انبیاء علیھم السلام کے علم غیب پر مظلع ہونے کا مسئلہ مسلمانوں میں اختلافی رہا ہے۔ آئیں قرآن سے رہنمائی لیں کہ وہ اس مسئلہ کے بارے کیا کہتا ہے۔ قرآن نے جناب موسیؑ اور جناب خضرؑ کا قصہ بیان کیا ہے جو انبیاء علیھم السلام کے علم غیب پر مطلع ہونے کے مسئلہ کو حل کرتا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے:
حضرت موسیؑ کی تعلیم کے لئے آپؑ کے ذمے لگایا گیا کہ مجمع البحرین کے علاقہ میں ہمارے بندےخضرؑ کے پاس جائیں۔ پس آپ نے رخت سفر باندھا اور اس دور دراز علاقے میں پہنچ گئے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیؑ پر نگاہ ڈالی اور کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے، اور میں کسی کام میں آپ کی مخالفت نہیں کروں گا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر آپ میرے ساتھ چلنے ہی کو تیار ہیں تو کسی معاملہ کے متعلق مجھ سے کچھ پوچھنا نہیں جب تک کہ میں خود آُ کو اس کی حقیقت نہ بتلاؤں۔
پس تین واقعات یکے بعد دیگرے ہوئے کہ جس میں سب سے پہلے کشتی پر سوار ہوئے اور حضرت خضرؐ نے کشتی میں سوراخ کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ آپ نے ان کی کشتی توڑ ڈالی، کہ سب غرق ہوجائیں، یہ تو آپ نے بہت عجیب بات کی، خضر علیہ السلام نے کہا کہ میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے، اس پر موسیٰ علیہ السلام نے عذر پیش کیا کہ میں اپنا وعدہ بھول گیا تھا، اس بھول پر آپ سخت گیری نہ کریں۔
آگے بڑھے تو اچانک حضر علیہ السلام نے ایک لڑکے کو دیکھا کہ دوسرے لڑکوں میں کھیل رہا ہے، حضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے اس لڑکے کو بغیر کسی وجہ کے قتل کر دیا۔ حضرت موسیؑ سے ظاہراً ایک معصوم بچے کے قتل کا وحشتناک منظر برداشت نہ ہو سکا اور بول اٹھے کہ آپ نے ناحق ایک پاکیزہ انسان کو بغیر قصاص کے مار ڈالا یہ تو بہت قبیح کام ہے۔ حضرت حضرتؑ نے کہا کہ کیا میں نے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے، موسی علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ معاملہ پہلے معاملہ سے زیادہ سخت ہے، اس لئے کہا کہ اس کے بعد میں نے آپ سے کوئی بات پوچھی تو آپ مجھے اپنے سے الگ کر دیجئے آپ میری طرف سے عذر قبول کرنے میں حد کو پہونچ گئے ہیں۔
اس کے بعد چلنا شروع کیا، یہاں تک کہ ایک گاؤں پر گذر ہوا۔ یہاں کے لوگ انکی پذیرائی سے انکاری ہوئے، البتہ پاس میں ان لوگوں نے ایک دیوار کو دیکھا کہ گرا چاہتی ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اس کو حضرت موسیؑ کی مدد سے سیدھا کھڑا کردیا، موسی علیہا لسام نے تعجب سے کہا کہ ہم نے ان لوگوں سے مہمانی چاہی تو انھوں نے انکار کردیا، آپ نے اتنا بڑا کام کردیا، اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت ان سے لے سکتے تھے، حضرت علیہ السام نے کہا ”هَٰذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ“ (یعنی اب ہماری اور آپ کی مفارقت کا وقت آگیا)
اس کے بعد خضر علیہ السلام نے کہا ”سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا“ (یعنی جن باتوں پر آپ صبر نہ کرسکے میں ان کا بھید بتائے دیتا ہوں) وہ کشتی مسکین لوگوں کی تھی، کہ وہ اس کے ذریعے مزدوری حاصل کرتے تھے۔ دریا کے پار ایک ظالم بادشاہ کی حکومت تھی۔ وہ ان غریب لوگوں سے یہ کشتی چھین لیتا۔ کشتی بہت اچھی حالت میں تھی پس میں نے اسے ناقص کر دیا تاکہ وہ کسی حکومتی کارندے کی نظر میں نہ آئے۔ اسے ناکارہ سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دے۔ جس بچے کو ٹھکانے لگا دیا، اس کا پس منظر یہ ہے کہ اسکے والدین مومن تھے، اور ہمیں خدشہ ہوا کہ یہ یہ بڑا ہو کر بدکردار بنے اور اپنے والدین کو سرکشی اور کفر میں پھنسا دے، اب اللہ تعالیٰ ان کو اس کا نعم البدل عطا کریں گے جو ان کے لئے باعثِ رحمت و برکت بنے گا۔ جو دیوار گرا چاہتی تھی، اس کے نیچے دراصل کچھ یتیموں کا خزانہ دبا ہوا تھا کہ جن کا والد نیک آدمی تھا۔ دیوار گر جاتی تو لوگ وہ خزانہ لوٹ لیتے۔ اب دیوار کی تعمیر سے وہ خزانہ اس وقت تک محفوظ رہے گا، جب تک وہ بچے جوانی کو پہنچ کر وہ خزانہ نکال نہیں لیتے۔ اوریہ کام میں نے اپنی طرف سے نہیں کئے۔
یہ تینوں کام غیب سے متعلق تھے۔ پس اگر حضرت خضرؑ غیب سے مطلع تھے تو ہمارے نبی جو سردارالانبیاء ہیں کا غیب پر مطلع ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ اسی بات کی طرف اشارہ سورہ تکویر کی آیت 24 میں کیا گیا ہے کہ، ”وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ“ (یعنی رسول غیب کی باتیں بتانے میں بخیل نہیں ہیں)۔ پھر سورہ آل عمران آیت 179 میں ارشاد ہوتا ہے، ” وَ مَا کاَنَ اللَّهُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلىَ الْغَیْبِ وَ لَاکِنَّ اللَّهَ یجَْتَبىِ مِن رُّسُلِهِ مَن یَشَاءُ “ (اور الله تم کوغیب کی باتوں سے بھی مطلع نہیں کرے گاالبتہ خدا اپنے پیغمبروں میں سے جسے چاہتا ہے انتخاب کرلیتا ہے۔) ۔ یا پهر سورہ جن آیت 27-28 میں ارشاد ہوتا ہے عَالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ ( وه غیب کا جاننے واﻻ ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، سوائے اس پیغمبر کے جسے وه چن لے۔)
قرآن میں اس طرح کے مطالب اور بھی بیان کئے گئے ہیں کہ جن میں علم غیب کی نفی اور اثبات دونوں موجود ہیں۔ ان سے مراد قرآن میں تناقض یا ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ ان سب کو جمع کیا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کامل علم غیب صرف ذات خداوندی کے پاس ہے البتہ اس میں سے وہ جس قدر چاہتا ہے اور جس کسی کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور شائد حضرت خضرؑ کا اشارہ بھی اسی طرف تھا کہ یہ کام میں نے اپنی طرف سے نہیں کئے۔