اھل بیت پیغمبرؐ سے پہلے عرب، مومنین قوم قریش کو آلﷲ کہتے تھے، یعنی اھل توحید۔ خانہ کعبہ قریش کے زیر انتظام اور ان کی حفاظت میں تھا اور اس وجہ سے قریش کو ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ ابرھہ کے حملہ اور ابابیلوں کے ذریعہ اس حملہ کے پسپا ہونے کے بعد قریش کا یہ مقام اور زیادہ بڑھ گیا تھا۔ پس عام الفیل سے ہی لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ قوم ”آلﷲ“ ہیں۔ یہاں عبدالمطلب کا ذکر بھی مناسب ہو گا کہ جب انہوں نے ابرھہ سے کہا، أنا رب الابل وللبيت رب يحميه (اونٹوں کا رب میں ہوں اور کعبہ کا بھی رب ہے جو اس کو بچا لے گا) حالانکہ آپ موحد تھے اور اپنے آپ کو اونٹوں کا رب کہ کے ﷲ کی ربوبیت میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ یہاں رب بمعنی مالک ہے۔ امام جعفر صادقؑ نے اس لقب (آلﷲ) کی وجہ بیت ﷲ الحرام میں سکونت کو بتایا۔
اسی طرح سے نبی اکرمؐ فرماتے ہیں:
الخلقُ كُلُّهم عِيالُ الله عزَّ وجلَّ، فأَحَبُّ خلقِه إليه أنفعُهم لعِيالِه
(تمام مخلوق ﷲ کا کنبہ ہے، پس اس کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لئے فائدہ مند ہو)۔
عیال کا لفظ لغت میں زیر سرپرستی، زیر پرورش، نیاز مند اور محتاج کے لئے استعمال ہوا ہے۔ پس تمام مخلوقات عیالﷲ ہیں۔ امام حسن مجتبی علیه السلام مدینه میں معاویه کے سامنے منبر پر گئے اور اپنا تعارف اس طرح سے کرایا:
أنا ابن الركن والمقام أنا ابن مكة ومنى ، أنا ابن المشعر وعرفات
(میں رکن و مقام کا فرزند ہوں، میں مکہ و منی کا بیٹا ہوں، میں مشعر و عرفات کا بیٹا ہوں)
امام حسین علیہ السلام نے اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو آلﷲ کہا اور فرمایا:
نَحنُ آلُ الله وَ وَرَثَةِ رَسولُه،
(ہم آلﷲ ہیں اور اس کے رسول کے وارث ہیں)۔
پس اگر آلﷲ سے مراد ﷲ کی اولاد ہو تو وراثت بھی ﷲ سے لینی چاہئے نہ کہ رسولؐ سے! امام سجاد علیه السلام نے یزید کی محفل میں خود کو فرزند مکه و منی سے متعارف کروایا آل ایک طرح سے اھل کے معنوں میں ہے (مفردات راغب)۔ جہاں ارشاد ہوتا ہے
قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ
(کہا اے نوح وہ ہر گز تمہارے اہل میں سے نہیں، بے شک وہ بد چلن ہے! ھود/46)
یہاں بے شک وہ نوح علیہ السلام کا حقیقی بیٹا ہے لیکن اپنے عمل کی بنیاد پر اھل سے خارج کر دیا گیا ہے۔ اھل اس کے علاوہ بہت سارے دیگر معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ بہت ساری آیات میں لفظ اھل کتاب استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح سے اھل لاہور، اھل کار، اھل عبادت یا نا اھل بھی بولے جاتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ اھل کا لفظ صرف خاندان اور اولاد کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ چنانچہ جب نبی اکرم السّلمان مِنّا أهلُ البَیت (سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے) کہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سلمان آپؐ کے خاندان یا آپکی نسل میں سے ہیں۔ قرآن جب آل فرعون یا آل لوط کہتا ہے تو اس سے مراد فرعون یا لوط کی اولاد نہیں ہوتی بلکہ اس کے تابع فرمان لوگ ہوتے ہیں۔
وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ، البقره/50)
تو غرق ہونے والے آل فرعون سے مراد فرعون کے لشکری وغیرہ تھے۔ خدا وند تبارک و تعالی سے کوئی نسبت کسی شخص، جگہ یا زمانے وغیرہ کی عظمت کو ظاہرکرنے کے لئے دی جاتی ہے۔ اور یہ چیز اسلام سے پہلے اور بعد ہر دو ادوار میں موجود رہی ہے۔ اس کی چند مثالیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں۔
نوٹ: فقط لفظی ترجمہ کیا گیا ہے، اور جیسا کہ ظاہر کہ خدا کی شان اس سے بلند ہے کہ ایسی باتوں کی اس سے نسبت دی جائے۔ پس ان آیات کو تاویل کی ضرورت ہے، اور بامحاورہ ترجمہ ناگزیر ہے۔ مثلاً ﷲ کا چہرہ فرض کر لیا جائے تو مراد ہے کہ ﷲ کے چہرہ کے علاوہ سب کچھ تباہ ہو جائے گا یعنی ﷲ کا باقی جسم بھی ؟ معاذﷲ کہ ﷲ جسم و جسمانیات سے پاک ہے۔
یہ تمام نسبتیں جو مذکورہ بالا آیات میں بیان ہوئی ہیں ان معنی میں نہیں لی جا سکتیں جن معنی میں ہم مادی انسان ایک دوسرے کو لیتے ہیں۔ مثلاً عیسی اگر ﷲ کی روح ہیں تو کیا ایسے ہی ہے جیسے ہمارے جسم میں موجود روح، کہ اگر روح کو نکال دیں تو جسم مردہ ہو جائے گا۔ معاذﷲ خدا کے بارے میں ایسی تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔ یا ﷲ کا چہرہ، ہاتھ، آنکھیں یا رنگ؟ اصلاً خدا کے بارے میں کوئی تشبیہ دی ہی نہیں جا سکتی کیوں وہ فرماتا ہے:
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ
(کوئی شئے اس جیسی نہیں! شوری/11)
پس تعبیر ”آلﷲ“ اس معنی میں نہیں کہ معاذﷲ ﷲ کی کوئی اولاد ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے روحﷲ اور بیت ﷲ کہا جاتا ہے لیکن ہم ﷲ کے لئے روح اور گھر کے قائل نہیں ہیں۔ پس یہ ایک مشرکانہ تعبیر نہیں ہے، اور یہ تعبیر بطور خاص ان لوگوں پر صادق آئے گی کہ جنہوں نے اپنے آپ کو ﷲ کی راہ میں وقف کر دیا، ﷲ کی رضا کو اپنی رضا پرمقدم جانا، اور ﷲ کی مرضی ان کے ہر عمل سے ظاہر ہوئی۔ اوراھل بیت محمدؐ سے بڑھ کر کون اس کا اھل ہو سکتا ہے۔
عیسائیوں نے حضرت عیسیؑ کو ﷲ کا بیٹا کہا تو اس کے مقابلے میں قرآن فرماتا ہے:
لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّهِ، نساء/172
گویا عبد ہونا فرزند ہونے کی نفی کرتا ہے۔ پس جب ہر مسلمان گواہی دیتا ہے کہ ”اشھد ان محمد عبدہ و رسولہ“ اور سورہ توحید کا قائل ہے تو وہ آلﷲ کا ان معنوں میں کیسے قائل ہو سکتا ہے کہ اسے خاندان کے معنوں میں لے۔