ریا کاری

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 22/03/2022 1734

ریا کار مشرک ہے

معتبر روایات سے یہ مطلب اخذ ہوتا ہے کہ دکھاوے کا کام کرنے والا شخص مشرک و منافق ہے اور وہ پروردگار عالم کے عذاب میں گرفتار ہو کر اس کے غضب کا نشانہ بنتا ہے۔ خوا ہ اس کی ریا واجبات میں ہو یا مستحبات میں، چاہے وہ بالذات ریا کار ہے یا شرکت کے طور پر، باالفاط دیگر وہ مخلوق سے قریب تر ہونے اور ان کے نزدیک اپنے آپ کو محترم بنانے اور ان کی خوشنودی کے لیئے عبادت کرتا ہے۔  اور اس کے ساتھ ساتھ امرخدا کی فرمانبرداری کا قصد بھی رکھتا ہے۔  اور اس کی رضایت و قربت کا آرزو مند بھی ہے (اس قسم کے تعبد کوشرک در مقام عبادت کہتے ہیں)

ارشاد ہوتا ہے:
إِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ يُخَـٰدِعُونَ ٱللَّهَ وَهُوَ خَـٰدِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوٓا۟ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ قَامُوا۟ كُسَالَىٰ يُرَآءُونَ ٱلنَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ ٱللَّهَ إِلَّا قَلِيلًۭا (النساء ۔ 142)
منافق (اپنے نزدیک) خدا کو دھوکا دیتے ہیں اور وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کرلوگوں کے دکھانے کو اور خدا کی یاد ہی نہیں کرتے مگر بہت کم
ارشاد فرمایا:
فَوَيْلٌۭ لِّلْمُصَلِّينَ ٤ ٱلَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ٥ ٱلَّذِينَ هُمْ يُرَآءُونَ (الماعون ۔ 4,5,6)
سخت عذاب ان نماز گزاروں کے لیے تیار ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں. جو ریا کاری کرتے ہیں

ریاء شرک اصغر ہے

حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا :
بے شک تمہارے بارے میں جس چیز سے مجھے زیادہ تر خوف ہے وہ شرک اصغر سے ہے۔ کسی نے عرض کیا اے پیغمبر چھوٹے شرک سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا وہ ریاء ہے۔  قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال کی جزاء دینے لگے گا تو ریا کاروں سے فرمائے گا  تم ان لوگوں کی طرف رجوع کرو جن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دنیا میں نیک اعمال انجام دئیے تھے۔ انہیں سے اپنے اعمال کا صلہ لے لو۔ کیا ان سے صلہ ملنا ممکن ہے ؟ (بحارالانوار)
حدیث میں ہے:
بے شک اگر کسی بندہ خدا نے کوئی عمل خیر انجام دیا اور اس کا قصد اللہ کی رضاجوئی اور آخرت کا ثواب حاصل کرنا ہو, اگر اس عمل میں مخلوق کی خوشنودی شامل کی گئی تو وہ مشرک قرار پائے گا۔ (بحارالانوار)

ریا کار اپنے آپ کو دھو کہ دیتا ہے

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے کسی نے پوچھا کہ قیامت کے دن نجات کیسے حاصل ہو؟ فرمایا نجات اسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دھوکے بازی نہ کرے۔  بے شک کوئی اللہ کو دھوکہ سے تو خدا اسے دھوکہ دیتا ہے اور ایمان اس سے چھین لیتا ہے۔  اگر وہ شعور رکھتا ہے تو دھوکہ اپنے آپ کو دیتا ہے نہ کہ خدا کو۔ کسی نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کیسے دھوکہ و فریب دے سکتا ہے؟ فرمایا کہ بندہ حکم خدا تو بجا لاتا ہے مگر اس کا قصد غیر خدا کی خوشنودی ہوتا ہے پس تم اللہ سے ڈرو اور ریا سے پرہیز کرو۔  یقینا ریا اللہ سے شرک باندھنا ہے۔ بے شک قیامت کے دن ریا کار کو چار ناموں سے پکارا جائے گا ؛اے کافر، اے فاجر (گنہگار)،اے غادر (مکار)،اے خاسر (زیاں کار) تیرا عمل باطل اور تیرا اجر و ثواب ضائع ہو گیا۔  آج تیری کوئی وقعت نہیں۔  جاؤ جس کے لیے تم یہ اعمال بجا لائے ہو اسی سے اجر و ثواب مانگو۔ (بحَارُ الْاَنْوار)

جھنم کی آگ ریا کاروں سے روتی ہے

حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا بے شک جہنم کی آگ اور اہل جہنم ریا کاروں کے سبب فریاد کرتے ہیں۔ کسی نے دریافت کیا یا رسول اللہ آگ کس طرح روتی ہے؟ فرمایا آگ کی گرمی کی شدت سے کہ جس میں ریاکار لوگ مبتلائے عذاب ہیں جہنم نالہ و فریاد کرتا ہے۔  

کبھی عباد ت گذار کو اس کی عبادت آگ کی طرف کھینچتی ہے

ابو بصیر نے امام جعفر صادق ع سے روایت نقل کی ہے کہ قیامت کے دن ایک بندے کو لائیں گے جو دنیا میں نماز گزار تھا۔  اس سے کہیں گے کہ دنیا میں تم نے نمازیں پڑھی ہیں مگر تمہارہ مقصد یہ تھا کہ لوگ تمہاری مدح سرائی کریں اور کہیں کہ دیکھو کیسی اچھی نماز پڑھتا ہے۔ پس اس شخص کو آگ میں ڈال دیں گے۔  اس کے بعد دوسرے کو لائیں گے جو قاری قرآن ہو گا۔  اس سے کہیں گے کہ تلاوت کے وقت تمہارا قصد یہ ہوتا تھا کہ لوگ کہیں گے کہ تمہارہ لحن و قرأت بہت اچھی ہے پس اس کو بھی آگ کی طرف لے جائیں گے۔  تیسرے کو حاضر کریں گے کہ جو جہاد کرتے ہوئے شہید ہوا تھا۔  اس سے کہیں گے کہ جہاد سے تمہارہ قصد تھا کہ لوگ کہیں گے کہ فلاں شخص بڑا پہلوان اور شجاع ہے۔ اس کو بھی جہنم میں لے جائیں گے۔  چوتھا آدمی راہ خدا میں خرچ کرنے والا تھا۔ اس سے کہیں گے کہ تمہارا قصد تھا کہ لوگ تم کو سخی کہیں گے پھر اس کو بھی جہنم میں لے جائیں گے۔ (لاّلی الاخبار)

خلوص کی فضیلت اور ریا کار کی مذمت

بہت سی روایتوں سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ ریا کار کے لیے آخرت میں خسارہ، اجر و ثواب سے محرومی اور آتش جہنم میں جلنے کے علاوہ دنیا میں بھی وہ اپنی مراد حاصل نہیں کر سکتا۔ بعبارت دیگر اس کا قصد و نظر مخلوق کے نزدیک عزّت و مرتبت پیدا کرنا تھا۔ اس میں کامیاب نہ ہو گا۔ بلکہ اکثر اوقات شرمندگی اور رسوائی سے دوچار ہوگا۔

خَسِرَ ٱلدُّنْيَا وَٱلْـَٔاخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلْخُسْرَانُ ٱلْمُبِينُ (حج ۔ 11)
دنیا اور آخرت (دونوں) کا گھاٹا اٹھایا اور یہی تو صریح گھاٹا ہے۔
اس کے برعکس مخلص انسان آخرت کے اجر و ثواب کے علاوہ اس دنیا میں بھی لوگوں کی نظروں میں عزیز و محترم ہو گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ع نے آیہ مبارکہ :
فَمَن كَانَ يَرْجُوا۟ لِقَآءَ رَبِّهِۦ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَـٰلِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِۦٓ أَحَدًۢا (کہف ۔ 110)
جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہونے کی امید رکھتا ہے تو اسے عمل صالح کرنا چاہیئے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔
کی تفسیر میں فرمایا:
کوئی شخص نیک عمل انجام دیتا ہے مگر اس کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر نہیں بجا لاتا بلکہ لوگوں سے تعریف و ثناء خوانی اُسے منظور ہے اور دل چاہتا ہے کہ لوگ اسے دیکھیں اورسنیں تاکہ شہرت حاصل ہو اور مقبول ہو۔ فرمایا :یہ وہ شخص ہے جس نے اپنے پروردگار کی عبادت میں دوسروں کو شریک بنایا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ کوئی بندہ نہیں کہ اپنے نیک عمل کو پوشیدہ رکھے تاکہ آخر کار خدائے مہربان اس کو منظر عام پر آشکارا فرماتا ہے۔ اور کوئی بندہ نہیں کہ اپنے برے عمل کو مخفی نہ رکھے (ریاکاری اور منافقت کے لئے) مگر جوں جوں زمانہ گزرتا جائے گا اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو سرعام کر کے (ذلیل و خوار کرتا جائے گا)۔ (کتاب کافی)

کھرا عمل جلوہ گر ہوتا ہے

حضرت امام جعفر صادق ع نے فرمایا:

کوئی ارادہ کرے کہ اپنے قلیل عمل سے صرف اللہ تعالیٰ کو خوش کروں گا تو خداوند کریم اس کے عمل کو بڑھا چڑھا کر لوگوں پر ظاہر کرتا ہے اور وہ نظروں میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ (اس کے برعکس ) اگر کوئی زیادہ سے زیادہ عمل بجا لائے جس میں جسمانی مشقت و تکلیف سے خستہ ہو اور شب بیداری سے تھکاوٹ ہوئی ہو مگر اس کی نیت لوگوں سے مدح و ثنا حاصل کرنا اور داد لینا رہا ہو تو خداوند عالم اس کے کثیر عمل کو چھوٹے سے چھوٹا کر کے منظر عام پر لائے گا اور کانوں تک پہنچا دے گا (یہاں تک کہ لوگ اس سے نفرت کریں گے)۔ (کتاب کافی)

د کھاوا، فقہی نظر سے

اگر کوئی عبادت میں شرک جیسے گناہ کبیرہ میں پھنسا ہوا ہو اور توبہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو ایسی صورت میں پہلے حقیقی معنوں میں پشیمان ہونا چاہیئے۔ پھر اس گناہ کو ہمیشہ کے لیے ترک کرنے کا پختہ ارادہ کرے اور تیسرے آئندہ خالصتاً اللہ کے لیے بجا لانے کی نیت کرے۔

یعنی اولاً واجب ہے کہ گذشتہ گناہوں سے استغفار کر کے طلب مغفرت کرے۔ دوسرے جن عبادتوں میں ریا واقع ہوئی ہے ان کو دوبارہ بجا لائے خواہ پوری عبادت ریا کے ساتھ ہوئی ہو یا کچھ حصہ، بایں معنی کہ عمل کی ابتدا سے لے کر انتہا تک غیر خدا اس کی نظر میں رہا ہو، درمیان میں پروردگار کی خوشنودی بھی شامل ہوگئی ہو۔  مثلاً کسی نے واجب زکوٰة خداوند عالم کی فرمان برداری کے قصد سے مستحق کو دے دی ہو اور اس کے ساتھ ہی لینے والے سے کسی قسم کی منفعت حاصل کرنے یا ضرر دور کرنے کا ارادہ بھی رکھے یا لینے والے کی بزرگی اور احترام کا قصد کرنے ہوئے پیش کرے۔ ا ن تمام حالات میں توبہ کرنے کے بعد صرف رضامندی خدا کے لیے دوبارہ زکوٰة دینا واجب ہے۔

نماز دوبارہ پڑھنے سے یہ فرق نہیں پڑتا کہ تمام عمل دکھاوا ہو یا کوئی ایک جزو یہاں تک کہ مستحب عمل کا کوئی جزو بھی ریا کے ساتھ بجا لائے جیسا کہ قنوت پڑھنا تو احتیاطاً دوبارہ تکرار کرے یا عمل کی کیفیت میں ریا داخل ہو جائے جیسا کہ دکھاوے کے لیے نماز جماعت میں شرکت کرے یا پہلی صف میں بیٹھ جائے یا اول وقت نماز پڑھی جائے تو بہرصورت نماز باطل ہے۔

ریا قصد سے مربوط ہوتی ہے

واضح ہو کہ ریا کا دارومدار آدمی کے قصد پر ہے۔ بالفاظ دیگر ہر وہ عمل جو لوگوں کو دکھانے یا ان کے نزدیک مرتبہ بلند کرنے اور ان کو خوش کرنے کے لیے انجام دیتا ہے، وہ ریا ہے۔ درحقیقت کسی عمل میں ریا داخل نہیں ہوتی جب تک عامل ریا کا قصد اور نیت نہ کرے۔ مثلاً اگر صفائی اللہ کی خوشنودی یا فرمان برداری کے قصد سے بجا لایا تو یہ عمل عبادت ہے۔ لیکن اگر دکھاوا مطلوب ہے تو ریا۔ اسی طرح اچھے لباس زیب تن کرنا یا بہترین مکان بنانے میں اگر نعمت خداوندی کے کلی اظہار کا قصد رکھتا ہو تو عبادت ہے اور اگر نمائش و نمود کا پہلو لیے ہوئے ہے تو ریا بن جاتی ہے

ریاکاری کا سرچشمہ دنیا اور اس کی دولت و عزت کی محبت ہے اور دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ خالص دنیوی امور جو کہ عبادت میں شمار نہیں ہیں اس میں ریاکاری حرام ہونے کے بارے میں کوئی واضح دلیل نہیں ہے۔ اس لیے فقہاء عظام بھی اس کی حرمت کے متعلق فتویٰ نہیں دیتے لیکن راہ احتیاط و نجات یہی ہے کہ اہل ایمان ریاء کے تمام مراتب سے پرہیز کرتے ہیں۔

ریا کی اقسام

مرحوم فیض کاشانی محّجةالبیضاء نامی کتاب میں عبادت اور غیر عبادتی امور میں ریا کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے:

  1. بدنی ریا
    اخروی امور کی عبادت میں بدنی ریا سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنے بدن کو کمزور بنا دے اور اظہار کرے کہ خوف و خشیت خدا اور شب بیداری میں کثرت اور خواب و خوراک کی قلّت واقع ہو گئی جس کے نتیجے میں بدن ضعیف ہو اہے۔ یا ہونٹوں کو خشک رکھے تاکہ لوگ اسے روزہ دار سمجھیں۔ یا خود کو اخروی امور میں منہمک دکھانے کی کوشش کرے تاکہ لوگ تعجب کریں کہ یہ شخص بڑا پرہیز گار ہے۔ اور دن رات دینی امور میں مشغول رہتا ہے۔ بدنی ریا کی دوسری قسم دنیوی امور میں بدنی ریا ہے۔ جس سے مراد اپنے قوی ہیکل، طاقت، موٹاپا، زیب و زینت اور نظافت ہے۔ یعنی لوگوں کی نظروں میں سمانا اور اچھا لگنا ہے۔
  2. شکل و صورت اور لباس کی ریا
    اخروی امور میں ہیئت و پوشاک کی ریا: مثلاً مونچھوں کو منڈوا کر صاف کرنا تاکہ لوگ گمان کریں کہ یہ شخص آداب و سنت کا سختی سے پابند ہے۔ یا راستہ چلتے وقت سر اور نظر کو نیچا کر کے باوقار، آہستہ آہستہ چلنا اور سجدہ کے آثار پیشانی سے ظاہر کرنا، گندے پھٹے لباس کو پہن کر ترک دنیا کی نمائش کرنا وغیرہ وغیرہ۔
    دنیوی امور میں پوشاک کی ریا اس طرح ہو تی ہے کہ اہل دنیا کو دکھانے کی خاطر قیمتی اور نفیس کپڑے زیب تن کرے تاکہ لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرے۔
  3. قولی ریا
    آخرت کے امور میں اقوال کی ریا: مثلاً لوگوں کے سامنے لبوں کو حرکت دیتے ہوئے ذکر میں مشغول ہو جائے یا اپنی فضیلت و بزرگی اور علمی قابلیت کی نمائش کے لیے وعظ و نصیحت کرے اور مجالس و محافل میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے ہوئے حاضرین کو ڈرائے اور دل میں خلوص نہ ہو۔
    اسی طرح دنیوی امور میں قولی ریا سے مراد لوگوں کے سامنے اپنے کمالات کا اظہار کرنا تاکہ لوگ اس کا احترام کریں اور فضیلت کے قائل ہو جائیں۔ جس موضوع پر بحث ہو وہ اپنی اظہار نظر کرے تاکہ لوگ اسے باخبر اور دانش مند سمجھیں۔ ہر ایک کے ساتھ خوشامد اور زبانی ہمدردی کا اظہار کرے تاکہ لوگ اس کے شیفتہ ہو جائیں۔
  4. عمل میں ریا
    اخروی عمل میں ریا کاری جیسا کہ لوگوں کے سامنے نماز پڑھتے ہوئے لمبی سورتوں کی تلاوت کرنا، رکوع و سجود کو طول دینا، خضوع و خشوع کی نمائش کرنا، واجب و مستحب روزے رکھنا، حج و زیارت بجا لانا، کھانا کھلانا اور صدقات دینا صرف اس لیے ہو کہ لوگ اس کو متدین اور عبادت گزار تصور کریں۔
    دنیوی عمل میں ریا کاری سے کام لینا، مثلاً جہاں لوگوں کی اکثریت ہو وہاں اس کے رجحان کے مطابق رقم خرچ کرنا تاکہ لوگ اسے سخی کہیں اور وہ شہرت پائے یا بڑی رقم خرچ کرکے کثیر تعداد میں لوگوں کو دعوت دے اور ان کی خاطر و مدارت کرے۔
  5. بیرونی اور خارجی امور میں ریا
    اخروی امور میں ریا کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص دین داروں اور علماء کی مجلس میں بغیر دلی لگاؤ کے محض دکھاوے کے لیے شرکت کرے۔ یا عبادت گذار اور پرہیز گاروں سے ملنے جائے یا اپنے گھر میں اس کو دعوت دے تاکہ لوگ اسے دین دار، علم دوست اور بزرگوں کا ہم نشین خیال کریں۔
    اسی طرح دنیوی امور میں بھی ریا کاری ممنوع ہے۔ مثلاً حکمرانوں اور بادشاہوں کے دربار میں زیادہ آمدو رفت کرنا تاکہ لوگ اس کے اثر و نفوذ کے قائل ہو ں اور اس طرح وہ سادہ لوح افراد کو فریب دے کر اپنے مطالب حاصل کرے۔

متعلقہ تحاریر