نماز کو عمداً ترک کرنا

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 04/06/2022 1932

نماز کا وجوب اسلام کے مسلمہ احکامات میں سے ہے۔ پس جو کوئی نماز کے وجوب کا انکار کرتے ہوئے نماز نہ پڑھے تو وہ کافر اور دین اسلام سے خارج ہے۔ کیونکہ نماز کا انکار رسالت کا انکار اور قرآن مجید کو تسلیم نہ کرنا ہے اور ایسا شخص کافر ہے۔ اور اگر نمازکے وجوب کا منکر نہ ہو اور قرآن پاک اورخاتم الانبیآء (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی رسالت کو حق مانتا ہو، اور اعتقاد رکھتا ہو کہ نماز خداوند عالم کی طراف سے واجب کی گئی ہے لیکن سستی اور لا پرواہی کی بناء پر ترک کرتا ہو تو ایسا شخص فاسق ہے۔ نماز ترک کرنا وہ گناہ ہے کہ جس کے بارے میں قرآن مجید میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے:

فِى جَنَّـٰتٍۢ يَتَسَآءَلُونَ ٤٠ عَنِ ٱلْمُجْرِمِينَ ٤١ مَا سَلَكَكُمْ فِى سَقَرَ ٤٢ قَالُوا۟ لَمْ نَكُ مِنَ ٱلْمُصَلِّينَ ٤٣ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ ٱلْمِسْكِينَ ٤٤ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ ٱلْخَآئِضِينَ ٤٥ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ ٱلدِّينِ (مدثر: 40-46)
کہ وه بہشتوں میں (بیٹھے ہوئے, آگ میں جلنے والے) گناه گاروں سے سوال کرتے ہوں گے. تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈاﻻ. وه جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے. نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے. اور اہل باطل کے ساتھ ہم بھی برے کام میں گھس پڑے تھے اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے۔

اور سورہ قیامت میں خداوند عالم فرماتا ہے:

فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ ٣١ وَلَـٰكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ٣٢ ثُمَّ ذَهَبَ إِلَىٰٓ أَهْلِهِۦ يَتَمَطَّىٰٓ  (قیامت: 31-33)
اس نے نہ تو تصدیق کی نہ نماز ادا کی. بلکہ جھٹلایا اور روگردانی کی. پھر اپنے گھر والوں کے پاس اتراتا ہوا گیا.

مقام تہدید اور ان کی ہلاکت کی خبر دینے کے بعد فرماتا ہے اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی مفسرین میں سے بعض نے کہا اس کلمے کے معنی وَیْلٌ لَّکَ ہیں اور چار مرتبہ اسکی تکرار تاکید کے لئے ہے۔ یاچار مرتبہ کی ہلاکت کی طرف اشارہ ہے یعنی دنیا میں ہلاکت، قبر میں عذاب، قیامت میں وحشت اور دوزخ میں ہمیشہ کا قیام۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَخَلَفَ مِنۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَٱتَّبَعُوا۟ ٱلشَّهَوَٰتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (مریم ۔ 59)
پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، سو عنقریب ہی یہ لوگ غی میں پہنچیں گے۔

غی جہنم کی ایک وادی ہے جہاں پر جہنم کے دوسرے طبقوں سے شدید تر عذاب ہے اور اہل جہنم اس کے عذاب سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ اس میں ایسا سانپ ہے کہ جس کی لمبائی ساٹھ سال اور چوڑائی تیس سال کی مسافت کے برابر ہے اور جب سے وہ پیدا کیا گیا ہے وہ اپنا منہ فقط نماز کو ترک کرنے والے اورشرابی کو نگلنے کے لئے کھولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَلَا تَكُونُوا۟ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ (روم ۔ 31)
اور نماز پڑھتے رہو اور مشرکوں میں سے نہ ہونا

اس آیت میں اشارہ ہے کہ نماز ترک کرنے والا بت پرست اور مشرک کے ساتھ برابر ہے۔ امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں: ایک شخص رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے وصیت فرمائیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا کہ نماز کو عمداً ترک نہ کرو کیونکہ جو کوئی جان بوجھ کر نماز ترک کرتا ہے تو وہ ملت اسلامی سے خارج ہے۔ (وسائل الشیعہ جلد 3)

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:

سوائے نماز کو ترک کرنے کے ایمان و کفر کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے۔
جو چیز مسلمان کو کافر کر دیتی ہے وہ واجب نماز کو جان بوجھ کر ترک کرنا یا اسے حقیر و سبک سمجھ کر نہ پڑھنا ہے۔  (وسائل الشیعہ ج 3)

ممکن ہے دیگر حرام کاموں کے ارتکاب میں غالباً انسان پر شہوت غالب آ جائے اور اسے گناہ پر اکسائے مثلاً زنا۔ یا یہ کہ انسان پر غصہ غالب آجائے اور ظلم، بد زبانی, مار اور قتل جیسے ظلم پر آمادہ کرے۔ زکوٰة و حج کو ترک کرنے کا سبب بعض اوقات مال کی لالچ ہوتی ہے۔ اور روزہ کے ترک کرنے میں ہو سکتا ہے کہ پیٹ کی بھوک رکاوٹ بنے۔ البتہ نماز کے معاملے میں شہوت یا غصے کو کوئی دخل نہیں اور نماز کو ترک کرنے کا سبب سوائے دین کو سبک و حقیر سمجھنے کے یا سستی برتنے کے اور کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث میں نماز کے ترک کرنے کو کفر جانا گیا ہے۔ امام جعفر صادق ع سے پوچھا گیا کہ زنا کرنے والے کو کافر اور شرابی کیوں نہیں کہا جاتا جبکہ نماز ترک کرنے والے کو کافر کہا جاتا ہے۔ امام ع نے فرمایا:

زنا وغیرہ شہوت کے غالب آنے کی وجہ سے ہوتے ہیں, لیکن نماز ترک نہیں کی جاتی سوائے اس کے کہ اسے حقیر سمجھا جائے کیونکہ زنا کرنے والا زنا سے لذت حاصل کرتا ہے اور اس لذت کو حاصل کرنے کے لئے وہ زنا کرتا ہے لیکن نماز ترک کرنے والا ترک نماز سے کوئی لذت نہیں اٹھاتا۔ (علل الشرائع)

پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں:

وہ ہم سے نہیں جو نماز کو حقیر سمجھے اور اسے ہماری شفاعت حاصل نہ ہوگی, اور جونشہ آور چیزیں استعمال کرتا ہو وہ ہم میں سے نہیں, اور خدا کی قسم جو شراب پیتا ہو, وہ حوض کوثر پر وارد نہیں وہ سکے گا۔ ( فروع کافی ج 3)

امام جعفر صادق ع نے وقت رحلت فرمایا:

حضرت ابوالحسن موسیٰ بن جعفر ع سے مروی ہے کہ میرے والد بزرگوار نے وقت رحلت مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ہم اہل بیت کی شفاعت ایسے کسی شخص کو حاصل نہ ہو گی جو نماز کو سبک سمجھتا ہو۔ (فروع کافی ج 3)

کچھ بے عقل لوگوں کی غلط فہمی

بعض بے نمازیوں کو جب نصیحت کی جاتی ہے تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے نماز وروزے کا محتاج نہیں حالانکہ ان کا یہ جواب ایک شیطانی خیال ہے اور ان لوگوں کی جہالت ہے۔ حقیقت امر یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو پروردگار عالم کا بندہ اور محتاج نہیں سمجھتے اسی لئے اس سے بندگی کے رابطے کو توڑ لیا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے آپ کو اس کے احسان اور نعمتوں میں گھرا ہوا نہیں سمجھتے اسی لئے انہوں نے شکر گزاری اور وظیفہ بندگی کی ادائیگی کو ترک کر دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انکا نماز ترک کرنے کا سبب ان کی سختی و سنگدلی، ظلم و زیادتی اور ہٹ دھرمی ہے اور جیسا کہ خداوندعالم کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھے۔ تو وہ نفوس جو غلیظ اور پتھر اور لوہے سے زیادہ سخت ہیں انہیں جہنم میں جگہ دے اوراس کے برعکس جیسا کہ آیات و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نیک و صالح افراد جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں انہیں دار السلام میں جگہ دے۔

ترک نماز پر پندرہ د نیوی اور اُخروی نتائج

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں جو اپنی نماز کو سبک سمجھتا ہو اور اس کی انجام دہی میں سستی کرتا ہو خدائے عزوجل اسے پندرہ بلاؤں میں مبتلا کردے گا۔ چھ دنیا سے متعلق ہیں اور تین جان کنی کے عالم سے اور تین قبر سے اور تین روزقیامت سے متعلق ہیں۔ وہ چھ بلائیں جو دنیا سے متعلق ہیں یہ ہیں۔

  1. خداوند عالم اس کی عمر کو کم کر دے گا۔
  2. اور اس کا رزق ختم کر دے گا۔
  3. نیک لوگوں کی علامتیں اسکے چہرہ سے ختم کر دے گا۔
  4. جو بھی نیک کام کرے گا قبول نہیں ہو گا اور اس کا کوئی اجر نہیں ملے گا۔
  5. اس کی دعا قبول نہیں ہوگی۔
  6. نیک لوگوں کی دعاؤں سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔

وہ تین بلائیں جو موت کے وقت سے متعلق ہیں:

  1. ذلت و خواری کی موت مرے گا۔
  2. بھوک کی حالت میں مرے گا
  3. پیاسا اور پیاس کی حالت میں اس طرح مرے گا کہ اگر دنیا کی نہروں کو پی لے پھر بھی وہ سیراب نہیں ہوگا۔

اور وہ تین بلائیں جو قبر میں اس تک پہنچیں گی:

  1. ایک فرشتے کو اس پر مقرر کیا جائے گا کہ اسے فشار دے اور سرزنش کرے۔
  2. اس کی قبر کو اس کے لئے تنگ کر دیا جائے گا۔
  3. اس کی قبر تاریک اور ہولناک ہو گی۔

اور قیامت سے متعلق تین بلائیں یہ ہیں

  1. فرشتہ اسے حساب کے لئے اس طرح کھینچ رہا ہوگا کہ حساب کے مقام پر تمام لوگ اسے دیکھ رہے ہوں گے۔
  2. اس کے حساب میں سختی ہو گی۔
  3. خداوند عالم اس پر رحمت کی نظر نہیں کرے گا اسے پاکیزہ نہیں کرے گا اور اس کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ (مستدرک کتاب الصلوة)

اہم ترین واجب الہیٰ

امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

قیامت میں سب سے پہلے جس عمل کے بارے میں انسان سے باز پرس ہو گی وہ نماز ہے اگر وہ قبول ہو گئی تو دوسرے اعمال بھی قبول ہو جائیں گے اور اگر وہ رد کر دی گئی تو دوسرے اعمال بھی رد کردیئے جائیں گے۔ (بحار الانوار جلد 18)

معاویہ ابن وہب نے امام جعفرصادق ع سے پوچھا کہ وہ سب سے افضل عمل کہ جس کے سبب انسان اپنے ربّ کے قریب ہو سکے کونسا ہے؟ آپ نے فرمایا خدا و نبی وامام کی معرفت کے بعد نماز سے افضل (عمل) نہیں جانتا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا کے صالح بندے حضرت عیسیٰ ع نے فرمایا کہ جب تک میں زندہ ہوں خداوندعالم نے مجھے نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے کی ہدائت فرمائی ہے۔ اعمال کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا, تمام اعمال میں سب سے بہتر عمل ایسی نماز ہے جسے اول وقت میں ادا کیا گیا ہو۔ ( فروع کافی ج 3)

حضرت امام محمد باقر ع فرماتے ہیں:

نماز دین کا ستون ہے, نماز خیمہ کی درمیانی لکڑی کی مانند ہے کہ جب تک وہ قائم ہے, خیمہ کی رسیاں اور کیلیں جمی رہیں گی۔ اور جب وہ لکڑی سیدھی نہ رہے یا ٹوٹ جائے تو کیلیں اور رسیاں بھی اپنی جگہ سے اکھڑ جاتی ہیں اور خیمہ گرجاتا ہے۔ (بحار الانوار باب فضل الصلوة جلد 18, جدید ج 82)

اسی طرح ایمان اور تمام اعمال عبادات نماز سے وابستہ ہیں۔ کہ اگر اسے ترک کر دیا گیا تو سارے اعمال بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ امام جعفر صادق ع اس آیت جو کوئی ایمان لانے کے بعد کافر ہو جائے اس کا عمل باطل ہے (مائدہ ۔ 5) کی شرح میں فرماتے ہیں:

یہ آیت نماز کو بغیر کسی مرض اور مصیبت کے ترک کرنے سے متعلق ہے۔ (بحار الانوار جلد 18, جدید جلد 82)

حضرت امام محمد باقر ع فرماتے ہیں:

دین اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ نماز، زکوٰة، حج، روزہ اور ولایت۔ زرارہ نے پوچھا کونسی چیز افضل ہے؟ امام ع نے فرمایا ولایت, کیونکہ ولایت آل محمد (علیہم السلام) باقیوں کی چابی کی مانند ہے اور ولایت کے بعد نماز سب سے افضل ہے کیونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا کہ نماز تمہارے دین کا ستون ہے۔ (بحار الانوار جلد 111 باب فضل الصلوٰہ عقاب تارکھا)

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:

جب قیامت برپا ہو گی تو بچھو کی جنس کا ایک جانور دوزخ سے باہر آئے گا اس کا سر ساتویں آسمان پر اور اس کی دم زمین کے نیچے اور اس کا منہ مشرق سے مغرب تک ہو گا اور کہے گا کہاں ہیں وہ لوگ جو خدا اور اس کے رسول سے جنگ کرتے تھے۔ پس جبرائیل امین نازل ہو ں گے اور کہیں گے تم کن لوگوں کو چاہتے ہو تو وہ کہے گا پانچ گروہوں کو نماز ترک کرنے والوں کو، زکوٰة نہ دینے والوں کو، سود کھانے والوں کو، شراب پینے والوں کو اور وہ لوگ جو مسجد میں دنیوی باتیں کرتے تھے۔ (یعنی حرام گفتگو کرنا مثلاً مسلمانوں کی غیبت اور ان پر تہمت لگانا, باطل کی تبلیغ، ظالم کی مدح کرنا اور کسی ایسے شخص کی تعریف کرنا جو تعریف کے قابل نہیں اور کسی ایسے کی مذمت کرنا جو قابل مذمت نہیں۔وغیرہ) (لئالی الاخبار)

اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا:

جہنم میں ایک وادی ہے کہ اس کے عذاب کی شدت سے جہنمی ہر روز ستر ہزار مرتبہ فریاد کرتے ہیں۔ اس میں آگ کا ایک گھر ہے اور اس گھر میں ایک آگ کا کنواں ہے اور اس کنویں میں تابوت ہے کہ جس میں ایک سانپ ہے اس کے ہزار سر ہیں اور ہر سر میں ہرار منہ ہیں اور ہر منہ ملیں ہزار ڈنگ ہیں اور ہر ڈنگ کی لمبائی ہزار گز ہے۔ انس نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) یہ عذاب کس کے لئے ہے آپ نے فرمایا شراب پینے والے اور نماز ترک کرنے والے کے لئے۔

نماز ترک کرنے والے کی مدد

پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں:

جو کوئی نماز ترک کرنے والے کی خوارک یا لباس دیکر مدد کرے گا تو ایسا ہے کہ اس نے ستر انبیاء کو قتل کیا ان میں سے اول آدم ع اور آخر حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہیں۔
جو کوئی (بے نمازی کو) ایک گھونٹ پانی دے تو یہ ایسا ہی ہے کہ اس نے میرے اور تمام انبیاء سے جنگ کی ہے۔
جو کوئی بے نمازی کے ساتھ ہنسے تو گویا اس نے ستر مرتبہ خانہ کعبہ کو منہدم کیا۔ (لئالی الاخبار)

ظاہراً ایسی احادیث سے مراد یہ ہے کہ مدد واحسان کرنا ترک نماز میں جرات کا سبب بنے, اور بلاشبہ جب بھی گناہگارپر احسان, گناہ میں جرأت اور گناہ کو جاری رکھنے کا سبب بنے تو حرام ہے, اور نہی عن المنکر کی رو سے احسان نہ کرنا واجب ہے۔ اس بناء پر اگر نماز ترک کرنے والے کی مدد کرنا اس کے نماز کو ترک کرنے میں جرأت کا سبب نہ بنے یعنی مدد کرنا یا نہ کرنا اس کے نماز نہ پڑھنے پر کوئی اثرنہ کرے تو معلوم نہیں کہ وہ ان روایات سے متعلق ہے یا نہیں اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مدد احسان اس کے گناہ چھوڑ دینے اورنماز پڑھنے کاسبب بن جاتا ہے تو ایسی صورت میں بغیر کسی شک کے اس کی مدد کرنا بہتر ہے بلکہ بعض موارد میں واجب بھی ہو جاتی ہے۔

نماز ترک کرنے کی کچھ قسمیں ہیں

(1) نماز کو بطور کلی انکار کرتے ہوئے ترک کرنا: یعنی نماز کو واجب الہٰی نہ سمجھتا ہو اور اس کی انجام دہی کو اپنے لئے لازم نہ جانتا ہو۔ جیسا کہ گزرچکا ہے کیونکہ وہ دین کے امر ضروری کا منکر ہے اس لئے کافر ہو گیا ہے در حقیقت اس نے پیدا کرنے والے کی خدائی رسالت خاتم الانبیآء (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور قرآن مجید کا انکار کیا ہے۔اور یہ ایسا شخص ہے جو ابدی عذاب سے دوچار ہو گا اور اس کے لئے نجات کی کوئی راہ نہیں ہے۔

(2) نماز کو بطور کلی ترک کرنا لیکن انکار کرتے ہوئے نہیں, بلکہ آخرت کے کاموں سے لاپرواہی و بے اعتنائی اور نفسانی خواہشات اور دنیوی امور میں مشغول ہو نے کے بناء پر ہو۔ ترک نماز کی یہ قسم فسق کا سبب ہے اور ایسا شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے۔ اور بعض آیات میں اس کا شدید عذاب ہے۔ اگر ایسا شخص ایمان کی حالت میں دنیا سے جائے تو بھی وہ ترک نماز کی بناء پر عذاب سے دوچار ہونے کے بعد ہی نجات حاصل کر سکے گا۔ لیکن نماز ترک کرنے والے کا دنیا سے ایمان کی حالت میں جانا بہت ہی مشکل اور بعید ہے کیونکہ ایمان کا ظرف قلب ہے اور وہ گناہوں کی وجہ سے سخت اور تاریک ہو جاتا ہے اور اس طرح ایمان کے نور کو ختم کر دیتا ہے سوائے اس کے کہ خداوند تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس کی مدد کرے اور دوستی اہل بیت (علیہم السلام) کی بناء پرموت کے وقت وہ اس کی فریاد کو پہنچیں اور وہ ایمان کی حالت میں مرے کیونکہ ممکن ہے کہ ان کی شفاعت اسکے عذاب میں تخفیف پیدا کر دے, یا ختم کر دے لیکن خود ان حضرات سے روایت کی گئی ہے کہ ہم اہل بیت کی شفاعت اس تک نہیں پہنچے گی جو اپنی نماز کو سبک سمجھے اور اسے ضائع کرے۔

(3) بعض اوقات نمازترک کرنا۔ یعنی ضعف ایمانی، اور امور آخرت سے لاپرواہی کی بناء پر کبھی نماز پڑھتا ہے اور کبھی نہیں پڑھتا یا اوقات نماز کو اہمیت نہ دینے کی بناء پر اور اس خیال سے کہ بعد میں نماز ادا کرے گا وقت فضیلت میں نماز ادا نہیں کرتا۔ ترک نماز کی یہ قسم بے شک ذکر کی گئی دوقسموں کی طرح نہیں ہے۔ لیکن ایسا شخص نماز کو ضائع کرنے والوں اور اسے سبک شمار کرنے والوں میں سے ہے اور جو کچھ نماز کو ضائع کرنے والوں اور اسے حقیر سمجھنے والوں کے بارے میں وارد ہوا ہے اس کے لئے بھی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق ع نے فرمایا کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا:

جو کوئی واجب نماز کو وقت گزرنے کے بعد پڑھے تو وہ نماز تاریک اور وحشت ناک حالت میںٰ اوپر جاتی ہے اور اپنے پڑھنے والے سے کہتی ہے کہ تو نے مجھے ضائع کیا۔ خدا تجھے ضائع کرے جیسا کہ تو نہ مجھے ضائع کیا۔ اورفرمایا جب بندہ بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوتا ہے تو سب سے پہلی چیز کہ جس کے بارے میں روزقیامت انسان سے سوال کیا جائے گاوہ نماز ہے پس اگر نماز صحیح ہو تو باقی تمام اعمال صحیح ہیں اور اگر نماز صحیح نہ ہو تو اس کے دوسرے اعمال بھی صحیح نہیں ہیں۔ (وسائل الشیعہ باب اول جلد 3)

اور اسی طرح رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:

میری شفاعت اس شخص تک نہیں پہنچے گی، جو واجب نماز کے وقت میں داخل ہونے کے بعد تاخیر کرے یہاں تک کہ اس کا وقت گزر جائے۔
جب تک انسان محتاط ہو،اور دن رات کی پانچ نمازوں کو وقت پر بجالائے تو شیطان اس سے خوفزدہ رہتا ہے اور اس کے قریب نہیں آتا۔ اورجب بھی ان کو ضائع کرے تو شیطان اس پر حاوی ہو جاتا ہے اور اسے بڑے گناہوں میں ملوث کر دیتا ہے۔ (وسائل الشیعہ ج 3)

امام محمد باقر ع فرماتے ہیں:

جو کوئی نماز واجب کو وقت پر پڑھے گا اگر وہ اس کی اہمیت کو سمجھتا ہو اور کسی چیز کواس پر مقدم نہ کرے تو خداوند عالم اس کے لئے عذاب سے نجات لکھ دیتا ہے, اور جو کوئی نماز کو اس کا وقت گزرنے کے بعد پڑھے اور امور دنیا کو نماز پر مقدم سمجھے تو اس کا فیصلہ خدا کے ہاتھ ہے چاہے اسے بخش دے یا اسے عذاب دے۔

اوّل وقت میں نماز پڑھنے کی تا کید

روایات میں نماز کے اول وقت پر بجا لانے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور بغیر کسی عذر کے اول وقت سے تاخیر نہیں کرنا چاہئے اور ہمارے رہبروں نے سخت ترین حالات میں بھی نماز کی اول وقت میں ادائیگی کو ترک نہ کیا۔

امیر المومنین ع جنگ صفین میں ایک دن جنگ میں مشغول تھے اور اس حالت میں بھی دو صفوں کے درمیان باربار آفتاب کی طرف دیکھ رہے تھے۔ عبدﷲ ابن عباسؓ نے پوچھا کہ آپ سورج کو کیوں دیکھ رہے ہیں؟ امام ع نے فرمایا: میں وقت زوال کو (جو نماز ظہر کا اول وقت ہے) جاننا چاہ رہا ہوں تا کہ نماز ادا کروں۔ ابن عباس رض نے کہا, کیا لڑائی کی اس کشمکش میں بھی نماز پڑھنے کا موقع ہے؟ امام ع نے فرمایا، ہم اس قوم سے کس لئے جنگ کر رہے ہیں؟ ہمارا ان سے جنگ کرنے کامقصد ہی نماز کا قیام ہے۔ (ارشاد القلوب)

ابن عباس کہتے ہیں کہ امام علی ع نے کبھی بھی نماز شب کو ترک نہیں کیا یہاں تک کہ لیلتہ الحریر(جنگ صفین کی سب سے سخت رات) میں بھی۔ مروی ہے کہ روز عاشورہ زوال کے وقت ابوثمامہ صیداوی، حضرت سید الشہدا امام حسین ع کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے میرے مولا! ہم یقینا سب قتل کر دیئے جائیں گے اور نماز ظہر کا وقت ہو چکا ہے پس نماز پڑھائیے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ ہماری آخری نماز ہے اورامید ہے کہ ہم اس عظیم مقام پر اللہ تعالی کے فرائض میں سے ایک فریضہ ادا کرتے ہوئے اس سے ملاقات کریں گے۔

امام ع نے سر کو آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمانے لگے تم نے نماز کو یاد کیا خداوند عالم تمہیں نماز گزاروں میں شامل کرے۔ ہاں یہ تو نماز کا وقت ہے اور فرمایا اذان دو خدا تم پر رحمت کرے۔ جب اذان سے فارغ ہوئے تو امام ع نے فرمایا اے پسر سعد کیا شریعت اسلامی کو بھول گئے ہو؟ آیا جنگ نہیں روکے گے کہ نماز ادا کریں اور اس کے بعد جنگ کریں۔ پس امام ع نے اپنے اصحاب کے ساتھ نماز خوف اس طرح ادا کی کہ زُہَیرابن القین اور اسعید بن عبد اللہ حنفی, سیدا لشہدا امام حسین ع کے سامنے کھڑے تھے اورجس طرف سے بھی تیر یا نیزہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)تک پہنچتا تھا خود کو ڈھال بنا لیتے۔ یہاں تک کہ تیرہ تیر سعید کے بدن میں نیزہ وشمشیر کے زخموں کے علاوہ لگے اور وہ زمین پر گرے اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔

واجبات نماز میں سے کسی واجب کو ترک کرنا

یعنی نماز تو پڑھتا ہے لیکن اس طرح نہیں کہ جس طرح اس سے کہا گیا ہے درست نماز کی شرائط کی پرواہ نہیں کرتا اور اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا، مثلاًنماز کو غصبی لباس، یا مکان میں یا نجاست میں پڑھتا ہے یا قرا ئت اور واجب اذکار کو نہیں پڑھتا یا غلط پڑھتا ہے اور اس کی تصحیح کی کوشش نہیں کرتا, قرائت اور ذکر واجب کے وقت بدن کو ساکن نہیں رکھتا اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص نماز کو ضائع کرنے والوں اور نماز کو حقیر جاننے والوں میں سے ہے۔

امام محمد باقر ع فرماتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی آیا اور نماز پڑھنے میں مشغول ہو گیا, اور اپنی نماز کے رکوع و سجود کو کاملاً ادا نہ کیا, تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: یہ شخص اپنے سر کو زمین پہ اس طرح رکھتا ہے جس طرح کوا اپنی چونچ زمین پر مارتا اور اٹھاتا ہے اگر یہ شخص اس حالت میں مر جائے کہ یہ اس کی نماز ہو, تو وہ میرے دین پر نہیں مرے گا۔ (وسائل الشیعہ, کتاب الصلوة باب 8)

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:

چوروں میں سب سے بڑا چور وہ ہے جو اپنی نمازمیں چوری کرے۔ کسی نے عرض کیا, یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنی نماز میں کس طرح چوری ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: نماز کے رکوع و سجود کو صحیح طرح انجام نہ دے۔
جو کوئی نماز کے رکوع وسجود کو صحیح ادا نہ کرے تو وہ ایسا ہے کہ جیسے اس نے نماز ہی نہ پڑھی ہو۔
جو کوئی نماز کے رکوع وسجود اور دوسرے تمام واجبات کو صحیح انجام دے تو وہ نماز نورانیت اور درخشندگی کی حالت میں اوپر جاتی ہے آسمان کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں اور نماز کہتی ہے تم نے میری حفاظت کی خدا تمہاری حفاظت کرے اور ملائکہ کہتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ کی صلوت ورحمت ہو اس نماز پڑھنے والے پر اور اگر واجبات نماز کو صحیح طرح ادا نہ کرے تو نماز تاریکی کی حالت میں اوپر جاتی ہے اور آسمان کے دروازے اس پر بند ہو جاتے ہیں اور نماز کہتی ہے تو نے مجھے ضائع کیا خدا تجھے ضائع کرے اور وہ نماز اس کی صورت پر ماردی جاتی ہے۔
ہر چیز کی ایک صورت ہوتی ہے کہ جو اسکے اجزاء بدن میں سے اعظم اور اشرف ہے اورتمہارے دین کا چہرہ اور صورت نماز ہے پس تم میں سے کوئی بھی اپنی نماز کو خراب اور بد نما نہ کرے کہ جو صورت بدن کی طرح دین کی صورت ہے۔ (وسائل الشیعہ ۔ کتاب الصلوٰت, مستدرک)

نماز کی قبولیت کی شرائط

ایک شخص نماز صحیح صحیح پڑھتا ہے اور تارک نماز نہیں ہے تو اس کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے لئے کوئی عذاب نہیں ہے۔ لیکن اس نماز کے خدا کی درگاہ میں قبول ہونے اور اس کے بڑے ثواب ملنے کے لئے دوسری شرطیں بھی ہیں, جن میں سب سے بڑی شرط دھیان کی یکسوئی (حضور قلب) ہے۔ اگر نماز پڑھنے والا قبولیت کی شرائط کا خیال رکھے تو ایسے بلند درجات پر پہنچ جائے گا جہاں کسی اور عمل سے نہیں پہنچ سکتا۔ پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں:

خدا اس شخص کی عبادت قبول نہیں کرتا جس کا قلب حاضر نہ ہو۔
دو رکعت نماز جو مختصر طور پر حضور قلب کے ساتھ معنی و مطلب پر غور کرتے ہوئے پڑھے جائے اس عبادت سے بہتر ہے جو پوری رات کی جائے۔ (وسائل الشیعہ)

امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

جب تم نماز کو کھڑے ہو تو اپنے دل کو آمادہ کرو کیونکہ جب تم نماز کا رخ کرو گے تو خدا بھی تم کو رحمت کی نظر سے دیکھے گا, اور اگر تم منہ پھیرو گے تو خدا بھی تم پر رحمت کی نظر نہیں  ڈالے گا۔
جو شخص دو رکعت نماز یہ دھیان رکھ کر پڑھے کہ وہ زبان سے کیا کہ رہا ہے تو نماز سے فاغ ہوتے ہی اس کا ہر گناہ معاف ہو جائے گا۔
چانچہ نماز پڑھنے والے کے حضور قلب کے مطابق نماز کا تہائی, چوتھائی, یا چھٹا حصہ قبول ہوتا ہے اور جو اپنی پوری نماز میں غافل رہتا ہے خدا اسے کچھ بھی عطا نہیں کرتا۔ (وسائل الشیعہ)

حضور قلب کے کئی درجے ہوتے ہیں۔ اس کا بلند ترین درجہ حضرت امیرالمومنین ع کے پاس تھا کہ جنگ صفین میں آپ کی ٹانگ پر تیر ایسے لگا کہ لوگ اسے نکالنے کی کتنی ہی کوشش کرتے, لیکن آپ کے درد اور تکلیف کی وجہ سے نکال نہیں پاتے تھے۔ امام حسن ع سے یہ بات کہی گئی تو آپؑ نے فرمایا: ٹھہرو میرے والد کو نماز کے لئے کھڑا ہونے دو۔ کیونکہ اس حالت میں وہ اپنے آپ سے اس قدر بےخبر ہو جائیں گے کہ انہیں احساس بھی نہیں ہو گا۔ چنانچہ ایسے ہی کیا گیا۔ نماز کے بعد آپ ع کو پتہ چلا کہ پاؤں سے خون بہ رہا ہے۔ پوچھا, یہ کیا ہوا؟ تو لوگوں نے بتایا کہ نماز پڑھنے میں آپ کے پاؤں سے تیر نکالا گیا ہے۔

نماز کی مقبولیت میں ایک رکاوٹ زکوة اور واجب حقوق کا ادا نہ کرنا ہے۔ اس کے ساتھ حسد کرنا, غرور کرنا, چغلی کھانا, پیٹھ پیچھے برائی کرنا, حرام کھانا اور شراب پینا بھی رکاوٹ ہے۔ خاص طور سے عورتوں کا شوہر کی واجب اطاعت نہ کرنا۔ بلکہ خدا کے اس فرمان "خدا صرف پرہیزگاروں سے قبول کرتا ہے (مائدہ ۔ 27) کا مقصد ہی یہی ہے کہ کسی فاسق اور گناہگار کی نماز قبول نہیں ہو گی۔

یہ بھی لازم ہے کہ انسان ہر اس بات سے بچے جو نماز کا اجر و ثواب کم کرتی ہے۔ مثلاً نیند وغیرہ کی وجہ سے سستی کی حالت میں نماز نہ پڑھے, پڑھنے میں جلدی نہ کرے, ایسی حالت میں نہ پڑھے کہ پیشاب, پاخانہ اور ہوا خارج کرنے کی حاجت رکھتا ہو, آسمان یا کسی دوسری طرف ٹکٹکی نہ باندھے بلکہ آنکھیں جھکائے رکھے اور جو بات فروتنی اور انکسار کے خلاف ہو اس سے بچے۔ لازم ہے کہ وہ کام کرے جس سے ثواب زیادہ ملے اور نماز کا درجہ بلند ہو۔ مثلاً خوشبو لگانا, صاف ستھرا لباس پہننا, عقیق کی انگوٹھی پہننا, بالوں کو سنوارنا اورمسواک وغیرہ۔

واجب نمازیں

واجب نمازیں چھ ہیں۔

  1. رات دن میں پانچ وقت کی نماز جس کی سترہ رکعت ہوتی ہیں۔
  2. نماز آیات: جو زلزلہ, چاند گرہن, سورج گرہن وغیرہ کے وقت پڑھی جاتی ہے
  3. طواف کعبہ کے بعد مقام ابراہیم پر پڑھی جانے والی دو رکعت نماز
  4. وہ نماز جس کی نذر مانی ہو یا عہد کیا ہو یا معاوضہ لیا ہو
  5. والدین کی قضا نمازیں
  6. نماز میت

نماز میت چونکہ فرض کفائی ہے۔ پس اس کے علاوہ باقی نمازیں اگر اپنے وقت میں ادا نہ کی جا سکیں تو ان کی قضا واجب ہے۔ اگر کچھ قضا نمازیں کسی کے ذمے ہیں تو اس کے لئے یہ وصیت کرنا واجب ہے کہ اس کے مرنے کے بعد پڑھی جائیں اور جب وہ وصیت کر دیتا ہے تو اس کے وصی پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ اس کے تہائی مال سے جس قدر کے لئے کہا ہے نماز روزے کے لئے کسی کو اجرت پر رکھے۔ اور اگر وصیت نہیں کی یا مال نہیں تھا تو اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ اس کی قضا نمازیں پڑھے یا اجرت پر پڑھوائے اور اگر مرنے والے نے بیٹا نہ چھوڑا ہو اور نہ وصیت کی ہو تو اس حالت میں تمام وارثوں پر واجب نہیں ہے۔ لیکن احتیاط یہ ہے کہ تمام وارث یا تو خود پڑھیں یا ہر ایک اپنے اپنے حصے کے مطابق کسی کو اجرت پر رکھیں۔

موت کے بعد نیک کاموں کا ثواب پہنچنے کے بارے میں ایک روایت نقل کی جاتی ہے کہ رسول خدا ص کے ایک صحابی نے وصیت کی کہ اس کے مرنے پر کھجوروں کا وہ ذخیرہ جواس کے پاس تھا خدا کی راہ میں خیرات کر دیا جائے۔ جب وہ مر گیا تو آنحضرت ص نے سب اس کی طرف سے خیرات کر دیا۔ اس میں سے ایک کھجور زمین پر پڑی رہ گئی۔ آنحضرتؐ نے وہ اٹھالی اور فرمایا, اگر اس نے خود یہ ایک کھجور بھی خیرات کی ہوتی تو اس کے حق میں کھجوروں کے اس ڈھیر سے بہتر ہوتا جو میں نے اس کی طرف سے خیرات کی ہیں۔

متعلقہ تحاریر