14ویں صدی اور اس کے بعد مسلسل دین کے نام پر دین کے علاوہ کیا کچھ نہیں کیا گیا اور آخری زمانے کےانہیں فتنوں کے بارے میں نبی اکرمؐ کی زبان مبارک ہمیں خبردار کر چکی ہے۔ ارض پاک میں فتنہ کی ایک شکل سپاہ صحابہ کی صورت میں وجود میں آئی۔ ایک ایسی تنظیم جس کا مقصد دین کی خدمت اور تبلیغ نہیں بلکہ مسلمانوں کو کافر قرار دلوانا اور ان میں فتنہ و فساد برپا کرنا ٹھہرا۔ ان کےنشانے پرشیعہ تو پہلی صف میں ہیں ہی، لیکن اصل میں اس تنظیم کا مقصد تمام مسلمانوں کو ھدف بنانا ہے، جیسے عید میلاد کے جلوسوں کے خلاف تحریک، مزارات پر حملے اور بے شمار درست اور جائز کاموں کو بدعت قرار دینے کی تحریک وغیرہ۔
اس تنظیم نے صحابہ کو بہانہ بنا کر شیعوں کے خلاف اسلحہ اٹھایا ہے۔ حالانکہ صحابہ صرف ایک بہانہ ہیں، اوراگر انہیں یہ بہانہ نہ ملتا تو وہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کےلئے کافی اور بہانے تلاش کر لیتے۔ اس فتنہ پرور گروہ کے بطلان کے لئے ان کی بعض غیر دینی اور غیر منطقی موقف اور حرکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
- عید میلاد النبیؐ اور محرم کے جلوسوں کو بدعت کہنے والے خود صحابہ کے نام پر جلوس نکالتے ہیں اور اس کو عین دین شمار کرتے ہیں۔
- خلفاء کے ایام ولادت و وفات کو ان کے اصل ایام کی بجائے جعلی اور من گھڑت ایام پر منانا کہ جس کا مقصد صرف اور صرف شیعہ اور سنی مسلمانوں کے پروگرامات اور نستبوں کو سبوتاژ کرنا مقصود ہو۔ اور اس تحریف دین کو عین دین سمجھ کر انجام دینا۔
- صحیح کام کو بھی انجام دینے کے لئے غلط راستہ اختیار کرنا جس کا مقصد صرف طرف مخالف کو نشانہ بنانا ہو۔ مثلاً کربلا کی یاد منانے کی بجائے عشرہ فاروق و حسین کے نام سے کسی نئے راستے کی ایجاد کی کوشش کرنا۔ حالانکہ حضرت عمر تو محرم کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے دفن بھی ہو چکے تھے۔ اگر حضرت عمر سے محبت کا اظہار کرنا بھی ہے تو ذوالحج کے آخری عشرہ کو ان کے نام سے منائیں، اور محرم کے پہلے عشرہ کو امام حسینؑ کے نام پر۔ لیکن ان کا مقصد صرف کربلا اور امام حسینؑ سے توجہ ہٹانا ہے اور حقیقت میں حضرت عمر سے بھی انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
- اہل بیت محمدؐ کی فضیلتوں کو کم رنگ کرنے کے لئے آل محمدؐ کے فضائل کو چھپانا اور صرف دیگر صحابہ سے منسوب فضائل کا بیان کرنا۔ جیسے نبی اکرمؐ کی حدیث کہ ”حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں“ اور حسن و حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں کو کبھی بیان نہیں کرتے بلکہ اس کے مقابلے میں اور طرح کی روایات کو زور و شور سے بیان کرتے ہیں جیسے ”معاویہ مجھ سے ہے اور میں معاویہ سے ہوں“ اور حضرات ابو بکر و عمر جنتی بوڑھوں کے سردار ہیں“ (احادیث کے صحیح یا غلط ہونے سے قطع نظر صرف ان کی بیان کردہ روایات کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے)۔ یا پھر حضرت علیؑ کے سب سے پہلے ایمان لانے کو غیر اہم قرار دینے کے لئے ایمان لانے والوں میں بچوں اور بوڑھوں کی تقسیم کرنا وغیرہ۔
- دین نبی اکرمؐ کی پیروی کا نام ہے، لیکن جان بوجھ کر فتنہ بپا کرنے کے لئے صدیوں سے رائج دینی اصطلاحات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنا۔ مثلاً سنت طریقہ اور نبوی طریقہ کی بجائے صحابی طریقہ جیسی اصطلاحات رائج کرنے کی کوشش کرنا۔
- جن کو غلام محمد، اور غلام حسین جیسے ناموں پر اعتراض ہوتا تھا (کہ غلامی صرف ﷲ کی ہےاور ﷲ نے انسانوں کو آزاد پیدا کیا ہے) اور اسے دین سے بغاوت قرار دیتے تھے، آج وہ ہر جگہ اپنے آپ کو غلامان صحابہ کہلواتے پھرتے ہیں۔ گویا اعتراض صرف نبی اکرمؐ اور ان کے اہل بیتؑ سے نسبت پر ہے، اور صحابہ کے نام پر کچھ بھی کر لیا جائے وہ جائز ہے؟
- علی، حسن اور حسین جیسے نام آپ کو ان میں نہیں ملیں گے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اہل بیت سے محبت کا کیا عالم ہے۔ البتہ سفیان اور اس طرح کے نام بہت ملیں گے۔ لگتا ہے ان کے نزدیک محبت کا معیار یزید کا نزدیکی ہونا ہے نہ کہ نبی اکرمؐ کا قریبی ہونا۔
نماز میں آل پر درود سے نبی اکرمؐ نے ایسا محکم بندوبست کر دیا تھا کہ آل اور اصحاب کو برابر قرار نہ دیا جا سکے۔ درود ابراھیمی ہو یا پھر نماز ہو، درود نبی اکرمؐ کے بعد صرف ان کی آلؑ پر ہے۔ اصحاب پردرود اگر صحیح معنوں میں تحقیق کی جائے تو شائد نبی اکرمؐ سے کئی صدیوں بعد شروع ہوا ہو۔