ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کے سامنے ایک آسمان دوسرے آسمان کو اور ایک زمین دوسری زمین کو نہیں چھپاتی۔ مجھ سے ایک کہنے والے نے کہا کہ اے فرزند ابو طالب! آپ تو اس خلافت پر للچائے ہوئے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ خدا کی قسم تم اس پر کہیں زیادہ حریص ہو, حالانکہ تم دور والے ہو۔ میں تو اس کا اہل بھی ہوں اور پیغمبر (ص) سے قریب تر بھی ہوں۔ میں نے اس حق کا مطالبہ کیا ہے جس کا میں حقدار ہوں لیکن تم لوگ میرے اور اس کے درمیان حائل ہوگئے ہو اور میرے ہی رخ کو اس کی طرف سے موڑنا چاہتے ہو۔ پھر جب میں نے بھری محفل میں دلائل کے ذریعہ سے اس (کے کانوں کے پردوں) کو کھٹکھٹایا تو چوکنا ہوا اور ایسا مبہوت ہوگیا کہ کوئی جواب سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
خدایا! میں قریش اور ان کے انصار کے مقابلہ میں تجھ سے مدد چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے قطع رحمی کی اور میری عظیم منزلت کو حقیر بنا دیا۔ اور اس (خلافت) پر کہ جو میرے لئے مخصوص تھی ٹکرانے کے لئے ایکا کر لیا, اور پھر یہ کہنے لگے کہ آپ اسے لے لیں تو بھی صحیح ہے اور اس سے دستبردار ہو جائیں توبھی برحق ہے۔
یہ لوگ (اصحاب جمل) اس طرح نکلے کہ حرم رسول (ص) کو یوں کھینچے پھرتے تھے کہ جیسے کسی کنیز کو خرید و فروخت کے وقت لے جایا جاتا ہے۔ ان کا رخ بصرہ کی طرف تھا۔ ان دونوں (طلحہ و زبیر) نے اپنی عورتوں کو تو گھروں میں روک رکھا تھا اور زوجہ رسول (ص) کو دوسرے لوگوں کے سامنے کھلے بندوں لے آئے تھے۔ جب کہ ان کے لشکر میں کوئی ایسا نہ تھا جو میری بیعت نہ کر چکا ہو اوربغیرکسی جبر و اکراہ کے میری اطاعت میں نہ رہ چکا ہو۔ یہ لوگ پہلے میرے عامل بصرہ (جناب عثمان بن حنیف کا مثلہ کیا) اورخازن بیت المال جیسے افراد پرحملہ آور ہوئے۔ کچھ کو قید کے اندر قتل کیا, اور کچھ کو مکر و حیلہ سے شہید کیا۔ خدا کی قسم اگر یہ تمام مسلمانوں میں صرف ایک شخص کو بھی قصداً قتل کردیتے تو بھی میرے لئے جائز ہوتا کہ اس پورے لشکر کو قتل کر دوں, کیونکہ وہ موجود تھے اور انہوں نے نہ تو اسے برا سمجھا اور نہ زبان یا اپنے ہاتھ سے اس کی روک تھام کی, چہ جائیکہ انہوں نے مسلمانوں میں سے اتنے افراد کو قتل کردیا ہے جتنی ان کے پورے لشکر کی تعداد تھی جسے لے کر ان پر چڑھ دوڑے تھے۔