ہجرت کے بعد اعرابی ہونا

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 22/05/2022 1559

عرب کے وہ صحرا نشین بدو اور دیہاتی جو مذہب اور اس کے آداب ورسوم سے بالکل بے خبر اور بے پروا ہوں انہیں اعرابی کہتے ہیں۔ کیونکہ مرکز اسلام اور مسلمین کے اجتماع سے دوری کے سبب وہ دینی احکام نہیں سیکھ سکتے تھے نہ انہیں یاد کر سکتے تھے اور نہ ہی ان پر عمل پیرا ہوسکتے تھے اسی وجہ سے قرآن میں خداوند عالم نے ان کی مذمت فرمائی:

ٱلْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًۭا وَنِفَاقًۭا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا۟ حُدُودَ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌۭ ٩٧ وَمِنَ ٱلْأَعْرَابِ مَن يَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ مَغْرَمًۭا وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ ٱلدَّوَآئِرَ ۚ عَلَيْهِمْ دَآئِرَةُ ٱلسَّوْءِ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌۭ ٩٨ وَمِنَ ٱلْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْـَٔاخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَـٰتٍ عِندَ ٱللَّهِ وَصَلَوَٰتِ ٱلرَّسُولِ ۚ أَلَآ إِنَّهَا قُرْبَةٌۭ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ ٱللَّهُ فِى رَحْمَتِهِۦٓ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ (توبہ: 97-99 )
دیہاتی لوگ کفر اور نفاق میں بہت ہی سخت ہیں اور اس قابل ہیں کہ ان کو ان احکام کا علم نہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں اور اللہ بڑا علم واﻻ بڑی حکمت واﻻ ہے۔ اور بعض دیہاتی ایسے ہیں کہ جو خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور تمہارے حق میں مصیبتوں کے منتظر ہیں۔ ان ہی پر بری مصیبت آئے۔ اور خدا سننے والا جاننے والا ہے۔ اور بعض اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو عنداللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں، یاد رکھو کہ ان کا یہ خرچ کرنا بیشک ان کے لیے موجب قربت ہے، ان کو اللہ تعالیٰ ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت واﻻ بڑی رحمت واﻻ ہے۔

احکام دین میں نادانی بھی اعرابیت ہے

اعرابیت کا قابل مذمت ہونا صحرا نشینی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان میں ایمان کا نہ ہونا اور احکام دین کا نہ جاننا اور عمل سے بے بہرہ ہونا ان کی مذمت کا سبب ہے۔ جیسا کہ مذکورہ آیت میں گزر چکا ہے۔ لیکن وہ اعراب جو احکام و ایمان وعمل میں پورے اترے ان کی خدا نے مدح سرائی کی ہے اور ان کے لئے رحمت کا وعدہ کیا۔  اس بنا پر ہر وہ مسلمان جو احکام دینی حاصل کرنے اور شرعی مسائل کو یاد کرنے سے اجتناب کرے اور وہ دینی اجتماعات کہ جہاں پر حقائق ومعارف اوردینی مسائل کو سمجھایا جاتا ہے۔ وہاں سے دوری اختیار کرے تو دراصل وہ اعرابی ہے۔ اور وہی آیات جو اعراب کی مذمت میں نازل ہوئیں اس کے لئے بھی ہیں اگرچہ وہ شہری ہی کیوں نہ ہو۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

مسائل دینی سے آگاہ ہوجاؤ۔ پس تم میں سے وہ شخص جو مسائل دینی کو نہ سمجھے وہ اعرابی ہے۔ جیسا کہ خدائے عزّو جلّ اپنی کتاب میں فرماتا ہے کہ,
فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا۟ فِى ٱلدِّينِ وَلِيُنذِرُوا۟ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوٓا۟ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (توبہ ۔ 122)
تم میں سے ہر جماعت میں کچھ لوگ کیوں نہیں نکلتے تاکہ وہ مسائل دین کو سمجھیں اور جب وہ واپس پلٹیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں شاید وہ لوگ ڈرجائیں (بحارا الانوار, کتاب العقل)

ہجرت یعنی گناہ کے مقام اور گناہوں سے دوری

ہجرت, اعرابیت کی برعکس کیفیت کا نام ہے۔ ہجرت یعنی اس کا صحرا نشینی کو ترک کر کے مرکز اسلام میں آنا اور پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) یا ان کے کسی وصی کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہونا اور دین خدا کا پابند ہونا اور دینی مسائل کو یاد کرنا۔ آغاز اسلام میں وہ امور دینی کہ جن کا یاد کرنا ضروری تھا ان کے لئے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرف ہجرت کرنا واجب تھا۔  اور ایسی صورت میں جبکہ مسلمان کافروں کے علاقے میں رہتے ہوئے اپنے اسلامی آدب و رسوم کی ادائیگی نہ کرسکتے ہوں مثلاً نہ نماز پڑھ سکتے ہوں نہ ماہ رمضان کے روزے رکھ سکتے ہوں اور نہ ہی دوسرے احکام دین انجام دے سکتے ہوں, تو ان کا وہاں پر رہنا حرام تھا اور اس مقام سے ہجرت کرنا واجب تھا۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے ہجرت کی حالانکہ اس نے حقیقت میں ہجرت نہیں کی چونکہ ہجرت کرنے والے صرف وہی ہیں جو گناہوں کو ترک کرتے ہیں۔ اور ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ اور کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے راہ خدا میں جہاد کیا درحقیقت وہ جہاد کرنے والوں میں سے نہیں کیونکہ جہاد توحرام کاموں سے دوری اختیار کرنا اور دشمن سے جنگ کرنا ہے۔ جبکہ بعض لوگ میدان جنگ میں خدا کی اطاعت و رضا کے لئے نہیں جاتے بلکہ ان کا مقصد صرف شہرت حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ لوگ انہیں شجاعت وبہادری پر سراہیں۔ (بحارالانوار ج ۱۵ ص ۱۸۸)

حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

ہجرت کا واجب ہونا اس وقت تک کے لئے ہے, جب تک توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوتا اور توبہ کا دروازہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع نہ کرے (یعنی ہجرت کا حکم قیامت تک کے لئے ہے) (مسالک ج ۴)

تعرب بعد الهجرة

ہجرت کے بعد اعرابی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ باتیں کہ جن کا سیکھنا ان کیلئے ضروری تھا ان کو سیکھنے اور متنبہ ہونے (یعنی ہجرت) کے بعد انسان دوبارہ اعرابی بن جائے۔ اور اپنی سابقہ حالت یعنی جہالت و نادانی اور غفلت کی طرف پلٹ جائے۔ ہجرت کا ترک کرنا, یا ہجرت کے بعد پہلے والی حالت کی طرف لوٹ جانا حرام اور گناہان کبیرہ میں سے ہے کہ جس کے بارے میں خداوند عالم نے آتش جہنم کا وعدہ کیا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

ہجرت کے بعد اعرابی ہونا اور شرک ایک ہی قسم کا گناہ ہے۔ (اصول کافی باب الکبائر)

حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بعد دینی احکام کو جاننے اور دین پر خدا کا پابند ہونے کے لئے آئمہ کی طرف ہجرت کرنا واجب تھا۔ تعرب یعنی امام کی معرفت اور وظائف دینی کو سیکھنے کے بعد اعرابی ہونا یعنی امام کو پہچاننے کے بعد ان سے روگردانی اختیار کرنا چنانچہ شیخ حذیفہ بن منصور سے نقل کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

ہجرت کے بعد اعرابی ہونا امام کو پہچاننے کے بعد ان کی ولایت اور اطاعت کا انکار کرنا ہے۔ (معانی الاخبار)

ہجرت کے بعد اعرابی ہونے کی حرمت کا حکم تب آئے گا جب کہ اعرابی ہونا بے اعتنائی اور سستی کی بنا پر ہو, نہ کہ غلطی یا رکاوٹوں کی وجہ سے۔ اور ضروری ہے کہ ہر وہ نیک کام جسے انسان ایک عرصے تک انجام دیتا رہا ہو حتیٰ الامکان ترک نہ کرے۔ جابر جعفی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ انہوں نے فرمایا:

میں اس بات کوپسند کرتا ہوں کہ نیک کام کو انجام دیتا رہوں تاکہ میرے نفس کو اس کی عادت پڑجائے اور اگر وہ عمل دن میں مجھ سے چھوٹ جائے تو رات کو اس کی قضا کروں اور اگر رات کو چھوٹ جائے تو دن میں اس کی قضا کروں یقینا خدا کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے جسے جاری رکھا جائے۔ پس ہر ہفتہ کے اعمال جمعرات کو اور ہر مہینے کے اعمال آخر ماہ کو اور ہر سال کے اعمال نصف شعبان کو امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں۔ پس جب بھی کسی نیک کام کا آغاز کرو تو اسے ایک سال تک جاری رکھو (بحاارالانور)

ضروری ہے کہ فقیہ کی طرف ہجرت کی جائے

دو قسم کے لوگوں پر ہجرت واجب ہے۔ پہلی قسم کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو مسائل دینی سے غافل و بے خبر ہیں۔ چونکہ اس زمانے میں حجت خدا امام زمان (عجل الله تعالیٰ فرجہ ) پردہ غیبت میں ہیں, تو جس جگہ پر وہ رہتے ہوں اگر وہاں پر کوئی عالم دین نہ ہو کہ جس کی طرف رجوع کر سکیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے علاقے کی طرف ہجرت کریں کہ جہاں پر عالم دین موجود ہو اور اس تک رسائی ممکن ہو تاکہ وہ ضروری مسائل کو یاد کو سکیں۔

دوسرے وہ لوگ جو سرزمین کفر پر کفار کے رکاوٹیں حائل کرنے اور اذیتیں دینے کی بنا پر دینی آداب و رسوم کی ادائیگی نہ کر سکتے ہوں تو ان پر واجب ہے کہ وہ ایسے علاقے کی طرف ہجرت کریں جہاں پر مذہبی آزادی ہو۔ البتہ ہجرت کرنا صرف اسی صورت میں واجب ہے کہ جب استطاعت رکھتا ہو اور اس کے لئے ممکن ہو لیکن بیماری غربت اور بہت زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے ہجرت کی طاقت نہ ہو تو اس کے لئے واجب نہیں۔

تم ہجرت کیوں نہیں کرتے

تفسیرمنہج الصادقین میں لکھا ہے کہ مسلمانو ں میں سے کچھ لوگ مثلاً قیس بن جولید اور انہی کی طرح کے دوسرے افراد جو بظہر تو مسلمان تھے اور لا الہ الا اللہ پڑھتے تھے لیکن انہوں نے قدرت رکھتے ہوئے مکہ سے مدینہ ہجرت نہیں کی اور جب سرداران قریش رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے جنگ کے ارادے سے بدر کی طرف بڑھے تو یہ بھی ان کے ہمراہ تھے اور مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تو اس موقع پر خدا وند عالم نے اس کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:

إِنَّ ٱلَّذِينَ تَوَفَّىٰهُمُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ ظَالِمِىٓ أَنفُسِهِمْ قَالُوا۟ فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا۟ كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ قَالُوٓا۟ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ ٱللَّهِ وَٰسِعَةًۭ فَتُهَاجِرُوا۟ فِيهَا ۚ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ مَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرًا ۹۷ إِلَّا ٱلْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلْوِلْدَٰنِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةًۭ وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًۭا ۹۸ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ عَسَى ٱللَّهُ أَن يَعْفُوَ عَنْهُمْ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًۭا (النساء: 97-99)
جو لوگ اپنی جانوں پر ﻇلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشاده نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وه پہنچنے کی بری جگہ ہے۔ مگر جو مرد عورتیں اور بچے بے بس ہیں جنہیں نہ تو کسی چارہٴ کار کی طاقت اور نہ کسی راستے کا علم ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے درگزر کرے، اللہ تعالیٰ درگزر کرنے واﻻ اور معاف فرمانے واﻻ ہے۔

پس یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ایسے مقام سے کہ جہاں پر انسان کے لئے اسلامی طریقے سے زندگی گزارنا ممکن نہ ہو تو وہاں سے ہجرت کرنا واجب ہے۔ حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے:

جو کوئی اپنے دین کی خاطر ایک سرزمین سے دوسری سرزمین کی طرف ہجرت کرے خواہ یہ ہجرت ایک بالشت برابر ہو تو خداوند عالم اس کے لئے بہشت واجب کر دیتا ہے اور اس کے رفیق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہوں گے۔ (منہج الصادقین ج ۳ ص ۹۳)

عکرمہ سے روایت ہے کہ مکہ میں بہت سے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے تھے مگر وہ ہجرت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے لیکن جب نہ کرنے والوں کی تنبیہ کے لئے آیت نازل ہوئی اور ان لوگوں تک پہنچی تو جندع بن ضمرہ نے اپنے بیٹوں سے کہا۔ اگرچہ میں بوڑھا اور بیمار ہوں لیکن میں ان بے بس و عاجز لوگوں میں سے نہیں ہوں کہ جنہیں خدا نے ہجرت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے ابھی مجھ میں سکت باقی ہے اور میں مدینے کا راستہ بھی جانتا ہوں مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ میری اچانک موت واقع اور ترک ہجرت کی بنا پر میرے ایمان میں خلل واقع ہو پس میں جس تخت پر لیٹا ہوں تم مجھے اسی طرح باہر لے چلو اس کے بیٹوں نے اس کے حکم کی اطاعت کی اور اسی حالت میں اسے لے کر چلے لیکن جب وہ منزل تنعیم پر پہنچا تو اس پر موت کے آثار ظاہر ہوئے پس اس نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا اور کہا۔

خدایا یہ ہاتھ تیرا اور یہ تیرے رسول کا میں تیری بیعت کرتا ہوں ان باتوں پر کہ جس کے لئے تیرے رسول نے تیری بیعت کروائی۔ اور اس کے بعد اس کی روح پرواز کر گئی اور جب اس کے مرنے کی خبر مدینہ پہنچی تو بعض صحابہ نے کہا اگر جندع مدینہ پہنچ جاتا تو اس کے لئے بہتر ہوتا کیونکہ اسے ہجرت کرنے کا ثواب مل جاتا پس خداتعالیٰ نے اس کے بارے میں یہ آیت نازل کی:

وَمَن يَخْرُجْ مِنۢ بَيْتِهِۦ مُهَاجِرًا إِلَى ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ثُمَّ يُدْرِكْهُ ٱلْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُۥ عَلَى ٱللَّهِ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًۭا رَّحِيمًۭا (النساء ۔ 100)  
اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف نکل کھڑا ہوا، پھر اسے موت نے آ پکڑا تو بھی یقیناً اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ﺛابت ہو گیا، اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے۔ (منہج الصادقین)

ہجرت یا تقیہ

وہ شیعہ جو اہل سنت کے علاقے میں الجھن و پریشانی کا شکار ہو اور اپنے مذہبی رسوم کو ادا نہ کر سکتا ہو تو ایسی صورت میں اگر خطرے کا احتمال ہو تو تقیہ کرنا چاہیئے۔ آئمہ سے ایسی بہت سی روایت وارد ہوئی ہیں جس میں تقیہ پر زرو دیا گیا ہے اور اہل سنت سے حسن معاشرت اور ان کی جماعت میں شرکت کے لئے کہا گیا ہے۔ اگر تقیہ میں اہل سنت کے مطابق عمل بھی کرنا پڑے تو تقیہ کے سلسلے میں جو دلائل دئیے گئے ہیں ان کے مطابق وہ عمل درست ہوگا۔ ہاں اگر اہل سنت کے علاقے سے ہجرت کرنے میں زیادہ مصلحت ہو تو ہجرت کا مستحب ہونا بعید نہیں, مثلاً اگر وہ ان کے علاقے میں آئمہ کی ولایت کا اظہار نہ کر سکتا ہو تو ہجرت کرنا یقیناً مستحب ہوگا۔

کفار کے علاقے میں تبلیغ ولایت

صماد السمندی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ میں مشرکین کے علاقے کی طرف جارہا ہوں اور مجھے وہاں رہنا پڑے گا۔ لیکن بعض مومنین مجھ سے کہتے ہیں کہ یہ کام اچھا نہیں کیونکہ اگر تمہاری موت اس علاقے میں واقع ہوگئی تو تم کافروں کے ساتھ محشور ہوگے۔ امام نے فرمایا اے صماد کیا تم ان کے علاقے میں ہم اہلبیت کی ولایت کا ذکرکرسکو گے اور لوگوں کی دین حق کی طرف رہنمائی کرسکو گے صماد نے کہا جی ہاں مولا وہاں پر مکمل آزادی ہے اور وہاں ے لوگ حق بات کو سنتے اور اسے قبول کرتے ہیں۔ امام نے کہا کیا کسی اسلامی علاقے میں رہتے ہوئے اتنی آزادی ہوگی کہ تم حق کو ظاہر کرسگواور لوگوں کو ہماری ولایت کی دعوت دے سکو صماد نے کہا نہیں مولا بلکہ ہمیں سخت تقیہ کرنا پڑتا ہے۔ اور کسی میں بھی یہ جرات نہیں کہ آپ میں سے کسی نام لے سکے۔ امام نے فرمایا پس اگر کسی ایسے غیر اسلامی علاقے میں تمہاری موت واقع ہوجائے تو قیامت کے دن امت واحدہ میں محشور ہوگے۔ یعنی ایک آدمی ایک امت کے برابر ہوگا جیسے کہ حضرت ابرہیم کو امت قنتہ کہا گیا ہے۔ اور اس دن تمہارے ایمان کا نور تمہارے چہرے سے ہویدا ہوگا۔ (وسائل الشیعہ, کتاب جہاد)

متعلقہ تحاریر