک ایک یہودی ہے میں اس سے چھٹکارا چاہتا ہوں۔ امام حسین ع اس غلام کے مالک کے یہاں تشریف لے گئے, اور اس غلام کے عوض دو سو دینار اس یہودی کو دئیے- اس یہودی نے عرض کیا یہ غلام آپ کے قدموں پر نثار کہ آپ یہاں تشریف لائے, میں نے یہ زراعت بھی اسے بخش دی- یہ دو سو دینار بھی آپ رکھ لیجئے- امام حسین ع نے فرمایا: میں نے تمہارا ہدیہ قبول کرلیا اور سب کچھ غلام کو عطا کر کے اس کو آزاد کر دیا۔ اس یہودی کی زوجہ جو یہ منظر دیکھ رہی تھی اس نے کہا میں اسلام لاتی ہوں اور اپنا مہر معاف کئے دیتی ہوں- اس یہودی مرد نے کہا میں بھی مسلمان ہو گیا اور وہ گھراپنی زوجہ کو عطا کر دیا۔

انس کا بیان ہے, میں حسین بن علی ع کے پاس تھا ایک کنیز آپ کے پاس آئی اور آپ کی خدمت میں پھولوں کی ایک شاخ پیش کی۔ امام نے کنیز سے کہا, تمہیں راہ خدا میں آزاد کیا۔ اس نے عرض کیا کہ فرزند رسول پھولوں کی یہ شاخ اتنی قیمتی تو نہیں تھی کہ آپ نے اس کے بدلہ اس کنیز کو آزاد کر دیا۔ آپ نے فرمایا خدا نے مجھے اسی طرح کی تعلیم دی ہے۔ اس نے فرمایا ہے, وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍۢ فَحَيُّوا۟ بِأَحْسَنَ مِنْهَآ أَوْ رُدُّوهَآ (نساء – 86) پھولوں کی شاخ سے بہتر اس کو آزاد کرنا تھا۔

امام حسین ع کے ایک غلام سے کچھ غلطی ہوگئی جس کی اسے سزا ملنا چاہئے تھی۔ اس غلام نے جب یہ محسوس کیا کہ اسے سزا ملے گی تو عرض کیا اے میرے مولا, والكاظمين الغيظ, امام نے فرمایا میں نے بخش دیا۔ اس نے عرض کیا مولا والعافين عن الناس,حضرت نے فرمایا میں نے تجھے معاف کر دیا۔ اس نے عرض کیا: والله يحب المحسنين,حضرت نے فرمایا تجھے راہ خدا میں آزاد کر دیا اور جتنا تجھے عطا ہو چکا ہے اس سے دوگنا اور دیا جائے گا۔

ایک دیہاتی عرب امام حسین ع کی خدمت میں آیا اور عرض کیا فرزند رسول پوری دیت کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور میں اس کو ادا کرنے سے عاجز ہوں۔ میں نے یہ طے کیا ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ کریم شخص سے اس کا مطالبہ کروں گا اور میری نظروں میں اہل بیت رسول سے زیادہ کریم کوئی نہیں ہے۔ امام حسین ع نے فرمایا میں تجھ سے تین سوال کروں گا اگر تم ان میں سے ایک کا جواب دو گے تو تیرے مطالبہ کا ایک تہائی عطا کروں گا- اگر دو سوالوں کا جواب دے گا تو دو تہائی دوں گا اور اگر تینوں سوالوں کا جواب دیا تو سارا مال عطا کر دوں گا۔ اس اعرابی نے عرض کیا کہ کیا فرزند رسول آپ جیسی عظیم شخصیت اتنے علم و فضل کے باوجود مجھے جیسے شخص سے سوال کرے؟ امام نے فرمایا ہاں میں نے اپنے جد رسول خدا سے سنا ہے, المعروف بقدر المعرفة- اس اعرابی نے عرض کیا: آپ سوال کیجئے اگر معلوم ہوگا تو بتادوں گا ورنہ آپ سے معلوم کرلوں گا, لا و لا حول و لا قوة الا بالله

امام حسین ع نے اس سے دریافت کیا سب سے بہتر عمل کیا ہے؟ اس نے جواب دیا خدا پر ایمان-

امام نے پو چھا ہلاکتوں سے نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ اس نے عرض کیا: خدا پر اعتماد کرنا۔

امام نے سوال کیا انسان کی زینت کیا ہے؟ اس نے جواب دیا وہ علم جس کے ساتھ صبر ہو۔ امام نے فرمایا اگر یہ نہ ہو۔ اس نے عرض کیا، تو وہ مال جو انصاف اور جوانمردی کے ساتھ ہو۔ امام نے فرمایا اگر یہ بھی نہ ہو تو کون سی چیز زینت ہے؟ اس نے عرض کیا وہ فقر و تنگدستی جس کے ساتھ صبر ہو۔ امام نے پو چھا اگر یہ بھی نہ ہو تو۔ اس شخص نے عرض کیا کہ اس صورت میں چاہئے کہ آسمان سے ایک بجلی گرے اور اس کو جلا دے۔

امام حسین ع ہنسے اور اس کو ایک ہزار دینار عطا کر دیئے اور اپنی انگوٹھی جس کی قیمت دو سو درہم تھی اس کو عطا کر کے فرمایا اس پیسہ سے اپنا قرض ادا کرو اور اس انگوٹھی کو بیچ کر اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کا سامان فراہم کرو- اس اعرابی نے پیسہ اور انگوٹھی لے کر عرض کیا, خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں قرار دے۔

امام حسین ع اپنے بھائی کے بعد

امام حسن ع 28 صفر 49 ھ میں شہید ہوئے اور امام حسین ع اسی دن سے اپنے جد پیغمبر اسلام, اپنے والد مولائے کائنات اور اپنے بھائی امام حسن ع کے ارشادات اور وصیتوں کی روشنی میں منصب امامت و خلافت پر فائز ہوئے- آپ کی حکومت اور خلافت کے لئے ماحول کو سازگار بنانے کی ذمہ داری تمام لوگوں پرتھی, لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوا اس لئے کہ ایک طرف مولائے کائنات اور بنی ہاشم کے خلاف معاویہ کی وسیع تبلیغات تھیں تو دوسری طرف اسلامی ممالک میں معاویہ کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اس کی طرف سے سماج کی سربرآوردہ شخصیتوں کو بڑے بڑے تھے تحائف دیئے جانے کی وجہ سے کسی میں اس کی مخالفت کی ہمت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ معاویہ اور امام حسن ع کے درمیان صلح نامے میں طے ہو چکا تھا کہ معاویہ اپنے بعد کسی کو اپنا ولی عہد نہیں بنائے گا اور خلیفہ کا انتخاب لوگوں کے اوپر چھوڑ دے گا, جو کہ امیر المومنین حضرت علی کے طرفداروں کے لئے امید کی ایک کرن تھی- لہذا امام حسین ع نے مصلحت یہی جانی کہ اپنے بھائی کی صلح پر پابند رہا جائے اور اپنے شرعی حق کے مطالبہ کے لئے فی الحال کسی طرح سخت اقدام نہ کیا جائے بلکہ اس کے لئے کسی مناسب موقع کا انتظار کیا جائے اس لئے آپ نے عراق کے بعض شیعوں کے اس مطالبہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جن میں انھوں نے چاہا تھا کہ معادیہ کو معزول کر کے اپنا جائز حق حاصل کرنے لئے قیام کریں اس طرح دس سال گذر گئے یہاں تک نیمہ رجب 60 ھ کو معاوی دنیا سے رخصت ہو گیا۔ معاویہ کی موت کے بعد حالات بدل گئے ایسے حالات میں امام حسین ع اور آپ کے حامیوں کو یہ امید نظر آئی کہ شاید بنی امیہ کی حکومت کو ختم کر کے علوی طرز کی حکومت قائم کرنے کے حالات فراہم ہو جائیں اس لئے کہ:

  1. ایک طرف صلح نامہ کی مدت تمام ہو چکی ہے اور اب امام حسین ع پر اس کی پابندی ضروری نہیں رہ گئی ہے۔
  2. دوسری طرف معاویہ نے صلح نامہ کے مطابق یہ عہد کیا تھا کہ اپنے بعد اپنا جانشین معین نہیں کرے گا, لیکن معاویہ نے اپنے اس عہد پر عمل نہیں کیا اور اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین بنا دیا- اس معاہدہ کی خلاف ورزی کا سب کو علم تھا اور وہ اس سے ناراض تھے۔
  3. تیسرے یہ کہ معاویہ نے یہ عہد کیا تھا کہ امیر المومنین حضرت علی پر لعنت کو بند کر دے گا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔
  4. معاویہ نے عہد کیا تھا کہ قرآن اور سنت رسول کے مطابق عمل کرے گا اور اس نے اپنے اس عہد کی بھی خلاف ورزی کی۔
  5. یزید، جس کو معاویہ نے اپنا جانشین بنایا تھا وہ حکومت کے تجربہ سے بالکل بے بہرہ, فسق و فجور اور شراب نوشی میں مشہور ایک نوجوان تھا, ایسے شخص کو خلافت رسول کا حقدار قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔

لہذا یزید کی بیعت اور اس کی حکومت کی تائید آپ کی نظر میں کسی طرح بھی صحیح نہیں تھی۔

واقعه عاشوراء

عاشور کا واقعہ تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کا سب سے درد ناک واقعہ ہے اس درد ناک واقعہ میں فرزند رسول امام حسین ع کو آپ کے تمام فضائل و کمالات اور آپ کے بارے میں پیغمبر اسلام کی بیحد تاکید کے باوجود آپ کی اولاد اور دوسرے اعزاء, اقرباء، انصار کے ساتھ اس شخص کے حکم سے شہید کر دیا گیا جو خود کو رسول اکرم کا خلیفہ اور جانشین سجھتا تھا وہ بھی ایسی بے رحمی کے ساتھ جس نے انسانی تاریخ کے چہرہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داغدار بنا دیا۔

امام حسین ع کو دارالامارہ میں بلایا جانا

معاویہ کی موت کے بعد اس کا بیٹا اس کی جگہ تخت حکومت پر بیٹھا اور اس نے مدینہ میں اپنے حاکم ولید ابن عتبہ کو خط لکھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو حسین ابن علی ع سے میری بیعت لے لو جب یہ خط کو ملا تو اس نے امام حسین ع کو دارالامارہ میں بلایا اور آپ کو معاویہ کی موت کی خبر سے آگاہ کرنے کے بعد آپ سے مطالبہ کیا کہ یزید کی بیعت کریں- امام نے اس سلسلہ میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی مہلت چاہی- آپ کی اس پیش کش کو قبول کر لیا گیا اور امام وہاں سے باہر نکل آئے- آپ یزید کی بیعت کر کے کسی طرح بھی اس کی حکومت کی تائید نہیں کر سکتے تھے اس لئے کہ اس کو اس خلافت کے لائق ہرگز نہیں سمجھتے تھے۔ دوسرے دن مروان ابن حکم نے مدینہ کی گلی میں امام حسین ع کو دیکھا اور آپ سے کہا کہ میں آپ کی بھلائی چاہتا ہوں- یزید کی بیعت میں آپ کی دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی ہے لہذا میری بات مانیں اور یزید کی بیعت کر لیں۔ امام حسین ع نے فرمایا:

میں اس دن سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں جس دن امت اسلام یزید جیسے خلیفہ کی خلافت میں مبتلا ہو- میں نے اپنے جد رسول خدا ص سے سنا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے, "حکومت آل ابوسفیان پر حرام ہے"۔

دوسرے دن دوبارہ ولید نے امام حسین ع کو بلوایا اور مزید تاکید کے ساتھ اپنی بیعت کا مطالبہ دہرایا اور اس سلسلہ میں اپنی خیر خواہی کا اظہار کیا- امام پھر مہلت لے کر دار الامارہ سے باہر چلے گئے۔ امام حسین ع کا ارادہ یزید کی بیعت کرنے کا نہیں تھا لہذا آپ نے امت کی بھلائی اس میں دیکھی کہ مدینہ سے چلے جائیں- آپ کے بھائی محمد حنفیہ کو آپ کا یہ فیصلہ معلوم ہوا تو انھوں نے عرض کیا اگر یزید کی بیعت کرنا نہیں چاہتے تو مکہ یا یمن چلے جائیں- کسی دوسرے شہر جانے میں مصلحت نہیں ہے۔ امام حسین ع نے فرمایا: اگر کوئی پناہ گاہ اور کوئی منزل نہ ہوتی تب بھی یزید کی بیعت نہ کرتا۔

امام کی وصیت اور مدینہ سے نکلنا

امام نے محمد ابن حنفیہ سے فرمایا: آپ مدینہ میں رہیں اور ہم کو یہاں کے حالات سے باخبر کرتے رہیں۔ امام نے ان کے نام اس طرح کا خط لکھا:

خدائے رحمن و رحیم کے نام سے، یہ حسین ابن علی ع کی اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ سے وصیت ہے:
میں گواہی دیتا ہوں خدائے وحدہ لاشریک کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول اور اس کے بندہ ہیں, اور وہ خدا کی طرف سے حق کو لائے ہیں, اور جنت و جہنم حق ہے اور قیامت آنے میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں ہے اور مردے حساب و کتاب اور جزاء وسزا کے لئے دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔ میرا اس سفر پر نکلنا سرکشی تکبر اور زندگی کے راحت و آرام کے لئے نہیں ہے- میں فساد یا ظلم کے لئے نہیں نکل رہا ہوں بلکہ میرا مقصد اپنے جد کی امت کی اصلاح ہے- میرا ارادہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں اور اپنے جد رسول خدا اور اپنے بابا امیر المومنین کی سیرت کو زندہ کروں- جو میرے حق کو قبول کرے گا خدا اس کے حق کو قبول کرے گا اور جو حق کو ماننے سے انکار کرے گا میں صبر کروں گا یہاں تک کہ خدا میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دے- خدا بہترین فیصلہ کرنے والا ہے- بھائی یہ آپ سے میری وصیت ہے- مجھے خدا نے توفیق دی ہے- میں اس پر بھروسہ کر کے اس کی طرف جارہا ہوں۔

امام حسین ع اپنے جد رسول خدا اپنی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ زہرا اور اپنے بھائی امام حسن ع کی قبر سے سے وداع ہوئے 3 شعبان یا 28 رجب 60 ھ کی رات مدینہ سے مکہ کا سفر کیا۔ آپ کے گھر والے آپ کی اولاد آپ کے بھائی بھتیجے، بہنیں، بھانجے اور چچازاد بھائی اور اکثر اہل بیت اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔

امام حسین ع کا یہ قافلہ تیزی سے سفر کرتا ہوا چند دن کے بعد مکہ پہونچ گیا- عبداللہ بن زبیر جو پہلے ہی مکہ پہونچ کر حرم میں پناہ لے چکے تھے اور اس بات کے منتظر تھے کہ لوگ ان کی بیعت کر لیں, امام حسین ع کے وہاں پہونچنے سے پریشان ہوئے, اس لئے کہ ان کو معلوم تھا امام حسین ع کے ہوتے ہوئے کوئی ان کی بیعت نہیں کرے گا۔ مکہ کے لوگوں اور خانہ خدا کی زیارت کے لئے آئے ہوئے افراد کو جب امام حسین ع کی آمد کا علم ہوا تو وہ آپ کے گھر آنے جانے لگے امام حسین ع پورے شعبان، رمضان ، شوال، ذی القعدہ اور آٹھ ذی الحجہ تک مکہ میں رہے- اس مدت میں آپ آئندہ پیش آنے والے حالات کا جائزہ لیتے رہے۔

امام کو اہل کوفہ کی دعوت

ادھر کوفہ میں بھی معاویہ کے مرنے اور یزید کے خلیفہ ہونے کی خبر پہونچ چکی تھی اور ان کو یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ امام حسین ع نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے اور مکہ کی طرف ہجرت کر لی ہے لہذا کچھ شیعہ ایک شخص کے گھر جمع ہوئے اور امام حسین ع کو عراق آنے کی دعوت دینے اور آپ کی حمایت کے بارے میں گفتگو کی- آخر کا ر سب نے متفق ہو کر فیصلہ کیا کہ ان کو کوفہ بلایا جائے اور حکومت کی تشکیل میں ان کی حمایت کی جائے۔ اس فیصلہ کے بعد امام حسین ع کے نام اس طرح کا خط لکھا گیا کہ, ہمارا کوئی امام نہیں ہے آپ کوفہ تشریف لے آئیے, شاید خدا آپ کے ذریعہ ہم لوگوں کو حق کے اوپر متحد کر دے۔ اس کے بعد خط پر دستخط کئے گئے مہر لگائی گئی اور چند شیعوں کے ذریعہ وہ خط امام حسین ع کی خدمت میں بھیج دیا گیا۔ اس خط کے بعد بھی بہت سے خطوط آپ کی خدمت میں بھیجے گئے جن کی تعدادہ ۱۱۵ یا ان سے زیادہ لکھی گئی ہے بعض مورخین نے خطوط کی تعداد ساٹھ سے لیکر بارہ ہزار تک لکھی ہے۔

کوفہ والوں کے خط کا جواب اور کوفہ کی طرف جناب مسلم کا سفر

جب خطوط کی تعداد میں اضافہ ہوا اور امام حسین ع نے ان خطوط کا مضمون ملاحظہ فرمایا, تو ان کا جواب اس طرح لکھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ خط حسین ابن علی ع کی طرف سے ہے مسلمین اور مومنین کی جماعت کے نام- بانی اور سعید تمہارے خطوط مجھ تک لیکر آئے یہ دونوں افراد تمہارے آخری نمائندے تھے- میں نے تمہارے خطوط ملاحظہ کئے- ان تمام خطوط کا خلاصہ یہ تھا کہ ہمارا کوئی امام نہیں ہے آپ تشریف لے آئیے شاید خدا آپ کے ذریعہ حق کی طرف ہماری ہدایت کر دے۔ میں اسی مقصد کے لئے اپنے بھائی, اپنے چچا کے بیٹے اور اپنے معتمد مسلم ابن عقیل کو تمہاری طرف روانہ کر رہا ہوں, تا کہ وہ قریب سے حالات کا جائزہ لیں- اگر انھوں نے مجھے لکھا کہ صاحب عقل اور صاحب فضیلت و شرف افراد اور وہاں کے اکثر لوگ اپنے لکھے ہوئے ان خطوط پر عمل کرنا چاہتے ہیں جو مجھ تک پہونچے ہیں, اور جن کو میں نے دیکھا ہے, تو میں جلدی تمہاری طرف روانہ ہو جاؤں گا۔ خدا کی قسم کوئی بھی امامت کا اہل نہیں ہے سوائے اس شخص کے جو قرآن کے مطابق عمل کرتا ہو عدل و انصاف قائم کرتا ہو- اور دین حق قبول کر کے اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔

اس خط کو لکھ کر مسلم ابن عقیل کے حوالہ کیا اور ان کو یہ ذمہ داری سونپی کہ قیس این مسہر صیداوی, عماره ابن عبدالله سلولی اور عبد الرحمن ابن عبداللہ ازدی کے ساتھ کوفہ کی طرف جائیں- اس خط کو کوفہ والوں تک پہونچا کر وہاں کے حالات کا قریب سے جائزہ لیں, اور ہمیں ان سے باخبر کریں- جناب مسلم وہ خط لیکر کوفہ روانہ ہو گئے- شروع میں آپ شیعوں میں سے ایک شخص جناب مختار ابن ابو عبیدہ کے گھر تشریف لے گئے- شیعوں نے آپ کو خوش آمدید کہا آپ سے ملاقات کی- آپ نے بھی ان کے نام امام حسین ع کا خط پڑھ کرسنا دیا- ان لوگوں کی آنکھوں میں خوشی اور ملاقات کے شوق میں آنسو چھلک آئے اور انھوں نے امام حسین ع کے نائب کے طور پر جناب مسلم کی بیعت کی- بیعت کرنے والوں کی تعداد ۱۸ ہزار تک پہونچ گئی- بعض لوگوں نے یہ تعداد چالیس ہزار افراد تک ذکر کی ہے۔

جناب مسلم کا خط امام حسین ع کے نام

جب جناب مسلم ابن عقیل نے لوگوں کا ایسا استقبال دیکھا تو امام حسین ع کو خط کے ذریعہ کوفہ والوں کے عظیم استقبال سے باخبر کیا اور آپ سے درخواست کی کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے کوفہ کی طرف روانہ ہو جائیں۔

دوسری طرف یزید کے بعض حامیوں نے یزید کو خط لکھ کر کوفہ میں جناب مسلم کی آمد اور لوگوں کے ذریعہ ان کی بیعت سے باخبر کیا اور اس کو کہا کہ اگر کوفہ چاہئے تو کوئی طاقتور حاکم بھیجا جائے, ورنہ کوفہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ جب یزید کے پاس یہ خط پہونچا تو اس نے اپنے مشاورین کے سامنے اس کو پیش کیا- اس کے مشاورین میں سے ایک نے مشورہ دیا کہ عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا حاکم منصوب کر دیا جائے- یزید نے اس پیش کش کو قبول کر لیا اور کوفہ کی حکومت کے سلسلہ میں حکم نامہ عبید اللہ ابن زیاد کے نام تحریر کر دیا, جو اس وقت بصرہ کا حاکم تھا- یزید نے ساتھ یہ بھی لکھا کہ فوراً کوفہ پہونچو اور مسلم کو گرفتار کر کے ان کو قتل کر دو۔

عبید اللہ ابن زیاد کی کوفہ آمد

عبید اللہ ابن زیاد رات میں کوفہ میں داخل ہوا اور اسی صبح کوفہ کی بعض بڑی شخصیتوں کو دارالامارہ میں طلب کیا, اور ان پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ مسلم ابن عقیل نے کوفہ آکر لوگوں میں اختلاف ڈال دیا ہے- ان سے کہ دو کہ ایسا کرنے سے باز آجائیں ورنہ سزا کے لئے تیار رہیں, اور اس سلسلہ میں تم لوگوں کوبھی میری مدد کرنا ہے تا کہ یزید کا لطف وکرم تمہارے شامل حال ہو۔ دوسری طرف اپنے جاسوسوں کو حکم دیا کہ مسلم ابن عقیل کی رہائش گاہ کا پتہ لگائیں اور اس سلسلہ میں خرچ کرنے کے لئے کچھ رقم بھی ان کے حوالہ کی۔

مسلم ابن عقیل کو کوفہ میں ابن زیاد کی آمد اور اپنے حامیوں کے درمیان اس طرح کی باتیں کرنے کا علم ہوا تو آپ نے خطرہ محسوس کیا اور اپنی جگہ تبدیل کر لی اور خفیہ طور پر ہانی ابن عروہ کے گھر تشریف لے گئے- اتفاق سے ایک جاسوس کو اس کی خبر ہوگئی اور اس نے ابن زیاد کو آگاہ کر دیا۔ ابن زیاد نے ہانی کو بلا کر ان پر عتاب کرتے ہوئے کہا, میں نے سنا ہے کہ تم نے مسلم کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے اور خود ان کے لئے فوج اور اسلحہ جمع کر رہے ہو۔ ہانی نے اس کا انکار کیا تو ابن زیاد نے جاسوس کو پیش کر دیا- بانی سمجھ گئے کہ اب راز فاش ہو چکا ہے لہذا انھوں نے کہا, میں نے ان کو اپنے گھر میں بلایا نہیں تھا بلکہ وہ خود ہی مہمان کے طور پر آگئے اور میں نے مجبوراً ان کو اپنے گھر میں رکھ لیا- ابن زیاد نے کہا, اب انھیں میرے حوالہ کردو۔ ہانی نے کہا میں اپنا مہمان تمہارے حوالہ نہیں کر سکتا البتہ میں ان سے یہ کہ سکتا ہوں کہ میرے گھر کو چھوڑ کر جہاں چاہیں چلے جائیں- ابن زیاد نے اپنے ہاتھوں میں موجود عصا کو، ہانی کے سر اور چہرے پر اتنا مارا کہ خون جاری ہو گیا اور اس نے ان کو ایک کمرہ میں قید کرنے کا حکم دیدیا۔

جناب مسلم کا قیام اور ان کی شہادت

جناب مسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے اپنے اصحاب کو جن کی تعداد تقریبا چار ہزار تھی حکم دیا کہ جہاد کے لئے تیار ہو جائیں۔ وہ لوگ مسجد اور اس کے اطراف میں جمع ہو کر دار الامارہ پر حملہ کے لئے تیار ہو گئے- ابن زیاد نے جب یہ حالات دیکھے تو اپنے حامیوں سے کہا کہ مسلم کی فوج کے درمیان جا کر جس طرح بھی ممکن ہو ان کو متفرق کرو۔

ان میں سے کچھ لوگوں نے جناب مسلم کے حامیوں کے درمیان جا کر یہ مشہور کر دیا کہ شام کی فوجیں راستہ میں ہیں اور عنقریب پہونچنے والی ہیں وہ لوگ یہاں پہونچ کر تم لوگوں کا قتل عام کر دیں گے اپنے اوپر اور اپنی اولاد پر ترس کھاؤ اور اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ تا کہ یزید تمہارے ساتھ مہربانی کا برتاؤ کرے۔ اس دھمکی سے جناب مسلم کے حامیوں پر خوف و ہر اس طاری ہو گیا- اس طرح کہ مائیں بیچ میں آ کر اپنے بچوں کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے باہر لے جانے لگیں- تھوڑی ہی دیر میں جناب مسلم کے حامی آپ کو چھوڑ کر چلے گئے, اور نماز مغرب میں بمشکل 30 آدمی باقی رہ گئے, اور مسجد سے نکلتے وقت صرف 10 آدمی آپ کے ساتھ تھے- اور جب مسجد کے دروازہ سے باہر نکلے تو ایک آدمی بھی آپ کے ساتھ نہیں تھا۔ مسلم اکیلے کوفہ کی گلیوں میں بھٹکنے لگے, اور آخر کار طوعہ نامی ایک عورت کے گھر مہمان ہو گئے- دوسرے دن جب ابن زیاد کو مسلم کی رہائش گاہ کا پتہ چلا تو اس نے کچھ لوگوں کو ان کی گرفتاری کے لئے روانہ کیا- مسلم نے تنہا ان سے جنگ کی اور آخر کار امان کے بہانے سے گرفتار ہو گئے- ان کو ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا- اس نے انتہائی بے دردی کے ساتھ 9 ذی الحجہ کو عرفہ کے دن آپ کو شہید کر دیا, اور اسی وقت ہانی ابن عروہ کو بھی شہید کر دیا گیا۔

مورخین نے لکھا ہے کہ جناب مسلم شہادت کے وقت گریہ کر رہے تھے- لوگوں نے رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا, خدا کی قسم میں قتل ہونے کی وجہ سے نہیں رو رہا ہوں, اس لئے کہ شہادت ہماری میراث ہے- میں اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ میرے خط کی وجہ سے امام حسین ع اور ان کے اہلیت کوفہ آجائیں گے, میں ان کی وجہ سے رو رہا ہوں- اس کے بعد آپ نے محمد ابن اشعث سے کہا اگر ہو سکے تو امام حسین ع کو ایک خط لکھ دے اور میری طرف سے ان سے کہہ دے کہ مسلم اس قوم میں گرفتار ہو چکے ہیں اور عنقریب قتل کر دیے جائیں گے- لہذا آپ مع اپنے اہلیت کے اس سفر سے باز آجائیں- اس لئے کہ کوفہ والے اپنے وعدہ کو وفا نہیں کریں گے۔

امام حسین ع کی مکہ سے کوفہ کی طرف روانگی 8 ذی الحجہ بروز ترویہ عیں اس دن ہوئی جس دن جناب مسلم نے ابن زیاد کے خلاف قیام کیا تھا۔

امام حسین ع کا عراق کے سفر کا ارادہ

مندرجہ ذیل حالات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اسلامی حکومت کے قیام کے لئے ایک عمومی انقلاب کی فضا ہموار ہے-

  1. امام حسین ع کے نام کوفہ کے شیعوں کے بہت سے خطوط آئے، جن میں آپ کو یہ کہ کر عراق بلایا گیا تھا کہ ہمارا کوئی امام نہیں، آپ تشریف لے آئیے۔
  2. اہل کوفہ کے ذریعہ جناب مسلم کا عظیم استقبال اور ان کی بیعت جس کو دیکھ کر امام حسین ع کو جناب مسلم کا یہ خط کہ اب تک میرے ہاتھ پر اٹھارہ ہزار افراد بیعت کر چکے ہیں-
  3. معاویہ کی موت، یزید کی جانشینی جو ایک فاسق، فاجر، عیاش اور بے تجربہ جوان تھا اور حکومت وخلافت کے لئے اس کے اندر کوئی صلاحیت نہیں تھی، مذکورہ اسباب کو نظر میں رکھ کر اس بات کا زیادہ احتمال پایا جاتا تھا کہ مسلمان اور خاص طور پر شیعہ معاویہ کے ظلم و ستم، بیت المال کے سلسلہ میں من مانی اور اسلامی اقدار سے لا پرواہی, بلکہ معاویہ اور اس کی حکومت کے ذمہ داروں کی طرف سے اپنی پامالی سے عاجز آگئے ہوں, اور مولائے کائنات کی اسلامی حکومت کے ختم ہو جانے کا احساس کر رہے ہوں, اور شاید اپنی گذشتہ کوتاہیوں کی تلافی کرنا چاہتے ہوں۔

لہذا اس صورتحال کو دیکھ کر امام حسین ع نے اپنی ذمہ داری سمجھی- اگرچہ اس ذمہ داری کو نبھانا انتہائی مشکل اور خطر ناک تھا, لیکن ایسے حالات میں امام حسین ع کے لئے حجت تمام ہو چکی تھی, اور آپ کے لئے کوفہ والوں کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے عراق کی طرف سفر کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ البتہ اس کا انجام دو حال سے خالی نہیں تھا- یا یہ کہ کوفہ والے اپنے وعدوں پر عمل کریں گے, اور خالص اسلامی حکومت کے قیام میں آپ کی مدد کریں گے- اس صورت میں برسوں سے اپنی منزل کھو کر بھٹک رہی, اسلامی حکومت کو اس کی منزل مل جائے گی, اور کم سے کم عراق میں مولائے کائنات جیسی حکومت قائم ہو جائے گی, جس کا اثر بعد میں دوسری اسلامی سرزمین من جملہ شام تک بھی پہونچ سکتا تھا۔ اس صورت میں اسلام اور مسلمانوں کو ایک عظیم کا میاب مل جاتی۔

دوسری صورت یہ تھی کہ اہل کوفہ اپنے وعدہ پر عمل نہ کریں اور امام حسین ع کو اپنے اس شرعی اور اہم قیام میں اکیلا چھوڑ دیں, جس کے نتیجہ میں آپ کی شہادت ہو جائے- اس صورت میں بھی امام حسین ع خدا کی طرف سے عائد کی گئی اپنی شرعی ذمہ داری پر عمل کر کے یزید کی حکومت کے خلاف اپنے خونی انقلاب اور قیام کے ذریعہ دنیا کے سامنے بنی امیہ کی حکومت کے غیر شرعی ہونے کا اعلان بہر حال کر دیں گے, جس سے اس کی حکومت کی بنیادیں کمزور ہو جائیں گی- اس لئے کہ پیغمبر اسلام، امیر المومنین اور حضرت علی اور فاطمہ زہرا کے فرزند کا کسی حکومت کے مقابلہ میں قیام کرنا اس حکومت کے غیر شرعی ہونے کی بہترین دلیل ہے۔ امام حسین ع نے محسوس کیا کہ ایسی صورت میں مسلمانوں کو دینداری ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اسلام اور اسلامی اقتدار سے دفاع اور اسلامی حکومت کے قیام کی راہ میں جہاد کا درس دیا جا سکتا ہے, اور یہ بھی ایک طرح کی کامیابی ہے۔

مدینہ سے نکلتے وقت اور مکہ سے عراق کی طرف سفر شروع کرنے کے وقت, اسی طرح راستہ میں امام حسین ع کے خطبات اور اقوال کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ دوسرے احتمال کو بعید نہیں سمجھ رہے تھے, اور شہادت کی خوشبو محسوس کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو اس کے لئے تیار کر رہے تھے- لیکن چوں کہ ذمہ داری کا احساس تھا لہذا آپ کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا- اسی وجہ سے مکہ سے کوفہ کی طرف سفر کے وقت اپنے اصحاب کے سامنے خطبہ دیا, اور اس سفر کے بارے میں اپنے احساسات اور سفر کے خطرناک نتائج سے باخبر کرنے کے بعد فرمایا:

کہ جو اس بات سے راضی ہے کہ اپنا خون ہماری راہ میں بہائے اور اپنے کو خدا سے ملاقات کے لئے تیار کرے وہ اس سفر میں ہمارے ساتھ رہے میں انشاء اللہ صبح سویرے عراق کی طرف سفر کروں گا۔

اس شب میں محمد حنفیہ جو اس وقت مکہ میں تھے آپ کی خدمت میں پہونچے اور عرض کی, بھائی آپ کوفہ والوں کو پہچانتے ہیں جنہوں نے آپ کے والد اور بھائی کے ساتھ خیانت کی ہے مجھے ڈر ہے کہیں آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ نہ کریں اور آپ کو بھی اکیلا چھوڑ دیں- اگر آپ مناسب سمجھیں تو مکہ ہی میں رہیں یہاں آپ کا احترام محفوظ ہے۔ امام حسین ع نے فرمایا, بھائی میں اس بات سے ڈر رہا ہوں کہ یزید کے کارندے مکہ ہی میں مجھے شہید کردیں, اور مکہ کی حرمت پامال ہو جائے, یا مجھے گرفتار کر کے یزید کے حوالہ کر دیں۔ محمد حنفیہ نے عرض کیا, اگر آپ کو یہ خوف ہے تو یمن یا کسی پہاڑی علاقہ میں چلے جائیں, وہاں آپ محفوظ رہیں گے۔ آپ نے جواب میں فرمایا, اس سلسلہ میں سوچوں گا۔ دوسرے افراد بھی اسی طرح کی مصلحتوں کا اظہار کر رہے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے فیصلہ میں امام حسین ع کے مستحکم عزم و حوصلہ میں تزلزل پیدا نہیں کر سکا, اور ان کو عراق کی طرف سفر کرنے سے نہیں روک سکا۔

عراق کی طرف سفر

آٹھ ذی الحجہ کی صبح امام حسین ع نے اپنے گھر والوں, اپنی اولاد, بھائیوں بھتیجوں, بہنوں اور بھانجوں, چچازاد بھائیوں, اور اپنے اصحاب و انصار کے ساتھ مکہ سے عراق کی طرف سفر شروع کیا- ابھی جناب مسلم کی شہادت کی خبر نہیں پہونچی تھی۔ امام حسین ع کو راستہ میں متعدد افراد ملے جنہوں نے آپ کے اس بے موقع سفر سے تعجب کا اظہار کیا اور اس سے اکثر نے کوفہ کے سفر میں خطرات کا اظہار کیا, اور آپ سے ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے آپ کو اس سفر سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ لیکن امام حسین ع نے ان کے مشوروں پر عمل نہ کیا- گویا آپ کو ذمہ داری کا احساس اتنا زیادہ تھا کہ اس کو پورا کرنے کی راہ میں اس طرح کے مشورے اثر انداز نہیں ہو سکتے تھے۔ آپ کو ثعلبیہ نامی جگہ پر جناب مسلم اور جناب ہانی کی شہادت کی خبر ملی۔

عبد اللہ ابن سلیمان اور منذ ر ابن مشعل کا بیان ہے کہ ہم نے ایک شخص کو دیکھا جو کوفہ کی طرف سے آرہا تھا- ہم نے اس سے کوفہ کے حالات دریافت کئے تو اس نے کہا میرے نکلنے سے پہلے ہی مسلم ابن عقیل اور بانی ابن عروہ کو شہید کیا جا چکا تھا- میں نے خود ہی دیکھا کہ ان کا جسم مبارک بازار میں زمین پر کھینچا جا رہا ہے۔ ان دونوں نے ثعلبیہ پہنچ کر امام حسین ع سے ملاقات کی اور آپ کو مسلم ابن عقیل اور بانی ابن عروہ کی شہادت سے باخبر کیا۔ امام نے فرمایا, انا للہ و انا اليه راجعون, رحمة الله عليهما- ان دونوں نے عرض کیا, آپ کو خدا کی قسم اپنی اور اپنے اہلبیت کی جان خطرہ میں نہ ڈالئے اور اس سفر سے باز آ جائیے- اس لئے کہ کوفہ میں کوئی بھی آپ کا مددگار یا شیعہ نہیں ہے- بلکہ ہمیں ڈر ہے اہل کوفہ بھی دشمن کی فوج کے ساتھ مل کر آپ سے جنگ کریں گے۔

امام حسین ع نے جناب عقیل کی اولاد کی طرف دیکھا اور فرمایا, تم لوگوں نے سنا کہ مسلم شہید ہو گئے- اب تمہارا کیا خیال ہے؟ ان لوگوں نے عرض کیا, فرزند رسول ہم واپس نہیں جاسکتے, جب تک مسلم کے خون کا انتظام نہ لے لیں, یا خود بھی اس راہ میں شہید نہ ہو جائیں۔ امام حسین ع نے فرمایا: مسلم اور ہانی کی شہادت کے بعد زندگی کا مزہ جاتا رہا۔ لوگوں نے عرض کیا, البتہ آپ میں اور مسلم میں فرق ہے- اگر آپ کو فہ پہونچ جائیں تو ممکن ہے کوفہ والے آپ کی حمایت پر اکٹھا ہو جائیں۔

دوسری طرف جب عبید اللہ ابن زیاد کو معلوم ہوا کہ امام حسین ع مکہ سے کوفہ کی طرف چل چکے ہیں, تو اپنی فوج کے کمانڈر حصین ابن نمیر کو فوج تیار کر کے قادسیہ بھیجا۔ابن زیاد کا پروگرام یہ تھا کہ امام حسین ع کوفہ نہ آنے پائیں, اور کوفہ سے باہر ہی امام اور ان کے اصحاب و انصار کا محاصرہ کر کے ان کو اسیر کرلے۔ اسی مقصد سے عبید اللہ ابن زیاد نے حر ابن یزید ریاحی کو ایک ہزار لشکر کے ہمراہ امام حسین ع کا راستہ روکنے کے لئے بھیجا۔ امام حسین ع بھی جلد از جلد شیعوں کے مرکز کوفہ پہونچنا چاہتے تھے, جہاں سے نصرت کے وعدہ کے ساتھ آپ کو مسلسل خطوط بھیجے گئے تھے۔

حر سے ملاقات

امام حسین ع اپنے اصحاب کے ساتھ کوفہ کی طرف سفر کر رہے تھے کہ اچانک راستہ میں حرابن یزید ریاحی اور اس کی ایک ہزار فوج کا سامنا ہوا جو قادسیہ سے وہاں پہونچے تھے۔ جب امام حسین ع اور آپ کے اصحاب نماز ظہر کے لئے ٹھہرے تو حر نے بھی اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ نماز امام حسین ع کی اقتدا میں ادا کریں- امام حسین ع نے نماز کے بعد لشکر والوں کے سامنے خطبہ دیا اور فرمایا:

میں بغیر بلائے یہاں نہیں آیا ہوں- تم نے لکھا تھا ہمارا کوئی امام نہیں ہے, آپ کوفہ آجائیں, شاید خداوند عالم آپ کی وجہ سے اس امت کو متحد کر دے۔ اب میں آگیا ہوں اگر تم اپنے وعدوں پر قائم ہو تو میں یہاں رہوں اور اپنی ذمہ داری پر عمل کروں گا, اور اگرتم اپنے وعدوں اور اپنے لکھے ہوئے خطوط سے پشیمان ہو اور میری آمد سے ناخوش ہو تو میں اپنے وطن واپس چلا جاؤں۔

حر نے عرض کیا, مجھے ان خطوط کی کوئی خبر نہیں ہے- امام حسین ع نے اپنے ایک صحابی سے کہا خطوط کی کی وہ بوری لے آؤ اور حر کو دکھاؤ۔ حر نے عرض کیا, میں ان خطوط لکھنے والوں میں سے نہیں ہوں- مجھے عبید اللہ کی طرف سے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ آپ سے الگ نہ ہوں جب تک کوفہ میں آپ کو اس کے حوالہ نہ کر دوں۔ امام حسین ع نے فرمایا, میں تمہارے ساتھ کوفہ ہرگز نہیں جاؤں گا۔ حر نے کہا, خدا کی قسم میں آپ کو چھوڑ نہیں سکتا اور آپ کو واپس نہیں جانے دوں گا, اگر چہ مجھے جنگ کا حکم بھی نہیں دیا گیا ہے۔ امام حسین ع نے اپنے اصحاب سے فرمایا, سوار ہو جاؤ اور راستہ ایسا متخب کیا جو نہ کوفہ جاتا ہو اور نہ مدینہ- حر کے سپاہی ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے یہاں تک کہ یہ قافلہ سرزمین نینوا پر پہونچ پر گیا- اس وقت عبید اللہ کی طرف سے ایک خط پہونچا جس میں لکھا تھا, جس جگہ میرا خط تمہیں ملے, حسین ع کو وہیں روک لینا, کسی ایسے بیابان میں جہاں نہ پانی ہو اور نہ پیڑ پودے ہوں۔ حر نے وہ خط پڑھ کر امام حسین ع کوسنا دیا اور کہا کہ آپ کو یہیں ٹھہرنا پڑے گا۔

امام حسین ع کربلا میں

امام حسین ع اور ان کے اصحاب کر بلا کی سرزمین پر اترے اور وہیں خیمے نصب کر لئے گئے- حر کے سپاہی بھی ان کے مقابلہ میں خیمہ زن ہو گئے۔ دوسری محرم 61ھ تھی, اور اب حالات اس طرح کے بن گئے تھے کہ امام حسین ع کے قیام کے دوسرے رخ, یعنی آپ کی شہادت کا زیادہ احتمال پیدا ہو گیا تھا۔ امام حسین ع نے خطبہ دیا اور حمد وثنائے امہی کے بعد اپنے اصحاب سے فرمایا:

تم لوگ ہمارے ساتھ پیش آنے والے حادثات کو دیکھ رہے ہو- دیکھو دنیا بدل گئی ہے, اور اس نے کتنی بری شکل اختیار کرلی ہے- دنیا کی خوبیاں ختم ہوگئیں ہیں- ایک خطرناک چراگاہ کی طرح پست زندگی کے علاوہ کچھ اور باقی نہیں رہ گیا ہے- کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں کیا جارہا ہے, اور باطل کو روکا نہیں جارہا ہے, ایسے حالات میں مومن کو حقیقتاً موت اور خدا کی طرف واپسی کی طرف مائل ہونا چاہئے- میں ان حالات میں موت کو سعادت و خوشبختی اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو مصائب و آلام اور عذاب کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھتا ہوں۔

آپ کے بعض اصحاب جیسے زہیر بن قین، بلال ابن نافع اور بریر ابن خضیر کھڑے ہوئے اور عرض کی- فرزند رسول ہم حق کے دفاع اور آپ کے ہمراہ جنگ کے لئے شہادت تک تیار ہیں, اور اس بات کو اپنے لئے قابل فخر سمجھتے ہیں۔ اس وقت تک امام حسین ع کوفہ والوں کی نصرت سے بالکل مایوس نہیں ہوئے تھے, اور آپ کو امید تھی کہ اگر ان کو آپ کے کربلا پہنچنے کی خبر ملے گی تو آپ کی نصرت کے لئے دوڑے آجائیں گے- اسی وجہ سے اتمام حجت کے لئے اس مضمون کا ایک خط لکھا اور اپنے ایک صحابی کے ذریعہ کوفہ کے بعض بزرگوں کے نام روانہ کیا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم- تمہیں معلوم ہے کہ پیغمبر اسلام نے اپنی حیات میں فرمایا تھا کہ, جو بھی کسی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کر رہا ہو اور خدا کے ساتھ کئے گئے عہد کو توڑ رہا ہو, رسول خدا کی سنت کے خلاف عمل کر رہا ہو اور لوگو پر ظلم وستم کو جائز سمجھتا ہو, اور وہ شخص اس حاکم کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کرے تو خدا پر لازم ہے کہ اس شخص کو اس ظالم حاکم کے ساتھ محشور کرے- تمہیں معلوم ہے کہ یہ قوم شیطان کی تابع ہے- اس نے خداوند عالم کی اطاعت سے منہ موڑ رکھا ہے- ان لوگوں نے زمین میں فساد پھیلایا ہے- حدود الہی کو معطل کر دیا ہے- بیت المال کے مصرف میں اپنے کو اور اپنے رشتہ داروں کو مقدم سمجھتے ہیں- خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال سمجھتے ہیں اور اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں- تم سب کو معلوم ہے کہ میں خلافت اور حکومت کے سلسلہ میں دوسروں سے زیادہ حقدار ہوں۔ تمہارے خطوط ہم تک پہونچے اور تمہارے نمائندوں نے تمہاری بیعت سے ہمیں آگاہ کیا- تم نے لکھا تھا ہم آپ کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے- اب اگر تم اپنے وعدوں پر عمل کرو تو اپنے مقصد تک پہونچ سکتے ہو- میں, میرا گھرانا اور میری اولاد تمہارے ساتھ ہے- میں تمہارے لئے نمونہ عمل ہوں گا- لیکن اگر تم نے اپنے عہد کو توڑ دیا اور بیعت کی پابندی نہیں کی, کہ ایسا تم سے بعید نہیں ہے, اس سے پہلے تم ہمارے پدر بزرگوار، ہمارے بھائی اور ہمارے چچا کے فرزند کے ساتھ بھی ایسا ہی کر چکے ہو- فریب خوردہ ہے وہ شخص جو تمہارے دھو کہ میں آجائے- آگاہ رہو کہ تم نے اپنا حصہ ضائع کر دیا ہے- فمن نكث فإنما ينكث على نفسه  ۖ (جو عہد توڑ دے, خود اس کا ذمہ دار ہو گا- سورہ فتح, 10)  خدا کو بھی تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ابن زیاد کو حر کا خط

دوسری طرف حرابن یزید ریاحی نے بھی ابن زیاد کو اس طرح خط لکھا, حسین ابن علی ع نے تسلیم ہونا گوارہ نہیں کیا تو میں تمہارے حکم کے مطابق ان کو کر بلا کی بے آب و گیاہ زمین میں لے آیا- اب میں تمہارے حکم کا منتظر ہوں۔ ابن زیاد نے حر کی اطلاع پر جنگ کا فیصلہ کیا- امام حسین ع کے اصحاب و انصار کی تعداد اگر چہ 72 افراد یا زیادہ سے زیادہ سو افراد سے زیادہ نہیں تھی, اور اس سے جنگ کے لئے حر کا ایک ہزار کا لشکر کافی ہونا چاہئے تھا, لیکن ابن زیاد نے فیصلہ کیا کہ ایک طاقتور فوج تیار کر کے بھیجے گا- اس لئے کہ وہ امام حسین ع اور آپ کے اصحاب و انصار کی شجاعت اور جانثاری سے بخوبی واقف تھا اور اسے معلوم تھا کہ ان میں سے ہر ایک جب تک ہمارے کئی آدمیوں کو قتل نہیں کرنے کا خود قتل نہیں ہوگا- وہ یہ احتمال بھی دے رہا تھا کہ بعض شیعہ بھی امام کی نصرت کے لئے جس طرح بھی ممکن ہوگا اپنے کو امام تک پہونچائیں گے۔ اس کے علاوہ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید ایک بڑی فوج دیکھ کر امام حسین ع مرعوب ہو جا ئیں اور خود کو ہمارے سامنے تسلیم کر دیں۔

اسی وجہ اور شاید بعض دوسری وجوہات کی بنیاد پر ابن زیاد نے مصلحت یہی سمجھی کہ ایک بڑی اور اسلحوں سے لیس فوج تیار کرے- اس مقصد کے لئے اس نے لوگوں کو مسجد میں بلایا اور ان کے سامنے خطبہ دیا اور کہا, اے لوگو! ابو سفیان کی اولاد کو پہچانتے ہو اور ان کو تم نے جیسا چاہا ویسا ہی پایا- اب تم لوگ امیر المومنین یزید کو پہچانتے ہو, وہ نیک سیرت اور اچھی عادات واطوار کا مالک ہے- اپنی رعایا کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے- وہ بجا طور پر عطا و بخشش کرتا ہے اس نے راستوں کو پر امن کر دیا ہے جیسا کہ اپنے زمانے میں معاویہ بھی ایسا تھا, اس کا بیٹا یزید بھی اپنے باپ کے بعد لوگوں پر احسان کرتا ہے اور ان کو مال و دولت سے بے نیاز کر دیتا ہے, ان کا احترام کرتا ہے۔ وہ تمہاری روزی میں سو فیصدی اضافہ کرے گا اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں دی جانے والی رقم میں اضافہ کروں اور تمہیں اس کے دشمن کی طرف روانہ کروں, تم اس کی اطاعت کرو- اس کے بعد وہ منبر سے نیچے اترا اور ان کے درمیان ایک عظیم سرمایہ قسم کیا اور حکم دیا کہ میدان جنگ کی طرف روانہ ہو کر عمر ابن سعد کی سرکردگی میں امام حسین ع سے جنگ کرو اس طرح ہیں 20 سے 30 ہزار کا لشکر جنگ کے لئے تیار ہو گیا۔

عمر ابن سعد جو پہلے ہی سے "رے" کی حکومت کے لئے معین کیا جا چکا تھا, ابن زیاد نے اسے بلایا اور اس سے کہا, پہلے حسین ابن علی ع سے جنگ کے لئے جاؤ جنھوں نے یزید کے خلاف خروج کیا ہے اور زمین پر فساد برپا کر رہے ہیں (العیاذ باللہ)- تم جا کر اس فتنہ کو ٹھنڈا کرو اس کے بعد رےکی حکومت کی طرف جانا۔ عمر ابن سعد نے اس سے کہا کہ یہ ذمہ داری کسی اور کو سونپ دی جائے- ابن زیاد نے کہا, اس شرط کے ساتھ کہ رے کی حکومت واپس کر دو۔ عمر سعد نے ایک رات سوچنے کے لئے مہلت مانگی, دوسرے دن صبح رے کی حکومت ہاتھ سے نکل جانے کے خوف سے امام حسین ع سے جنگ کے لئے تیار ہوکر کربلا کی طرف روانہ ہو گیا۔

عمر سعد کی فوج کربلا پہونچ گئی اور امام حسین ع کی مختصر سی فوج کے مقابلہ میں صف آرا ہوگئی- ان کی تعداد میں برابر اضافہ ہوتا رہا لیکن امام حسین ع کی مدد کے لئے کوئی تیار نہیں ہوا- امام حسین ع نے جب یہ حالات دیکھے تو عمر ابن سعد کے پاس ایک شخص کو بھیجا اور اس سے ملاقات اور گفتگو کی پیش کش کی- عمر سعد نے ان کی پیش کش قبول کر لی اور اسی شب دونوں لشکروں کے بیچ ایک خصوصی نشست ہوئی۔ امام حسین ع نے فرمایا:

اے ابن سعد کیا تو خدا اور قیامت سے نہیں ڈرتا اور مجھ سے جنگ کرنا چاہتا ہے تو جانتا ہے کہ میں پیغمبر کا فرزند ہوں- یزید کے سپاہیوں کو چھوڑ دے, اور میری مدد کے لئے آ جا, اس میں خدا کی رضا اور تیری آخرت کی بھلائی ہے۔

عمر سعد نے عرض کیا: مجھے ڈر ہے کہ میرا گھر ویران کر دیا جائے گا۔ امام نے فرمایا: میں تیرے لئے اس سے بہتر گھر بنا دوں گا۔ اس نے عرض کیا: مجھے خوف ہے کہ میری کھیتی اور جائداد چھین لی جائے گی۔ امام نے فرمایا: میں حجاز میں اپنی اس سے بہتر جائداد و املاک تجھے عطا کر دوں گا۔ اس نے عرض کیا: مجھے اپنے گھر والوں اور اپنے اہل وعیال کی فکر ہے اور ان کے حق میں خوفزدہ ہوں۔ یہ سن کر امام خاموش ہو گئے اور پھر آپ نے کچھ نہیں کہا۔

ایک دوسری روایت کے مطابق اس ملاقات کے بعد عمر سعد نے عبید اللہ ابن زیاد کے نام اس مضمون کا ایک خط لکھا-خدا نے چاہا کہ جنگ کی آگ ٹھنڈی ہو جائے اور امت کے امور کی اصلاح ہو جائے اس لئے کہ حسین ع نے مجھے پیش کش کی ہے کہ اپنے وطن واپس چلے جائیں گے یا کسی سرحدی علاقہ میں جا کر ایک عام مسلمان کی طرح زندگی بسر کریں گے۔ جس وقت وہ خط ابن زیاد کے پاس پہونچا اس نے کہا: یہ خط حسین ع کی خیر خواہی میں لکھا گیا ہے- شمر ابن ذی الجوشن جو وہیں موجود تھا بولا کہ اے امیر کس طرح اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہو گئے اب جب حسین ع تمہاری سرزمین میں آچکے ہیں تو تمہارے اختیار میں ہیں, لیکن خدا کی قسم اگر بغیر بیعت کے حسین ع اپنے وطن واپس پہونچ گئے تو وہ طاقتور ہو جائیں گے اور تم کمزور ہو جاؤ گے- موقع ہاتھ سے نہ نکلنے دو کہ بعد میں شرمندہ ہونا پڑے- لہذا انھیں چاہئے کہ پہلے اپنے کو ہمارے سامنے تسلیم کریں, پھر تمہیں اختیار ہے کہ ان کو سزا دو یا معاف کر دو۔ ابن زیاد کو شمر کی بات پسند آئی اور اس نے کہا: تیری بات صحیح ہے یہ خط لے جا کر عمر کو دے اور کہہ کہ میرا حکم حسین ع اور ان کے اصحاب کے سامنے پیش کرو- اگر وہ لوگ قبول کریں تو انھیں زندہ میرے پاس بھیج دو اور اگر انکار کریں تو ان سے جنگ کرو-

اگر عمر سعد میرے حکم پر عمل کرے تو اس کی اطاعت کرنا اور اگر وہ حسین ع سے جنگ کرنے سے کترائے تو میری طرف سے تو فوج کا حاکم ہے- عمر کی گردن مار کر اس کا سر میرے پاس بھیج دے۔

عمر سعد کو ابن زیاد کا خط

ابن زیاد نے عمر ابن سعد کو اس مضمون کا ایک خط لکھا: میں نے تجھے اس لئے نہیں بھیجا تھا کہ تو حسین ع کا دفاع کرے یا ان کی سفارش کرے- خیال رکھا اگر حسین ع اور ان کے اصحاب میرا حکم مانیں اور تسلیم ہو جائیں تو ان کو زندہ میرے پاس بھیج دے, اور اگر انکار کریں تو ان پر حملہ کر کے ان سب کو قتل کردے, اور قتل کے بعد ان کے بدن ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کے اعضاء و جوارح کو کاٹ دے۔ اس لئے کہ وہ اسی سزا کے مستحق ہیں- حسین ع کی شہادت کے بعد ان کی لاش پر گھوڑے دوڑانا- وہ سرکش اور ستمگر ہیں (العیاذ باللہ)- اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ موت کے بعد گھوڑوں کے دوڑنے کا کوئی اثر نہیں ہوتا, لیکن جو میں نے کہا ہے اس پر عمل کرنا۔ اگر تو نے میرے حکم پر عمل کیا تو تجھے ہم سے انعام ملے گا اور اگر اس کے انجام دینے سے انکار کیا تو فوج کی کمان شمر ابن ذی الجوشن کے حوالہ کر کے کنارہ کش ہو جا- شمر عبید اللہ ابن زیاد سے خط لیکر عمر سعد کے پاس پہونچا- عمر نے وہ خط لے کر پڑھا اور شمر سے کہا, وائے ہو تجھ پر, خدا تجھ پر لعنت کرے- میرا خیال ہے تیری وجہ سے ابن زیاد نے میری پیش کش کو قبول نہیں کیا مجھے اصلاح کی امید تھی لیکن تو نے فساد بر پا کر دیا- خدا کی قسم مجھے معلوم ہے کہ حسین ع ہرگز تسلیم نہیں ہوں گے اس لئے کہ ان کے پہلو میں ان کے باپ کا دل ہے۔ شمر نے کہا جواب دے؟ کیا چاہتا ہے؟ امیر کے حکم کی اطاعت کرے گا اور اس کے دشمن سے جنگ کرے گا یا فوج کو میرے حوالہ کر دے گا۔ عمر نے جواب دیا: نہیں میں فوج کی کمان تجھے ہرگز نہیں دے سکتا, تو صرف پیادوں کی قیادت کر۔

نو محرم

نو محرم کو عبید اللہ ابن زیاد کا خط اس کی فوج کے کمانڈ عمر ابن سعد کو ملا کہ جتنی جلدی ممکن ہو حسین ع کا کام تمام کر دے- اگر تسلیم ہو جائیں تو انہیں زندہ میرے پاس بھیج دو اور میں ان کے بارے میں فیصلہ کروں لیکن اگر تسلیم ہونے سے انکار کریں تو ان کو قتل کرنے کے بعد ان کے بدن کو مثلہ کر دو۔ اس خط کے بعد عمر ابن سعد نے فیصلہ کیا کہ امام حسین ع سے جنگ کرے گا اس لئے کہ اسے معلوم تھا کہ حسین ع ہرگز تسلیم نہ ہوں گے اس نے نو محرم پنجشنبہ کی دوپہر کے بعد اپنی فوج کو حکم دیا۔ یا خیل الله اركبي و بالجنة ابشری- اس کے فوجی سوار ہو کر امام حسین ع کے خیموں کی طرف چلے- امام حسین ع اس وقت خیمہ کے باہر زانوں پر سر رکھے بیٹھے تھے اور آپ کی آنکھ لگ گئی تھی- آپ کی بہن جناب زینب یہ منظر دیکھ رہی تھیں- جب انھوں نے فوج کے آنے کی آواز سنی تو اپنے بھائی کے پاس آئیں اور فرمایا: بھائی کیا آپ فوج کے حملہ آور ہونے کی آواز نہیں سن رہے ہیں؟ فوجیں نزدیک آگئی ہیں۔ امام حسین ع نے زانو سے سر اٹھایا اور فرمایا:

بہن ابھی میں نے اپنے جد رسول خدا کو خواب میں دیکھا ہے۔ آپ ص نے فرمایا, عنقریب تم میرے پاس آنے والے ہو۔

اس کے بعد امام حسین ع نے اپنے بھائی جناب عباس سے فرمایا: ابن زیاد کی فوج کی طرف جاؤ اور ان سے اس طرف آنے کا مقصد معلوم کرو۔ حضرت عباس تیزی سے ابن زیاد کے لشکر کی طرف بڑھے اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ کیا چاہتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا۔ عبید اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں کا کام تمام کر دیں۔ اگر تسلیم ہونا چاہو تو تمہیں زندہ اس کے پاس بھیج دیں گے, وہ تمہارے بارے میں خود فیصلہ کرے گا۔ اور اگر تسلیم نہ ہوئے تو ہم مجبوراً تم سے جنگ کریں گے۔ حضرت عباس نے واپس آکر ان لوگوں کا جواب اپنے بھائی امام حسین ع سے بیان کیا۔ امام حسین ع نے جناب عباس سے فرمایا:

ان کے پاس جاؤ اگر وہ ایک رات کی مہلت دینے پر راضی ہو جا ئیں تو مہلت لے لو۔ تا کہ اس شب میں نمازیں پڑھیں اور دعائیں کریں اور اپنے پروردگار سے طلب مغفرت کریں۔ خدا وند عالم جانتا ہے کہ میں نماز، قرآن مجید کی تلاوت اور دعا و استغفار سے کتنی محبت کرتا ہوں۔

حضرت عباس نے ابن زیاد کی فوج کے پاس جا کر امام حسین ع کی پیش کش دہرائی- ان لوگوں نے اس کو قبول کر لیا اور ایک دن کے لئے جنگ کو ٹال دیا گیا۔

فوج کو تیاری کا حکم

اب جنگ کا ہونا یقینی ہو چکا تھا اور امام حسین ع کی مختصر سی فوج کا دشمنوں کی اتنی بڑی فوج کے ذریعہ مکمل محاصرہ کیا جا چکا تھا- اب امام کی فوج میں اور اضافہ کا امکان بھی ختم ہو گیا تھا ان حالات کو دیکھتے ہوئے جنگ کا نتیجہ پہلے ہی سے معلوم تھا کہ اس جنگ کا انجام ایک با عزت موت اور راہ خدا میں شہید ہو جانا ہے- اس لئے کہ امام حسین ع ہرگز یزید کے سامنے تسلیم نہیں ہو سکتے تھے, لہٰذا آپ نے فیصلہ کیا اس مختصر سی فوج کے ساتھ انتہائی شجاعت و بہادری سے دشمن کی اس بڑی فوج کا مقابلہ کریں گے اور شہادت کی حد تک ان کے ذریعہ اسیری کی ذلت برداشت نہ کریں گے- آپ نے اس عظیم مقصد کو پورا کرنے کے لئے اس کے اسباب اور مقدمات کو فراہم کرنا ضروری سمجھا اور اپنے اصحاب و انصار یہاں تک کہ اپنے گھر والوں کو بھی اس فیصلہ کے لئے تیار کیا- اس سلسلہ میں آپ نے چند امور انجام دیئے۔

1. اپنے اصحاب و انصار کا امتحان:

امام حسین ع اپنے اصحاب و انصار کو اچھی طرح پہچانتے تھے اور ان کے ایمان، عہد و پیمان کی پابندی اور وفاداری سے بخوبی واقف تھے اس کے باوجود و آپ نے چاہا کہ ان کو نئے حالات اور شہادت کے یقینی ہو جانے سے باخبر کر دیں تا کہ اگر ان کے درمیان کچھ ایسے افراد ہوں جو شہادت قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو وہ بیعت کے اخلاقی دباؤ میں نہ رہیں- اگر وہ اپنی جان کی حفاظت کر سکتے ہیں تو جان بچا کر چلے جائیں- اس لئے غروب آفتاب کے وقت آپ نے اپنے اصحاب و انصار کو ایک خیمہ میں جمع کیا اور ان کو نئے حالات سے آگاہ کیا کہ اب شہادت یقینی ہے جو اس کے لئے تیار نہ ہو وہ اخلاقی دباؤ میں نہ ر ہے اور اپنی جان بچا کر واپس چلا جائے۔ امام زین العابدین نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے, میرے والد بزرگوار نے حمد دنیائے انہی کے بعد فرمایا:

میری نظر میں تم سے بہتر اور تم سے زیادہ باوفا اصحاب کسی کے نہیں تھے اور میں نے اپنے اہلبیت سے بہتر کسی کے اہلیت کو بہتر نہیں پایا- خدا تمہیں بہترین جزائے خیر دے- میرا گمان نہیں تھا کہ لوگ میرے ساتھ ایسا برتاؤ کریں گے، اپنے وعدوں پر عمل نہیں کریں گے اور میری مد سے ہاتھ کھینچ لیں گے اور میرا انجام جنگ اور شہادت ہو گا۔ اب میں اپنی بیعت تمہاری گردنوں سے اٹھائے لیتا ہوں اور تمہیں آزاد کئے دیتا ہوں تم جہاں جانا چا ہو چلے جاؤ اور میری طرف سے کسی قسم کا دباؤ محسوس نہ کرو, رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھا کر اپنی جان بچا کر نکل جاؤ۔

یہ سن کر میرے چچا عباس کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ ہم ہرگز ایسا نہیں کر سکتے ہم چلے جائیں اس لئے کہ آپ کے بعد زندہ رہیں- خدا ایسا دن نہ لائے کہ آپ نہ ہوں اور ہم زندہ رہیں- جناب عباس کے بعد، امام کے دوسرے بھائی, بھتیجے, آپ کی اولاد اور عبداللہ ابن جعفر کی اولاد نے کھڑے ہو کراسی طرح کی باتیں کہیں۔ اس کے بعد میرے والد نے جناب عقیل کے بھائیوں کو مخاطب کیا اور فرمایا: تمہارے لئے مسلم کی شہادت ہی کافی ہے میں تم کو اجازت دیتا ہوں جہاں چاہو چلے جاؤ۔ ان لوگوں نے عرض کیا، سبحان اللہ ہم آپ کو تنہا چھوڑ کر کس طرح چلے جائیں؟ ہم کہاں جائیں گے, اور لوگوں سے کیا کہیں گے یہ کہیں گے کہ اپنے سردار اور اپنے آقا کو تنہا چھوڑ کر آئے ہیں, بغیر اس کے کہ دشمن پر ایک تیر چلا ئیں یا تلوار اور نیزہ کے ذریعہ ان کا دفاع کریں۔ فرزند رسول ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے, ہم آپ کی خدمت میں رہیں گے اور اپنی جان و مال اور اپنے گھر والوں کو آپ پر فدا کر دیں گے- اب جو مصیبت آپ پر آئے گی وہ ہم بھی برداشت کے کریں کے- خدا آپ کے بعد زندگی کا برا کرے۔

اس کے بعد اصحاب کی باری آئی- مسلم ابن عوسجہ کھڑے ہوئے اور عرض کی, اے فرزند رسول ہم آپ کو اکیلا چھوڑ دیں, ہم کہاں جائیں گے؟ نہیں! خدا کی قسم ہم ہرگز نہیں جائیں گے, جب تک اپنا نیزہ دشمنوں کے سینوں میں پیوست نہ کر دیں اور اپنی تلوار سے ان پر ضرب نہ لگائیں- اگر میرا اسلحہ بیکار ہو جائے تو پتھروں سے ان پر حملہ کروں گا- میں آپ سے الگ نہیں ہو سکتا۔ اے فرزند رسول, خدا کی قسم میں آپ کی مدد سے دست بردار نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ خدا آ گاہ رہے کہ ہم نے رسول خدا کے بعد ان کے اہلیت کی حرمت کا پاس و لحاظ رکھا۔

خدا کی قسم اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ آپ سے دفاع کرتے ہوئے شہید ہو جائیں گے اور میرے بدن کو جلا دیا جائے گا اور اس کی راکھ کو اڑا دیا جائےگا اور دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا اور ایسا ستر مرتبہ ہو گا تب بھی آپ کی حمایت سے دست بردار نہیں ہو سکتا, یہاں تک کہ آپ کے سامنے قتل ہو جاؤں۔ اے فرزند رسول خدا ہم آپ کو اکیلا کیسے چھوڑ دیں, جب کہ مجھے معلوم ہے کہ ایک بار سے زیادہ قتل نہیں ہوں گا, اور اس کے بعد ایسی کرامت حاصل ہوگی جو بھی ختم نہ ہوگی۔ مسلم ابن عوسجہ کے بعد کچھ دوسرے اصحاب بھی کھڑے ہوئے اور ہر ایک نے اپنے اعتبار سے مسلم ابن عوسجہ جیسی باتیں کہیں اس کے بعد امام حسین ع نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ امام حسین ع نے اس طرح ایسے حساس وقت میں بھی اپنے اصحاب و انصار کا امتحان لے لیا- اصحاب نے بھی اپنے عہد پر استقامت اور اپنے جذبۂ وفاداری سے آپ کو آگاہ کر دیا۔

2. پناہ گاہ کی تشکیل :

جنگ کے دوران کسی بھی فوج کے لئے ایک بڑا خطرہ پناہ گاہ کا نہ ہونا ہوتا ہے اس لئے ہر فوج جنگ کے لئے پہاڑی، بلند ٹیلے نخلستان یا کسی وسیع دریا کا کنارہ تلاش کرتی ہے, لیکن امام حسین ع کی جنگ کا میدان ایسا نہیں تھا- ابن زیاد کے سپاہیوں نے امام حسین ع کو ایسی جگہ اتارا تھا جہاں کوئی پہاڑ، ٹیلہ یا نخلستان نہیں تھا, اور چاروں طرف سے حملہ کیا جاسکتا تھا- ایسے میدان میں جنگ کرنا بے انتہا مشکل ہوتا ہے- امام حسین ع نے اس مشکل کو حل کرنے کے لئے اپنے اصحاب کو حکم دیا که خیمے قریب قریب لگا ئیں اور ان کی رسیاں ایک دوسرے کے اندر ہی رکھیں اس طرح آپ نے پیچھے سے حملہ کا راستہ بند کردیا- اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ خیموں کی پشت پر خندق کھود کر اس کو لکڑیوں سے بھر دیا جائے تا کہ جنگ کے وقت ان میں آگ لگا دی جائے اور دشمن کے راستہ میں ایک اور رکاوٹ پیدا ہو جائے۔ خود خندق کا کھودا جانا بھی امام حسین ع اور ان کے اصحاب کے خیموں پر حملہ سے مانع تھا۔

3. فوج کو منظم کرنا

ابن زیاد کے ذریعہ امام حسین ع کے خلاف تھوپی گئی جنگ فوجی طاقت اور جنگ کے وسائل کے اعتبار سے برابر کی جنگ نہیں تھی, اس لئے کہ امام حسین ع کی فوج کی تعداد 72 افراد یا زیادہ سے زیادہ 140 افراد بیان کی گئی ہے۔ لیکن ابن زیادکی فوج کی تعداد 22 ہزارسے لیکر 30 ہزار تک لکھی ہے, جس کو ہرگز برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن تعداد کے اس واضح فرق کی وجہ سے امام حسین ع یا ان کے اصحاب کے اوپر نفسیاتی طور سے کچھ دباؤ نہیں تھا اور وہ ہرگز احساس کمتری، کمزوری یا شک و تردد محسوس نہیں کر رہے تھے, بلکہ اپنے دفاع کے لئے بالکل تیار تھے, اور اپنی مختصر سی فوج کو منظم کر رہے تھے۔ امام حسین ع نے زہیر بن قین کو میمنہ لشکر پر اور حبیب ابن مظاہر کو میسرہ پر قرار دیا, اور اپنے بھائی جناب عباس کو لشکر کا علمبردار بنایا۔ ان امور سے فراغت کے بعد امام حسین ع اور ان کے اصحاب و انصار اپنے اپنے خیموں میں چلے گئے اور پوری رات نماز، قرآن کی تلاوت اور خداوند عالم کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول رہے۔ امام حسین ع اور آپ کے اصحاب و انصار نے عاشور کی شب جاگ کر بسر کی, اس عالم میں کہ ان کے خیموں سے خداوند عالم کے ساتھ راز و نیاز اور مناجات کی آوازیں اس طرح آرہی تھیں جس طرح شہد کی مکھیوں کے بھنبھنانے کی آوازیں آرہی ہوں, اور وہاں برابر رکوع وسجود اور قیام بجا لایا جا رہا تھا۔

عاشور کا دن

ماہ محرم کی دسویں تاریخ کو عاشورا کہا جاتا ہے- 61ھ میں اسی دن کربلا کی سرزمین پر انتہائی درد ناک حادثات رونما ہوئے جو قیامت تک فراموش نہیں کئے جاسکتے۔ عاشور کے دن امام حسین ع اور یزیدی فوج کے درمیان شدید جنگ ہوئی جس کا انجام انتہائی درد ناک تھا- امام حسین ع تمام اصحاب و انصار کے ساتھ انتہائی بے دردی سے شہید کر دیئے گئے- صرف حضرت علی ابن الحسین ع چوتھے امام جو سخت بیمار تھے باقی رہ گئے۔ مورخین اور مقاتل لکھنے والوں نے اس دن کے حادثات کو مفصل طور پر تحریر کیا ہے اور ہر شہید کے لئے ایک الگ فصل قائم کی ہے جس میں اس کے میدان جنگ میں جانے, اس کی رجز خوانی, بہادری, اس کے ذریعہ مارے جانے والے افراد کی تعداد, اس کی شہادت کی کیفیت اور اس کے قاتل کا نام ذکر کیا ہے۔ صاحبان مطالعہ اس موضوع پر لکھی جانے والی سینکڑوں کتابوں کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

دونوں طرف کے فوجوں کے سربراہ

حسین ابن علی ع اور یزید ابن معاویہ خاندان، طرز فکر اور مقصد کے اعتبار سے بالکل ایک دوسرے کے برعکس تھے, اور دونوں دو الگ الگ مقاصد کے حصول کی کوشش کر رہے تھے۔ امام حسین ع ایک شریف با عظمت اور دین دار انسان تھے جو اپنی روح کی گہرائیوں سے اسلام اور اسلامی اقدار پر ایمان ویقین رکھتے تھے, آپ ایک پاکیزہ اور معصوم انسان تھے خالص انسانی اور اسلامی جذبات سے لبریز اور تمام حالات میں ان کے پابند تھے- پیغمبر اسلام نے بارہا آپ کی تمجید فرمائی تھی, جیسے ایک حدیث میں فرمایا تھا:

حسن و حسین ع جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔

کردار اور طرز عمل کے یہ دونمونے ملاحظہ فرمائیں,جس وقت امام حسین ع کو حرابن یزید ریاحی کی فوج کا سامنا ہوا اور آپ نے یہ محسوس کیا کہ وہ لوگ پیاسے ہیں، آپ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ ان سب کو یہاں تک کہ ان کے گھوڑوں کو بھی سیراب کر دیں ان کا ایک سپاہی جو پیاس کی شدت کی بنا پر پانی نہیں پی پا رہا تھا, خود امام حسین ع نے پانی پینے کے لئے اس کی مدد کی۔ لیکن ابن زیاد نے اپنی فوج کے کمانڈر عمر سعد کو حکم دیا کہ حسین ع اور ان کے اصحاب و انصار اوران کے گھر والوں پر پانی بند کر دیا جائے, اور ان کے خیموں میں ایک قطرہ پانی بھی نہ جانے دیا جائے۔

امام حسین ع کسی طرح بھی جنگ پر مائل نہ تھے اور آپ کی یہی کوشش تھی کہ جنگ کی ابتدا آپ کی طرف سے نہ ہو- بلکہ جنگ کی ابتداء میں بھی جب ایک سب سے خبیث اور سب سے خطرناک دشمن شمر ابن ذی الجوشن کا سامنا ہوا, اور آپ کے ایک صحابی نے اس کو تیر کا نشانہ بنانا چاہا تو آپ نے منع کر دیا اور فرمایا, میں جنگ کی ابتدا کرنا نہیں چاہتا۔ لیکن عمر ابن سعد نے اپنی فوج کو جنگ کی ابتدا کا حکم دیا اور اپنے فوجیوں سے کہا: تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ کیوں جنگ شروع نہیں کرتے؟ یہ کہہ کر اس نے پانچ سو تیر اندازوں کو حکم دیا کہ حسین ع اور ان کے اصحاب و انصار پر تیروں کی بارش کر دیں۔

یزید ابن معاویہ ایک لا ابالی شخص تھا جو اسلامی اقدار اور اس کے احکام و قوانین کا مطلق خیال نہیں کرتا تھا- زیاد ابن ابیہ, جس سے معاویہ نے یزید کی خلافت کے لئے اقدام کرنے کو کہا تھا, اس نے معادیہ کو لکھا تھا کہ ہم کس طرح یزید کی ولی عہدی کی بات کر سکتے ہیں اور اس کے لئے لوگوں سے بیعت لے سکتے ہیں جب کہ وہ کتوں اور بندروں سے کھیلنے والا ہے, وہ طرح طرح کے رنگین لباس پہنتا ہے, ہمیشہ شراب پیتا رہتا ہے اور ساز و موسیقی کی آواز پر تھرکتا ہے۔ یزید ہی وہ شخص تھا جس نے اپنی غیر شرعی حکومت کے استحکام اور امام حسین ع سے بیعت لینے کے لئے مدینہ میں اپنے نمائندہ کو لکھا تھا کہ حسین ابن علی ع سے بیعت لو اور اگر منع کریں تو انھیں قتل کر دو۔

امام حسین ع نے مجبورا مکہ کی طرف ہجرت کی, لیکن یزید نے کچھ افراد معین کر دیئے اور ان کو حکم دیا کہ امام حسین ع کو عین حرم امن الہی میں شہید کر دیں جس کی وجہ سے امام حسین ع کو کوفہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔  

آخر کار یزید کے حکم سے امام حسین ع اور ان کے اصحاب و انصار کو کربلا کے میدان میں شہید کر دیا گیا, اور ان کے اہلبیت کو اسیر کر کے شام لے جایا گیا۔ اس یزید نے مسلم ابن عقبہ کو حکم دیا کہ پانچ ہزار سپاہیوں کے ساتھ مدینہ رسول پر حملہ کرے, اور تین دن تک مدینہ کی عورتوں اور لڑکیوں کو اپنے سپاہیوں پر مباح کر دے۔ ان لوگوں نے ان کے اموال کو غارت کیا اور ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا جس سے تاریخ کا چہرہ سیاہ ہو کر رہ گیا- آخر کار ان لوگوں نے مدینہ کے لوگوں سے بیعت لی کہ یزید کے غلام بن کر رہیں۔

امام حسین ع کے والد ماجد پیغمبر اسلام کے بعد اسلام کی دوسری اہم شخصیت تھے۔ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلام کی آواز پر لبیک کہی جب کہ اس وقت سن بلوغ تک کو بھی نہیں پہونچے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی خدمت کی، کلام الہی کے کاتب اور حافظ قرآن تھے- شب ہجرت پیغمبر اسلام کے بستر پر سوئے تا کہ آپ کی جان دشمنوں کے حملہ سے محفوظ رہے- جناب فاطمہ زہرا کے شوہر اور پیغمبر اسلام کے داماد تھے- آپ انتہائی شجاع انسان تھے- دور پیغمبر تمام اسلامی جنگوں میں شرکت کی اور بہت سے دشمنان اسلام آپ کے ہاتھوں سے مارے گئے۔ نبوت کے تمام علوم پیغمبر اسلام سے سیکھے اور مخزن علوم نبوت قرار پائے- اسلام اور اقدار اسلامی پر دل و جان سے ایمان رکھتے تھے, اور خود تمام اسلامی اقدار کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔

یزید کا باپ معاویہ ابن ابوسفیان تھا ابن ابی الحدید نے اس طرح معاویہ کا تعارف کرایا ہے:

وہ ریشمی لباس پہنتا تھا, سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا کھاتا تھا- جب ابو درداء نے ان کی حرمت کے بارے میں حدیث رسول بیان کی تو اس نے جواب دیا, میری نظر میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔اپنی من مانی سے لوگوں پر حد جاری کرتا تھا۔ بعض ایسے افراد جن کا کوئی جرم نہیں ہوتا تھا ان پر حد جاری کر دیتا تھا۔ بعض لوگوں پر جرم ثابت ہونے کے باوجود حد جاری نہیں کرتا تھا۔ زیاد ابن ابیه کو اپنے سیاسی مقاصد کی بنا پر اپنے باپ ابوسفیان کا بیٹا قرار دے لیا, جب کہ پیغمبر اسلام کی حدیث تھی ”الولد للفراش“

بیت المال کے اموال اپنی من مانی سے خرچ کرتا تھا اور انھیں اپنے ذاتی خرچ میں بھی لاتا تھا۔ حجر ابن عدی اور ان کے ساتھیوں کو شہید کیا۔ پیغمبر اسلام کے عظیم صحابی ابوذرغفاری کو گالیاں دیں اور ان کو بے پالان شتر پر سوار کر کے مدینہ بھیجا۔ حضرت علی ابن ابی طالب ، امام حسن ع اور امام حسین ع پر منبر سے لعنت کرتا تھا۔ اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد بنایا جب کہ وہ ہمیشہ شراب پیتا رہتا تھا، شطرنج اور تنبور بازی کرتا تھا اور گلوکار کنیزوں کے بیچ میں سوتا تھا۔

امام حسین ع کے جد حضرت محمد ابن عبداللہ تھے جن کا علم و ایمان اخلاقی بلندی اور خاندانی شرافت واضح ہے اور اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یزید کا جد ابوسفیان ابن حرب تھا ابوسفیان مشرکین کا سردار تھا اور ہمیشہ پیغمبر اسلام سے دشمنی کیا کرتا تھا اور ان کی پیروی کرنے والوں کو آزار واذیت دیتا تھا۔ جنگ بدر میں مسلمانوں سے جنگ کے لئے کفار و مشرکین کی تشویق کر رہا تھا- اسی جنگ میں اس کا ایک بیٹا حنظلہ ہلاک ہوا اور دوسرا بیٹا عمر ابن ابو سفیان اسیر ہوا تھا۔ جنگ احد میں بھی مسلمانوں سے جنگ کے لئے کفار کو تیار کر کے لایا تھا- اس جنگ میں پیغمبر اسلام کے چچا حمزہ ابن عبد المطلب شہید ہوئے, اور ان کا جگر ابوسفیان کی زوجہ ہند کے لئے تحفہ میں بھیجا گیا۔ اس نے غصہ کی شدت میں اس کو منھ میں رکھ کر چبا لیا اور اس کے بعد خود حمزہ کے جنازہ کے سرہانے جا کر ان کے بدن مبارک کو مثلہ کیا، یعنی آپ کے ناک کان اور دوسرے اعضاء و جوارح کاٹے اور ان کا کنگن اور ہار بنا کر پہنا۔

ابو سفیان نے اس جنگ کے خاتمہ پر جس میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے تھے خوشی کا اظہار کیا وہ کہہ رہا تھا : اعل هبل! لنا عزى و لا عزى لكم.ابوسفیان فتح مکہ تک اپنے کفر پر باقی رہا اور پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کرتا رہا۔ فتح مکہ کے بعد اگر چہ بظاہر مسلمان رہا اور پیغمبر اسلام نے بھی اس کے ساتھ رحم کا برتاؤ کیا لیکن تاریخ کے بعض واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے: عثمان لوگوں کی بیعت کے بعد اپنے گھر گئے بنی امیہ کے بہت سے افراد ان کے گھر میں جمع تھے اور دوسروں کو گھر میں نہیں آنے دے رہے تھے- ابوسفیان جو اس وقت نابینا ہو چکا تھا وہ بھی وہاں موجود تھا- اس نے وہاں موجود افراد کی طرف رخ کر کے کہا: کیا بنی امیہ کے علاوہ کوئی اور بھی یہاں موجود ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں ! س نے کہا: اے بنی امید اب جب حکومت تمہارے ہاتھ میں آگئی ہے اس کی قدر کرو اور ایک گیند کی طرح اپنے درمیان نچاتے رہو- خیال رکھنا دوسرے اس کو تمہارے ہاتھ سے نہ لے سکیں- قسم ہے اس چیز (بت) کی, ابوسفیان جس کی قسم کھاتا ہے, نہ کوئی عذاب ہے اور نہ حساب و کتاب نہ جنت ہے نہ جہنم نہ حشر کا تصور ہے اور نہ قیامت آنے والی ہے۔

دونوں طرف کے سربراہوں کے مقاصد

امام حسین ع اور یزید دونوں کا مقصد بالکل ایک دوسرے سے الگ تھا۔ امام حسین ع کا مقصد جیسا کہ محمد حنفیہ کے نام آپ کی وصیت سے معلوم ہوتا ہے تین چیزیں تھیں:

  1. اپنے جد پیغمبر اسلام کی امت کی اصلاح کرنا۔
  2. امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا۔
  3. پیغمبر اسلام اور امیر المومنین علی کی فراموش شدہ سیرت کو زندہ کرنا۔

امام حسین ع ان تینوں مقاصد کو دو ممکنہ راستوں سے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ایک حقیقی اسلامی حکومت کی تشکیل کے ذریعہ اگر اس کے لئے مناسب ماحول اور امکانات فراہم ہو جائیں۔ دوسرے اگر اسلامی حکومت کے قیام کے لئے ماحول سازگار نہ ہو سکے اور جنگ و خونریزی کی نوبت آجائے تو مع اپنے اصحاب و انصار کے شہادت کی حد تک انتہائی جواں مردی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کر کے- اس طرح عملی طور پر مسلمانوں کو دینداری، خدا کی راہ میں جہاد، اسلام اور اقتدار اسلامی کے دفاع کا سبق سکھایا جا سکے۔ اس کے علاوہ آپ کے قیام کے ذریعہ یزید کی حکومت کا غیر شرعی اور غیر قانونی ہونا بھی ثابت ہو جائے گا- اس کی بدکرداری ظلم و ستم اور اس کا باطنی کفر و نفاق بے نقاب ہو جائے گا, اور اس طرح بنی امیہ کے خلاف قیام کا ماحول فراہم ہو جائے گا۔ حضرت امام حسین ع کے قیام کا پہلا مقصد اگر چہ حاصل نہ ہو سکا, یعنی اسلامی حکومت کا قیام نہ ہو سکا لیکن دوسرا مقصد مکمل طور پر حاصل ہو گیا۔ یزید ابن معاویہ کے بھی اس جنگ میں دو مقاصد تھے:

1. پیغمبر اسلام کے فرزند حسین ابن علی ع سے بیعت لے کر اپنی غیر شرعی اور غیر اسلامی حکومت کو مضبوط کرنا اور اپنی حکومت کے لئے ان کی تائید حاصل کرنا اور ظلم و ستم اور عیاشی کو جاری رکھنا۔ یعقوبی تحریر کرتے ہیں: یزید ابن معاویہ نے اپنے باپ کی موت کے بعد مدینہ کے حاکم ولید ابن عتبہ کولکھا کہ جیسے ہی تمہیں میرا خط ملے حسین ابن علی ع اور عبداللہ ابن زبیر کو بلا کر ان سے میری بیعت لے لو- اگر بیعت سے انکار کریں تو ان دونوں کو قتل کر کے ان کے سر میرے پاس بھیج دو۔

2. بنی ہاشم سے دشمنی اور ان سے انتقام لینا خاص طور پر علی ابن ابی طالب کی اولاد سے- اس لئے که جنگ بدر میں یزید کے چچا اور بعض دوسرے قریش کے سردار اور یزید کے رشتہ دار عقبہ, شیبہ, ولید, اور ابو جہل ہلاک ہوئے تھے۔یزید اور معاویہ دونوں اگر چہ اسلام کے دعویدار تھے لیکن جاہلیت کے زمانے کے کینے ابھی تک ان کے دلوں میں جگہ بنائے ہوئے تھے- اس لئے کربلا کے واقعہ کے سلسلہ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس واقعہ سے یزید کا ایک مقصد پیغمبر اسلام کی اولاد سے انتقام لینا تھا- تاریخ کی کتابوں میں اس بات کے شواہد موجود ہیں۔ لکھا ہے کہ جس وقت امام حسین ع کے اہلبیت اسیر ہو کر شام پہونچے یزید کے سپاہی امام حسین ع کا سر مبارک لے کر یزید کے دربار میں حاضر ہوئے- یزید نے حکم دیا کھانے کا دستر خوان بچھایا جائے۔ دستر خوان پر امام کا سر مبارک رکھا گیا یزید اپنے اصحاب کے ساتھ شراب پی پی کر کھانا کھار ہا تھا۔ امام حسین ع کا سر مبارک ایک طشت میں رکھ کر اس کے اوپر شطرنج کھیل رہا تھا اور امام حسین ع ، ان کے والد ماجد اور ان کے جد بزرگوار کا مذاق اڑاتا جارہا تھا۔ جب کھیل میں اپنے مقابل پر کامیاب ہو جاتا تھا تو فقاع نامی شراب کا جام پی کر بچی ہوئی شراب پھینک دیتا تھا۔ اور اس مضمون کے اشعار پڑھتا تھا: اے کاش ہمارے بدر کے بزرگ موجود ہوتے اور حسین ع کی شہادت اور ان کے اہلبیت کی اسیری کو دیکھتے تو خوش ہو کر کہتے شاباش یزید، تو نے بدر میں مارے جانے والوں کا بدلہ لے لیا۔

دونوں طرف کی فوجوں میں موازنہ

امام حسین ع اور یزید ابن معاویہ کے سپاہی اپنی شخصیت اور طرز تفکر کے اعتبار سے اپنے اپنے رہبروں کی طرح ہی تھے۔ امام حسین ع کے اصحاب و انصار دیندار، با ایمان، عدالت پسند، ایثار رکھنے والے، شجاع ، بہادر، باوفا ، صاحب کرامت, متقی، غیرتمند، حرص و ہوس سے پاکیزہ، انصاف پسند اور خیر خواہ تھے- وہ مال و منال، جاہ و حشم اور منصب کی تلاش میں امام کے ساتھ نہیں آئے تھے بلکہ وہ لوگ امام کے پاکیزہ مقصد سے آگاہ تھے اور اس کے حصول کے لئے امام کے ساتھ آئے تھے- ان لوگوں نے امام کے مقاصد کے حصول کے لئے انتہائی شجاعت اور بہادری سے جنگ کی اور ولایت کا دفاع کرتے ہوئے آخر کار انتہائی جوش و خروش اور جذبہ ایثار و قربانی کے ساتھ جام شہادت نوش فرمایا, اور اپنے معبود کی بارگاہ میں پہونچ گئے۔ یہاں ہم صرف دو نمو نے ذکر کرنے پر اکتفا کر رہے ہیں:

پہلا نمونہ: 4 محرم کو عصر کے بعد عمر ابن ذی الجوشن امام حسین ع کے خیموں کے نزدیک آیا اور کہا کہ میری بہن کے بیٹے کہاں ہیں؟ وہ عباس جعفر عبداللہ اور عثمان کے بارے میں پوچھ رہا تھا, جو ام البنین کی اولاد تھے- ام البنین کی شمر بن ذی الجوشن سے قرابت داری تھی۔ جناب عباس شمر کی بات کا جواب دینا نہیں چاہ رہے تھے, لیکن امام حسین ع نے فرمایا: جاؤ جا کر دیکھو وہ کیا کہہ رہا ہے؟ جناب عباس نے شمر کے پاس جا کر پو چھا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ شمر نے جواب دیا میں عبید اللہ ابن زیاد کی طرف سے تم لوگو کے لئے امان نامہ لایا ہوں لہذا تم لوگ امان میں ہو- لہذا اپنے کو ہلاکت میں مبتلا ہونے سے بچا سکتے ہو۔ حضرت عباس نے جواب میں فرمایا, خدا تجھ پر اور تیرے امان نامہ پر لعنت کرے- ہم امان میں ہیں, اور فرزند رسول کے لئے امان نہیں ہے۔

دوسرا نمونہ: عاشور کے دن ظہر کے وقت جب جنگ کا میدان گرم تھا تو آپ کے ایک صحابی ابو ثمامہ صیدادی نے امام حسین ع سے عرض کیا, میری جان آپ پر قربان ہو جائے, دشمن نزدیک آ رہے ہیں لیکن ہم جب تک زندہ ہیں آپ پر آنچ نہ آنے دیں گے۔ میں چاہتا ہوں یہ نماز پڑھ لوں پھر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔ امام حسین ع نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا: خدا تمہیں نماز گزاروں میں شمار کرے۔ ظہر کی نماز کا اول وقت ہے ابن زیاد کے سپاہیوں سے کہہ دو ہمیں مہلت دیدیں اور ہم اپنی نماز ادا کر لیں۔ دشمن کی فوج کے ایک سپاہی نے کہا: حسین ع تمہاری نماز قبول نہیں ہے۔ حبیب ابن مظاہر نے اس کے جواب میں فرمایا: او خبیث, فرزند پیغمبر کی نماز قبول نہیں ہوگی اور تیری نماز قبول ہوگی؟ اس کے بعد زہیر بن قین اور سعید ابن عبد اللہ نے اپنے کو تیروں کے مقابلہ میں سپر قرار دیا تا کہ امام حسین ع نماز ادا کرسکیں- جدھر سے بھی تیر آتا, سعید ابن عبداللہ بڑھ کر اس کواپنے سینے پر روک لیتے تھے, کہ کہیں وہ تیر امام حسین ع کو نہ لگ جائے- آخرکار زخموں سے چور ہو کر وہ زمین پر گر پڑے اور عرض کیا پروردگار میرا سلام اپنے پیغمبر تک پہونچا دے اور میرے جسم کے زخموں سے ان کو آگاہ کر دے. پروردگار تو جانتا ہے کہ میں نے تیرے رسول کی ذریت کا دفاع کرنے میں کوتاہی نہیں کی ہے۔ اتنا کہہ کر سعید دنیا سے رخصت ہو گئے- جب ان کے جنازہ کو دیکھا گیا تو تلواروں کے زخم کے علاوہ تیرہ تیر آپ کے جسم مبارک پر لگے تھے۔

یزید کے طرفدار اور اس کے سپاہی, اسی کی طرح تھے, اور اپنے دنیاوی اور حیوانی مقاصد کے حصول کے لئے کربلا میں آئے تھے- یزید کی فوج کے افراد مال و دولت کے دلدادہ ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی کے غلام، جاہ وحشم کے حریص، بے نام و نشان, ضعیف الایمان اور خود فروش لوگ تھے, جو اپنے حیوانی مقاصد کے حصول کے لئے کسی طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ یزید کی حکومت کے استحکام کے لئے کوشاں تھے تا کہ اس کے ذریعہ مال و دولت، جاہ و حشم اور منصب حاصل کر سکیں۔ عبید اللہ ابن زیاد جو اقتدار اور منصب کا دلدادہ تھا یزید کی طرف سے کوفہ کی حکومت ملنے کے بعد اس کی خوشامد میں کربلا کی خونریز جنگ کی قیادت کے لئے تیار ہو گیا اور ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا جن کو بیان تک نہیں کیا جا سکتا۔

ابن زیاد جب کوفہ پہونچا تو اس نے مسلم کے گرد جمع افراد کو متفرق کرنے کے لئے لالچ اور دھمکیوں کا سہارا لیااس نے لوگوں کو امام حسین ع سے جنگ کرنے پر تیار کرنے کے لئے بھی یہی حربہ استعمال کیا۔ فوج کا کمانڈر عمر ابن سعد اس خوف سے امام حسین ع سے جنگ کے لئے تیار ہو گیا, کہ رے کی حکومت کا پروانہ واپس نہ لیا جائے, اور انتہائی سنگین جرائم کا ارتکاب کیا۔ البتہ ایمان کی کمزوری اور جہالت بھی اس کے اس فیصلہ کا ایک اہم سبب تھی- ایمان کی کمزوری، جہالت اور کسی پہچان کا نہ ہونا ہی تھا کہ ابن زیاد کے سپاہی ہر طرح کے جرم و جنایت یہاں تک کہ ایسے بے رحمانہ سلوک پر بھی تیار تھے جو جنگی قوانین کے اعتبار سے جرم محسوس ہوتے ہیں- امام حسین ع کے اصحاب و انصار ان کی عورتوں اور بچوں پر فرات کا پانی بند کر دیا, اس طرح کہ حسین ع کے خیموں سے العطش العطش کی آواز میں بلند تھیں۔ نابالغ بچوں بلکہ شیر خوار بچوں تک کو قتل کرنے سے گریز نہیں کیا-

امام حسین ع اور ان کے اصحاب وانصار کی شہادت کے بعد انتہائی بے رحمی سے ان کے سروں کو ان کے جسموں سے الگ کیا اور ان کو فوج کے افسروں میں تقسیم کر دیا, تاکہ یزید اور ابن زیاد سے انعام لے سکیں- شہیدوں کے لباس یہاں تک کہ انتہائی کم قیمت لباسوں تک کو لوٹ لیا- امام حسین ع کے خیمہ کو غارت کر دیا۔ امام کے گھرانے کی بچیوں کے گوشوارے چھیننے میں ان کے کانوں کی لوؤں کے پھٹنے تک کا احساس نہیں کیا۔ خیموں میں آگ لگا دی۔ اپنی فوج کے مقتولین کو دفن کر دیا, لیکن امام حسین ع، ان کے اصحاب و انصار کی لاشوں کو بے گورو کفن چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے, جب کہ مسلمان کی تلقین و تد فین واجب ہے۔ شہداء کے گھر والوں کو اسیر کرلیا اور جنگی اسیروں کی طرح کر بلا سے کوفہ لے جا کر ابن زیاد کے دربار میں ان کی توہین کی گئی۔ کوفہ اور شام کے راستہ میں دیہاتوں اور شہروں میں ان کی تشہیر کی اور انھیں تماشا بنا کر پیش کیا۔ شام پہنچ کر شہر کو آراستہ کرایا گیا, ان کو دیکھنے کا اعلان کیا گیا- پیغمبر اسلام کے اہل بیت کو شام کی گلیوں اور بازاروں میں پھرایا گیا اس کے بعد یزید کے دربار میں لے جاکر ان کی تو ہین کی گئی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ تمام جرائم اور مظالم ان لوگوں نے کئے جو خود کو مسلمان اور ان پیغمبر اسلام کا پیرو سمجھتے تھے جو کہ انہیں شہیدوں اور اسیروں کے جد بزرگوار تھے۔

امام حسین ع کے مقاصد اور ان کے حصول کے ذرائع

کربلا کے خونریز واقعہ میں امام حسین ع کے مقصد کی صحیح معرفت کے لئے بہتر ہے کہ اس سلسلہ میں خود آپ کے کلام کا سہارا لیا جائے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ, امام حسین ع نے مدینہ سے نکلتے وقت محمد حنفیہ سے وصیت کرتے ہوئے تین چیزوں کو اپنے قیام کا مقصد قرار دیا ہے

  1. مسلمانوں کے امور کی اصلاح
  2. امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
  3. اپنے جد رسول خدا اور اپنے بابا علی مرتضی کی سیرت کو زندہ کرنا۔

اگر غور کیا جائے تو یہ اندازہ ہوگا کہ آپ کے قیام کا سب سے اہم مقصد امت کے امور کی اصلاح تھی جس نے پیغمبر اسلام کی سیرت کو بھلا دیا تھا اور عبادت، سماجیات، اخلاق، سیاست، اقتصاد غرض کہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں گمراہی کا شکار ہوگئی تھی- امام حسین ع کا مقصد تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ اس امت کی اصلاح کے تمام مراحل طے کئے جائیں۔ اس بنا پر امام حسین ع کے قیام اور آپ کی تحریک کو ایک اعتراض آمیز اصلاحی تحریک کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے, جو حالات اور ماحول کے پیش نظر مختلف مراحل میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صورت میں آگے بڑھی۔

پہلا مرحلہ: مدینہ سے ہجرت

معاویہ کی موت کے بعد اس کے بیٹے یزید نے مدینہ کے حاکم ولید کوخط لکھا کہ حسین ابن علی ع سے بیعت لے لے, اور اگر وہ انکار کریں تو ان کو قتل کر دے۔ امام حسین ع جو یزید کی حکومت کو قانونی اور شرعی حکومت نہیں سمجھتے تھے اور کسی طرح بیعت کر کے اس کی تائید نہیں کر سکتے تھے, لہذا آپ نے بہت سے انکار کر دیا اور اس کی حکومت پر اعتراض اور اس سے ناراضگی کے اظہار کے لئے مدینہ سے مکہ کی طرف ہجرت کر لی- آپ کا یہ عمل ایک طرح سے نہی عن المنکر ہی تھا۔

دوسرا مرحلہ: مکہ میں قیام

عملی اعتراض کے ساتھ ساتھ ممکنہ صورت میں امام حسین ع مکہ میں رہ کر مختلف دور دراز شہروں سے حج کے لئے آئے ہوئے افراد کے سامنے یزید کی حکومت کے خلاف اعتراض اور اپنی ناراضگی کی آواز بلند کرنا چاہتے تھے۔ یہ بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہی کا ایک طریقہ تھا, لیکن ملک میں دو نئے حادثات رونما ہوئے جو آپ کے اس ارادہ پر اثر انداز ہو سکتے تھے۔ ایک یہ کہ مکہ میں امام حسین ع کے قیام کے دوران کوفہ کے شیعوں کو یہ معلوم ہو گیا کہ امام حسین ع نے یزید کی بیعت نہیں کی ہے اور آپ مکہ میں قیام پذیر ہیں, جس کے بعد ان لوگوں نے بہت سارے خطوط لکھ کر آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔ دوسرے یہ کہ امام حسین ع کو معلوم ہوا کہ یزید نے چند افراد کو مکہ میں آپ کو خفیہ طور پر قتل کرنے کی ذمہ داری دیکر بھیجا ہے۔

تیسر امرحلہ: کوفہ کی طرف روانگی

ان نئے حوادث کے پیش نظر حالات بدل گئے- ایک طرف امام کے لئے مکہ میں رہنا مشکل ہو گیا- اس طرح آپ قتل ہو جاتے تو حرم الہی کا تقدس بھی پامال ہو جاتا اور آپ کے خون بہہ جانے کا کوئی فائدہ بھی نہ ہوتا- دوسری طرف کوفہ کے شیعوں نے آپ کو بلایا تھا- آپ کے پاس ان کی دعوت قبول نہ کرنے کے لئے کوئی حجت نہیں تھی۔ لہذا آپ نے اپنی ذمہ داری سمجھی کہ کوفہ کی طرف سفر کریں, اور اپنے اس اعتراض آمیز سفرکو جاری رکھیں, لیکن پھر بھی احتیاط کے پیش نظر آپ نے پہلے مسلم ابن عقیل کو کوفہ روانہ کیا تا کہ قریب سے حالات کا جائزہ لیں, اور آپ کو وہاں کے حالات سے آگاہ کریں- کچھ عرصہ بعد امام حسین ع کے پاس جناب مسلم کا خط پہنچا جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ کوفہ کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے میری بیعت کر لی ہے اور آپ کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان حالات میں امام حسین ع نے محسوس کیا کہ انھیں عراق جانا چاہئے اس لئے کہ اس طرح ایک طرف آپ اپنے اعتراض آمیز سفر کو جاری رکھ سکتے ہیں, اور دوسری طرف کوفہ والوں کے خطوط اور مسلم کی اطلاع سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بغیر جنگ و خونریزی کے ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کے حالات فراہم ہو گئے ہیں, جس کے نتیجہ میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد آپ اپنے جد پیغمبر اسلام کی سیرت کو زندہ کر سکتے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کے حالات میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے, جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عالی ترین مرتبہ ہے۔ اس سلسلہ میں اگر کوفہ والوں نے اپنے وعدہ پر عمل نہ کیا یا اس راستہ میں کوئی دوسری مشکل پیدا ہوگئی تو نے حالات اور نئی جگہ کے مطابق دوسری ذمہ داری پر عمل کریں گے, اور کسی بھی حال میں اپنے اعتراض کی آواز کو خاموش نہیں ہونے دیں گے۔ اس صورت حال کے پیش نظر امام حسین ع نے حج کو عمرہ مفردہ سے بدلا اور کوفہ روانہ ہو گئے۔

چوتھا مرحلہ: جناب مسلم کی شہادت کی خبر

امام حسین ع نے ثعلبیہ میں جناب مسلم کی شہادت کی خبر سنی اور اس طرح آپ کو نئے حالات کا سامنا ہوا, لہذا اب آپ کو انہیں حالات کے مطابق فیصلہ کرتا تھا- اس سلسلہ میں آپ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جناب مسلم کی شہادت کی خبر بغیر کسی رازداری کے اپنے اصحاب کے سامنے بیان کر دی اور ان کے نظریات معلوم کئے- اولاد عقیل نے عرض کیا کہ ہم مسلم کے خون کا انتقام لینا چاہتے ہیں چاہے اس راہ میں خود بھی قتل ہو جائیں۔ امام حسین ع نے فرمایا:

مسلم اور ہانی کی شہادت کے بعد زندگی کا مزہ ختم ہو گیا۔

بعض اصحاب نے عرض کیا فرزند رسول, خدا کی قسم آپ مسلم نہیں ہیں- کوفہ والوں نے آپ کو بلایا ہے- لہذا آپ جیسے ہی کوفہ پہونچیں گے وہ آپ کے گرد اکٹھا اور آپ کی حمایت پر کمر بستہ ہو جائیں گے۔ ان حالات میں امام حسین ع کے پاس صرف دو راستے باقی رہ گئے تھے- یا کوفہ کی طرف سفر جاری رکھیں, یا کوفہ کا ارادہ بدل کر کسی اور جگہ چلے جائیں, اور وہاں کے حالات کے مطابق اپنی ذمہ داری کو ادا کریں۔ امام حسین ع نے پہلے راستے کا انتخاب کیا, اس لئے کہ ایک تو ابھی آپ کوفہ والوں کی حمایت سے بالکل مایوس نہیں ہوئے تھے, اور آپ کے اصحاب و انصار کا بھی یہی خیال تھا۔

دوسرے اگر کوفہ والے اپنے وعد ہ پر عمل نہ بھی کرتے تب بھی وہاں رہ کر نئے حالات کے مطابق بہتر طریقہ سے اپنی ذمہ داری کو ادا کیا جا سکتا تھا, اور اپنی اعتراض آمیز تحریک جاری رکھی جا سکتی تھی- اس لئے آپ نے فیصلہ کیا کہ آپ کوفہ جائیں گے۔ امام حسین ع نے اس بات کے پیش نظر کہ ممکن ہے اب تک کے سفر میں آپ کے ساتھ کچھ ایسے افراد ہوں جو اب اس خطر ناک سفر میں ساتھ رہنا نہ چاہیں, اور شرم و حیا کی وجہ سے کچھ نہ کہہ سکیں, اس جگہ ایک اہم کام یہ کیا کہ اپنے اصحاب کو جمع کیا اور فرمایا:

جیسا کہ تم لوگوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ مسلم شہید ہو چکے ہیں اور کوفہ کے حالات بدل گئے ہیں, لیکن میرا ارادہ اب بھی کوفہ جانے کا ہے- میں اپنی بیعت تم لوگوں پر سے اٹھائے لیتا ہوں- جو چاہے مجھے چھوڑ کر جہاں اس کا دل چاہے جا سکتا ہے۔
امام کے ساتھ سفر کرنے والوں میں چند افراد امام کو چھوڑ کر چلے گئے, اور امام حسین ع کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔

پانچواں مرحلہ: حر کے لشکر کا سامنا

امام حسین ع جتنی جلدی بھی ممکن ہو کوفہ پہنچ جانا چاہتے تھے لیکن آپ کو کوفہ پہنچنے سے پہلے حر کے لشکر کا سامنا ہوا- ان لوگوں نے آپ کا راستہ بند کر دیا۔ امام ع نے حر سے فرمایا:

مجھے کوفہ والوں نے بلایا ہے اگر وہ لوگ اپنے اس فیصلہ سے پشیمان ہو گئے ہیں تو میں واپس حجاز یا کسی اور جگہ چلا جاؤں گا۔

حر نے جواب دیا: مجھے اس کی خبر نہیں ہے مجھے حکم ملا ہے کہ آپ کو اسیر کر کے ابن زیاد کے پاس کوفہ لے جاؤں اور وہاں وہ جو چاہے آپ کے بارے میں فیصلہ کرے۔ امام حسین ع کے سامنے یہ نئی صورت حال پیش آگئی تھی- ابن زیاد کے سامنے تسلیم ہو جانا ذلت کے ساتھ بیعت یا رسوائی کے ساتھ شہادت کے سوا کچھ اور نہیں تھا, اور آپ اس کو ہرگز قبول نہیں کر سکتے تھے- اس لئے آپ نے راستہ بدل دیا اور کوفہ کے بجائے کسی نئی منزل کی طرف روانہ ہو گئے, تا کہ اس کشمکش کو ختم کریں اور دوسرے مقامات پر اپنی اعتراض آمیز تحریک کو آگے بڑھائیں۔

چھٹا مرحلہ: کربلا کی زمین پر اترنا

امام حسین ع کا قافلہ سفر کر رہا تھا اور حر کے لشکر والے امام پر بغیر کوئی دباؤ ڈالے امام کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے, یہاں تک کہ یہ قافلہ کربلا پہونچ گیا- وہیں پر حر کے پاس ابن زیاد کا خط پہونچا کہ حسین ع کو یہیں روک لو اور ان کو آگے نہ بڑھنے دو۔ ابن زیاد کے اس حکم کے بعد حالات پھر بدل گئے۔ امام حسین ع نہ کوفہ جاسکتے تھے اور نہ کسی اور منزل کی طرف سفر کر سکتے تھے یہاں بھی امام کے سامنے دو راستے تھے- چند دن اور زندہ رہنے کے لئے ذلت برداشت کرتے ہوئے تسلیم ہو جاتے, یا دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے اور اس مقدس دفاع کی راہ میں عزت وسربلندی کے ساتھ شہادت کے عظیم درجہ پر فائز ہو جاتے۔ امام حسین ع ایسے حساس اور خطرناک حالات میں بھی اپنے مقصد کو زندہ رکھنے سے غافل نہیں ہوئے۔ اور شہادت کی حد تک شجاعت و جوانمردی کے ساتھ جنگ اور دفاع کا فیصلہ کیا تا کہ عملی طور پر مسلمانوں کو آزادی، دینداری، عدالت پسندی اور ظلم وجور کے خلاف جہاد کا سبق سکھائیں- بنی امیہ کی غیر قانونی اور غیر شرعی حکومت کی بنیادیں متزلزل کر دیں. یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سب سے آخری اور اہم ترین مرحلہ تھا۔

متعلقہ تحاریر