امام محمد باقر علیہ السَّلام نے فرمایا کہ, گانا ایسی چیزوں میں سے ہے جس پر خداوند تعالیٰ نے عذاب کا قول دیا ہے اور یہ آیہ شریفہ تلاوت فرمائی:
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشْتَرِى لَهْوَ ٱلْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍۢ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُو۟لَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌۭ مُّهِينٌۭ (لقمان ۔ 6)
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راه سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے واﻻ عذاب ہے.
اس کے بعد والی آیت میں ارشاد ہے:
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ءَايَـٰتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًۭا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِىٓ أُذُنَيْهِ وَقْرًۭا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (لقمان ۔ 7)
جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منھ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں، آپ اسے درد ناک عذاب کی خبر سنا دیجئے.
گانے باجے کے لئے قرآن مجید میں لَھْوَالْحَدیْث کے علاوہ لفظ قَوْلَ الزُّوْر بھی استعمال ہوا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے ابوبصیر نے اس آیت شریف کی تفسیر پوجھی تھی
وَاجْتَنبُوا قَوْلَ الزُّوْر (حج ۔ 30)
اور جھوٹی بات سے پرہیز کرو۔
امام علیہ السَّلام نے جواب میں فرمایا, لغو بات گانا ہے۔ اور امام محمد تقی علیہ السَّلام سے اس آیہ شریفہ کی تفسیرپوچھی گئی:
وَٱلَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ ٱلزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا۟ بِٱللَّغْوِ مَرُّوا۟ كِرَامًا (فرقان ۔ 72)تو امام محمد تقی علیہ السَّلام نے جواب دیا, اَلْغنآء ُ یعنی یہاں زُوْر یا فریب سے مراد گاناہے۔ اور ایک اور جگہ فرمایا کہ اس میں ایسے شخص کی بے ہودہ باتیں بھی شامل ہیں جو گا رہا ہو۔ (شیخ طوسی کی کتاب امالی اور کتاب کافی)
اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں .
درج بالا آیت کی طرح اس آیت میں بھی مومنین کی یہ صفت بیان کی گئی ہے:
وَٱلَّذِينَ هُمْ عَنِ ٱللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (مومنون ۔ 3)
اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑے رہتے ہیں
امام جعفر صادق علیہ السَّلام اور امام علی رضا علیہ السَّلام سے پوچھا گیا کہ ان دونوں آیتوں میں "لغو" سے کیا مراد ہے؟ توان دونوں معصوموں نے اپنے اپنے زمانے میں یہی فرمایا کہ: لَغْو دراصل گانا باجا ہے اور خدا کے بندے اس میں آلودہ ہونے سے بچے رہتے ہیں۔ ( کتاب کافی اور کتاب عُیُونُ اخبار رضا)
سیَّد مرتضیٰ اپنی کتاب وسیلہ میں فرماتے ہیں:
گانا حرام ہے۔ گانا سُننا بھی حرام ہے اور اس کے ذریعے مال کمانا بھی حرام ہے۔ البتہ ہر اچھی آواز گانا نہیں ہے بلکہ گانا ایک خاص انداز میں آواز کو کھینچے اور حلق میں مخصوص انداز سے گھمانے کو کہتے ہیں، جو کہ لہو ولعب اور عیش وطرب کی محفلوں میں رائج ہے۔ ایسا گانا موسیقی کے آلات سے عام طور پر ہم آہنگ ہوتا ہے۔
لغت صحاح میں لکھا ہے کہ گانا ایک ایسے انداز کی آواز کو کہتے ہیں جو انسان کو غیر معمولی حد تک غمگین یا خوش کردیتی ہو۔
کتاب ذخیرة العباد میں لکھا ہے کہ:گانا لہوولعب کی خاطر نکالی گئی ہر ایسی آوازکو کہتے ہیں جس کی وجہ سے شہوت اُبھرے، خواہ وہ کلاسیکی موسیقی کی طرح حلق میں آواز گھمانے سے پیدا ہوتی ہو یا کسی اور طریقے سے الغرض عرف عام میں جسے گانا کہا جاتا ہو وہ حرام ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے فرمایا:
گانے باجے اور بے ہودہ باتوں کو غور سے سُننا دل میں نفاق کو اسی طرح پیدا کر دیتا ہے جس طرح پانی سبزے کی نشوونما کا باعث بنتاہے۔ ( کتاب کافی)
کافی ہی میں چھٹے امام علیہ السّلام کی یہ روایت بھی موجود ہے:
گانا باجا نفاق جیسے پرندے کا گھونسلا ہے۔
حضرت علی علیہ السَّلام سے مروی ہے:
اور گانا باجا نفاق پیدا کرتا ہے اور فقر و فاقہ کا باعث بنتا ہے! ( مستدرک الوسائل‘ باب ۷۸)
آپؑ علیہ السّلام مزید فرماتے ہیں:
جس گھر میں گانا باجا ہوتا ہے وہ ناگہانی مصیبتوں سے محفوظ نہیں رہتا! اور نہ ایسے مقام پر دُعا قبول ہوتی ہے! اور نہ ایسی جگہ فرشتے آتے ہیں! (کتاب کافی ‘اور مستدرک الوسائل ‘باب ۷۸)
حضر ت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مروی ہے کہ:
گانا گانے والا شخص اپنی قبر سے جب میدان حشر میں نکلے گا تو اندھا بھی ہوگا، بہرا بھی ہوگا اور گونگا بھی ہوگا ! (جامعُ الاخبار)
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا یہ ارشاد بھی ہے کہ:
جو شخص گانا باجا غور سے سنے گا اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا! (مستدرک الوسائل، باب ۸۰)
قطب راوندی نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ:
گانا گانے والا شخص ایسے لوگوں میں شامل ہے جن پر قیامت کے دن خدا نظر رحمت نہیں ڈالے گا!
حضرت امام جعفرصادق علیہ السَّلام نے فرمایا:
ایسے گھروں میں داخل بھی مت ہو جس کے رہنے والوں پر سے خدا نے اپنی نظررحمت ہٹالی ہو! (کتاب کافی)
امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے فرمایا:
جو شخص کسی بولنے والے کا احترام کرے گا وہ گویا اس کا بندہ ہوجائے گا! اگر بولنے والا شخص خدا کی طرف لے جاتا ہو تو احترام کرنے والا شخص خدا کی عبادت کرتا ہے اور اگر وہ شیطان کی طرف لے جاتا ہو تو وہ شیطان کی عبادت کر بیٹھتا ہے! (فروغ کافی،گانے کا باب)
چھٹے امام کا یہ بھی ارشاد ہے کہ:
جو شخص بھی گانا گانے کی آواز بلند کرتا ہے تو اس پر دو شیطان دونوں کندھو ں پر سوار ہوجاتے ہیں اور اس وقت اپنے پیر کی ایڑی اس کے سینے پر مارتے رہتے ہیں جب تک کہ اس کا گانا ختم نہیں ہوجاتا!
حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی یہ حدیث تفسیر مجمع البیان میں موجود ہے کہ:
جوشخص بہت گانے سنتا رہا ہو وہ روحانیوں کی آواز قیامت میں نہیں سُننے گاپوچھا گیا, یا رسول اللّٰہ ! یہ روحانی کون لوگ ہیں؟ فرمایا: جنت میں خوش الحانی سے گانے والے۔
حضرت امام علی رضا علیہ السَّلام کا ارشاد ہے:
جو شخص خود کو گانے سے بچائے رکھے گا تو خدا سے جنت میں ایک درخت میں سے آواز سنوائے گا کہ ایسی اچھی آواز کسی نے نہیں سنی ہوگی ! اور جو شخص اپنے آپ کو گانے سے نہیں بچائے گا وہ ایسی آواز نہیں سن سکے گا۔ (کتاب کافی)
حضرت علی علیہ السَّلام کا یہ قول نہج البلاغہ میں موجود ہے:
حضرت داود علیہ السَّلام جنت کے خوش الحان لوگوں کے سردار ہوں گے۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
میری اُمّت میں ایسے واقعات ظاہر ہوں گے کہ زمین دھنس جایا کرے گی اور آسمان سے پتّھر برسا کریں گے! لوگوں نے پوچھا کہ ایسا کب ہوگا؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: جب گانے باجے کے آلات عام ہوں گے، گانا گانے والی لڑکیاں کثرت سے ہوں گی اور نشہ آور چیزوں کا استعمال پھیل جائے گا! خدا کی قسم میری امّت کے بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو رات کو مستی اور عیاشی کے عالم میں گذاریں گے اور صبح درحقیقت بندروں اور سوّروں کی مانند ہوجائینگے! یہ اس سبب ہوگا کہ وہ حرام کو حلال سمجھتے ہونگے۔ گانا گانے والی لڑکیوں میں مگن ہونگے‘ نشہ آور چیزیں استعمال کریں گے‘ سود کا مال کھائین گے اور ریشمی کپڑے پہنتے ہوں گے! (وسائل الشیعہ‘ کتاب التجارہ‘ گانے کا باب)
گانا زنا کا سبب بن جاتا ہے۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:
گانا‘ زنا کی سیڑھی ہے! (مستدرک الوسائل‘ کتاب تجارت)
گانے سے آدمی کی شہوت اُبھرآتی ہے, آدمی خدا سے غافل ہو جاتا ہے اور ہر قسم کی بدکاری کے لئے آمادہ نظر آتا ہے۔ موسیقی نہ صرف شرم و حیاء اور غیرت کو ختم کردیتی ہے, بلکہ محبت, انسانیت اور رحم جیسے جذبات کو بھی فنا کر دیتی ہے۔ الغرض معاشرے کو جہنم کا نمونہ بنا دیتی ہے!
امام جعفر صادق علیہ السَّلام کا ارشاد ہے:
لہو ولعب کے وہ تمام کام گناہ کبیرہ ہیں جو خداوند تعالےٰ کی یاد سے غافل کر دیتے ہیں‘ مثلاً گانا باجا اور موسیقی کے آلات کا استعمال!
گانے کے طرز پر قرآن مجید پڑھنا یا نعت, نوحہ, مرثیہ پڑھنا یا اذان دینا بھی حرام ہے۔ بلکہ مقدّس چیزوں کو گانے کے طرز پرپڑھنے کا گناہ دُگنا ہے۔ ایک تو گانے کی آواز نکالنے کا گناہ، اور دوسرے قابل احترام چیزوں کی بے حرمتی کا گناہ۔
البتہ ہر اچھی آواز گانا نہیں ہے۔ خوش الحانی سے، گلے میں آواز گھمائے بغیر اگر تلاوت قرآن کی جائے یانوحہ مرثیہ پڑھ جائے تونہ صرف یہ کہ یہ کوئی بُری بات نہیں ہے بلکہ اچھّی بات ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:
قرآن عرب لوگوں کے لہجے میں خوش الحانی سے پڑھاکرو۔ تم کو فاسقوں اور گناہ کبیرہ کرنے والوں سے پرہیز کرنا چاہئیے۔ یقینا ایسے لوگ دنیا میں آئیں گے جو قرآن کو گانے کے، گا کر رُلانے والوں کے اور راہبوں کے طرز پر پڑھاکریں گے۔ ایسے لوگوں کے پاس جانا یا ان کو اپنے پاس بلانا جائز نہیں ہوگا۔ ایسے لوگوں کے دل اُلٹے ہوئے ہوں گے، اور جو لوگ ایسوں سے متاثر ہوں گے ان کے دل بھی ایسے ہی اُلٹے اور کج ہوں گے! (وسائل الشیعہ، کتاب صلوٰة)
قیامت قریب ہونے کی علامتیں ذکر کرتے ہوئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں :
ایسے لوگ بھی دنیا میں آئیں گے جو قرآن کو دنیاوی مقاصد کے لئے حفظ کریں گے اورگانے کے طرز پر تلاوت کریں گے۔
بعض مجتہدین نے تین شرطوں کے ساتھ شادی کے موقع پر عورتوں کو گانے کی اجازت دی ہے:
بعض علماء نے دف (یعنی ایسا ڈھول جس کے ایک ہی طرف کھال ہو ) شادی میں بجانے کی اجازت دی ہے۔ شہید ثانی اورمحقق ثانی فرماتے ہیں کہ دف شادی میں اس صورت میں بجانا جائز ہے جب کہ اس کے اطراف میں جھنجھنے نہ لگے ہوں۔
لیکن احتیاط یہ ہے کہ شادی کے موقع پر نہ تو عورتیں گانا گائیں اور نہ ہی کوئی چیز بجائیں۔