سعودیہ اور ایران کی جنگ

آفتاب حیدر نقوی 04/05/2015 1661

تا ہنوز مغرب اور مغربی میڈیا کی غلامی میں قید ہمارا میڈیا دنیا کے ہر مسئلے کو سعودیہ اور ایران کی جنگ قرار دینے پر تلا ہوتا ہے۔ آئیں غیر جانبداری سے مسئلے کا جائزہ لین اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ مسئلہ کہاں ہے، لیکن پہلے کچھ تاریخی پس منظر۔

 ۔ مسلمانوں کے درمیان دہشت گردی کا مسئلہ شروع سے درپیش رہا ہے۔ سب سے پہلے دہشت گرد خوارج تھے  جنہوں نے حضرت علیؑ کی خلافت میں سر اٹھایا، گروہ بندی کی اور محدود علاقے میں اپنی حکومت قائم کر کے فتنہ و فساد شروع کر دیا۔ راستہ چلتے لوگوں کو لوٹنا اور لوٹ مار کے دوران قتل کرنا اور یا بھتہ وصولی انکی آمدن کے ذرائع قرار پائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آج 1400 سال کے بعد بھی طالبان اور داعش یہی سب کچھ کر رہے ہیں۔ محدود علاقوں میں اپنی عملداری قائم کرتے ہیں اور ان کی آمدن کے ذرائع اغواء برائے تاوان، منشیات اور قیمتی نوادرات کی سمگلنگ اور ڈکیتی اور بھتہ وصولی ہوتے ہیں۔

 ۔ تاریخ کا پہلا ضرب عضب امام علیؑ نے ان خوارج کے خلاف کیا اور آپ نے باب مدینہ العلم اور علم لدنی کا حامل ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے سپاہیوں کو جنگ سے ایک رات پہلے خوشخبری سنا دی کہ کل تم میں سے 10 بھی شہید نہیں ہوں گے اور ان میں سے 10 بھی نہیں بچیں گے، اور پھر ایسا ہی ہوا۔ امام علیؑ کے سپاہیوں میں سے 7 یا 9 شہید ہوئے اور خوارج میں سے صرف 9 خارجی بچے کہ جن کی اولاد (نسبی اور فکری دونوں اولادیں شامل ہیں) آج تک فتنہ و فساد برپا کئے ہوئے ہے۔

 ۔ رسول اکرمؐ کے قریب 150 سال بعد تک مسلمانوں میں شیعہ سنی تفریق نہیں تھی اور صرف عقیدتی اور سیاسی اختلافات تھے۔ اس وقت کے اختلافات اس نوعیت کے تھے جیسا کہ مسئلہ قضاء و قدر، قرآن کے حادث ہونے یا قدیم ہونے کا مسئلہ وغیرہ اور ان سب سے بڑھ کے اہم مسئلہ امامت کا مسئلہ تھا۔ مسلمانوں میں ایک جماعت ایسی تھی کہ جو حضرت علیؑ، امام حسنؑ، امام حسینؑ اور ان کی اولاد کو امام مانتے تھے اور باقی لوگ ان کی امامت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ حضرت علی کو امام ماننے والوں کو حضرت علی کا شیعہ کہا جاتا تھا لیکن اس شیعہ سے مراد شیعہ فرقہ نہیں بلکہ حضرت علی کا طرفدار اور ساتھی جیسا کہ عربی زبان میں شیعہ کے یہی معنی ہیں۔ لیکن ان ائمہ کرام کے ہوتے ہوئے کوئی فرقہ ایجاد نہیں ہوا یہاں تک کہ نبی اکرمؐ کے وصال کے تقریباً 150 سال کے بعد وہ لوگ کہ جو امامت کو تسلیم نہیں کرتے تھے انہوں نے بھی اپنے امام بنا لئے۔ جب خلافت کے ماننے والوں اور امامت کا انکار کرنے والوں نے خود امام ابو حنیفہ اور دیگر تین اماموں کی پیروی شروع کر دی تو یہاں سے مسلکی تفریق کی بنیاد پڑی۔

 ۔ مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی رسم بہت پرانی ہے۔ بریلوی حضرات نے دیوبندی اور دیگر مسالک کے کفر کے فتوے دئیے اور دیوبندی اور اہلحدیث مفتیان نے بہت سے دوسروں کو قابل گردن زدنی جانا۔ شیعہ اپنے حریت پسندانہ موقف کی وجہ سے ہمیشہ ہر کسی کی زد میں رہے اور ان کا موقف یہ تھا کہ اگر کوئی غاصب اور ظالم ہو گا تو ہم اسے غاصب اور ظالم ہی کہیں گے چاہے وہ رسول اکرم کا قریبی ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ ان کے موقف کو بہت سے اہلسنت علماء کی طرف سے تائید بھی حاصل ہوئی اور نتیجتاً خلافت کو مطلقاً تقدس دینے کی جو کوشش کی گئی تھی وہ ناکام ہو گئی اور خلافت راشدہ کی اصطلاح ایجاد کرنا پڑی۔ البتہ اس میں سقم یہ ہے کہ اگر یہ حدیث درست ہے کہ میرے بعد خلافت راشدہ 30 سال ہو گی تو امام علیؑ کی حکومت 29 سال اور 6 ماہ بعد ختم ہو گئی تھی، اور اگر امام حسنؑ کی حکومت کے 6 ماہ شامل نہ کئے جائیں تو 30 سال پورے نہیں ہوتے۔ اب نہیں معلوم یہ حب معاویہ ہے یا بعض حسنؑ کہ خلاف راشدہ حق چار یار ہی رہے گی اور پانچویں خلیفہ راشد امام حسنؑ کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا جاتا۔

 ۔ اگر کسی کو یہ وہم ہو کہ موجودہ سعودی بادشاہت اسی خلافت راشدہ کا تسلسل ہے تو اسے اس وہم کو دور کر لینا چاہئے۔ سعودیہ (اصل نام حجاز) پچھلے ادوار میں خلافت عثمانیہ کے ماتحت تھا اور برطانیہ نے آل سعود کو ترکوں کے خلاف استعمال کر کے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا (یاد رہے یہ وہی خلافت عثمانیہ ہے جس کے حق میں برصغیر میں تحریکیں چلا کرتی تھیں)۔ یعنی اگر صاف لفظوں میں کہا جائے تو ایک عرصہ تک خانہ کعبہ اور مسجد النبی پر ترکوں کا قبضہ تھا (تو آج فرض کیا اگر حوثی قبضہ کر لیں تو کم از ترکی کو تو اعتراض نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ وہ خود ایک زمانہ قابض رہے ہیں)۔ تاج برطانیہ نے 1926ء میں آل سعود کو حجاز کی حکومت دلائی اور اس زمانے سے یہ سعودی حکمران برطانیہ اور امریکہ کے مفادات کے محافظ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ (1932ء میں اس خطہ کا نام سعودی عرب اعلان کیا گیا اور آج اصل نام حجاز سے بہت کم لوگ آشنا ہیں)۔ 

 ۔ تاریخ میں پہلی دفعہ امام حسینؑ کی قبر مبارک پر ہل چلائے گئے تھے اور اسکا نشان مٹانے کی کوشش کی گئی تھی، اور دوسری قبور کو مسمار کرنے کی یہ حرکت آل سعود نے کی کہ 1926ء میں رسول اکرمؐ کے مزار مبارک کے علاوہ باقی تمام مزارات بشمول خاتون جنت جناب فاطمہ الزہراؐ، امام حسنؑ اور دیگر ازواج و اصحاب النبی کے مزارات کو مسمار کر دیا۔ اگر قبروں پر گنبد وغیرہ تعمیر کرنا رسول اکرمؐ کی تعلیمات کے خلاف تھا تو سب سے پہلے نبی پاک کی قبر کو اس کفر سے پاک کرنا چاہئے تھا۔ اگر وہابیوں کے عقیدے کے مطابق نبی پاکؐ نے قبول پر عمارتیں تعمیر کرنے کو حرام قرار دیا ہے تو خود نبی پاکؐ کی قبر مبارک پر تو عمارت آج تک قائم ہے بلکہ اس میں ہمیشہ اضافہ ہوتا آیا ہے۔ کیا نبی پاک ان نجدیوں پر نفرین نہ کرتے ہوں گے؟

 ۔ دیگر تمام حکومتوں کی طرح مسلمانوں کی حکومتیں بھی اپنے نظریات کو معاشرے میں نافذ کرنے کے لئے ہمیشہ سے کوشاں رہی ہیں اور اپنے نظریاتی مخالفین کو کچلنے اور کمزور کرنے کا بھی خاطر خواہ اہتمام کرتی رہی ہیں۔ لیکن اس مقصد کے لئے دہشت گرد گروپوں کا استعمال ہمیں اپنی تاریخ میں نہیں ملتا۔ اصل میں یہ ٹیکنالوجی صیہونی، برطانوی اور امریکی ذہن کی پیداوار ہے کہ جنہوں نے اس کے کئی کامیاب تجربے کئے اور اس میں سب سے بڑا تجربہ ایک سپر پاور یعنی روس کے ٹکڑے کرنا تھا۔ جب اس ٹیکنالوجی کی کامیابی کے کرشمے دنیا کو نظر آئے تو جو بھی اس سے مستفید ہو سکتا تھا اس نے ہونے کی کوشش کی۔ پاکستان کا بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں ایک نمایاں مقام ہے البتہ یہ الگ بات ہے کہ گنگا ہی الٹی بہنا شروع ہو گئی اور پاکستان کو بھی الٹا انہیں کے خلاف ضرب عضب شروع کرنا پڑا۔

 ۔ موجودہ عرب حکومتوں کی طالبان، القاعدہ اور داعش کی پشت پناہی کرنا اسی فلسفہ کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے النصرہ فرنٹ اور داعش کے ذریعہ شام کی حکومت گرانے کی کوشش کی اور عراق کی بھی۔ اگر ہمارے کسی مسلمان بھائی کو اب بھی اس میں شک ہے تو صرف اس بات پر غور کر لے کہ خلیج فارس میں سب سے بڑا امریکی اڈا بھی قطر میں ہے اور طالبان کا دنیا میں قائم واحد دفتر بھی قطر میں ہے۔ عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے اور باقیوں پر ہمارا سلام۔

 ۔ ایران اور سعودی عرب کو حالت جنگ میں قرار دینے والوں سے ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ صرف اس بات کا تجزیہ کر لیں کہ یہ حکومتیں دنیا میں کس کس کی پشت پناہی کرتی ہیں، ان کے دوست کون کون ہیں اور دشمن کون۔ معذرت کے ساتھ وہ اینکر حضرات جن کو پاکستان میں ایران اور سعودی عرب کے پراکسی وار نظر آتی ہے کیا بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں کتنے شیعہ دہشت گروپ ہیں جن کو ایران امداد دے رہا ہے۔ آپ نہیں بتا سکیں گے البتہ ہم آپ کو بتائیں گے کہ کتنے غیر شیعہ دہشت گرد گروہ ہیں جنہیں عرب ممالک سے امداد آتی ہے۔ مصلحت کوشی کی انتہا ہے کہ آپ بیلنس کرنے کے لئے حق کو باطل کہنا شروع کر دیں۔ جو دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا ہے اسے دہشت گرد کہنا چاہئے، اور جو نہیں کرتا اسے نہ کہنا ہی عدالت ہے۔

 ۔ ایران اور سعودیہ کا کردار مختلف گروہوں اور حکومتوں کی حمایت اور امداد میں یوں بنتا ہے۔ اسے پڑھ کے آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایران دنیا میں جتنے شیعہ ملکوں اور گروہوں کی امداد کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ غیر شیعہ لوگوں کی حمایت کرتا ہے جیسے فلسطین کے سنی، مصر کے سنی اخوان المسلمون اور دیگر۔ اور سعودیہ اخوان المسلمون جیسی سنی اسلامی جماعت کی حکومت ختم کروانے کے لئے بھرپور کردار ادا کرتا ہے اور پھر بھی ہمارے لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہوئے سعودیہ کو سنیوں کا لیڈر مانتے ہیں اور سعودی بادشاہت کے طول کی جنگ کو اسلام کا دفاع کہتے ہیں۔

 

قوم/ ملک غالب عقیدہ سعودی عرب کا کردار ایران کا کردار
فلسطین سنی لاتعلقی علی الاعلان مالی، دفاعی اور سیاسی حمایت
مصر سنی اسلامی حکومت کو گرانے میں تعاون اخوان المسلمون کے ساتھ اچھے تعلقات اورممکنہ تعاون
شام علوی/ سنی حکومت کے خلاف دہشت گرد گروپوں کی امداد سیاسی اور دفاعی تعاون
عراق شیعہ حکومت کے خلاف دہشت گرد گروپوں کی امداد علی الاعلان دفاعی تعاون
بحرین شیعہ سنی اقلیت کی بادشاہترکھنےکے لئے فوج کشیاورنہتے مظاہرین کا قتل سیاسی و سفارتی حمایت
یمن زیدی / سنی بمباری اور اپنی مرضی کیمسلط کرنے کی کوشش زبانی سیاسی حمایت
پاکستان سنی دہشت گرد گروپوں کی مالی مدد، حکومت کو یمن میں گھسیڑنے کی کوشش پاکستان کی خودمختاری کوتسلیم کرنا اور دہشت گردوں کےخلاف تعاون کی پیشکش

متعلقہ تحاریر